شہیدِ ربذہ، ابوذرغفاریؑ
آج صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید ربذہ جناب ابو ذر غفاریؑ کا یوم شہادت ہے۔ آپ کا اسم گرامی سنتے ہی جو پہلا لفظ ذہن میں آتا ہے وہ “وفاداری” ہے۔ تاریخ اسلام کی اس جلیل القدر ہستی کو مکتب اہلیبیت علیھم السلام میں انتہائی منفرد فضیلت حاصل ہے اور فضیلت کی وجہ اس ہستی کی محمدؐ و آل محمد علیھم السلام سے وفاداری ہے۔
حق تلفی، اختیارات کا ناجائز استعمال، کرپشن اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں سخت ترین جلا وطنی اور عالم مظلومیت میں شہید کیے جانے والی اس ہستی سے محبت رکھنے والے آج بھی خود کو ‘فکر بوذری” کا پیرو کہہ کر اس عظیم ہستی سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔
۔
جناب ابو ذر غفاری رض اصحاب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فہرست میں ایک نمایاں نام ہیں لیکن مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ میرے ملک میں جابجا بکھرے ہوئے “صحابہ کے نوکر” اس جلیل القدر صحابی رسولؐ کا زکر یا تو برائے نام کرتے نظر آتے ہیں اور یا کرتے ہی نہیں۔ اس کے برعکس وہ طبقہ جسے یہ صحابہ کے نوکر دن رات صحابہ کا گستاخ کہتے نہیں تھکتے، وہ طبقہ صدیوں سے اس جلیل القدر صحابی رسول ص سے اپنی اٹوٹ نسبت و محبت کا دم بھرتا آیا ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ جناب ابو ذر غفاریؑ کا تعلق علوی کیمپ سے تھا یعنی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے دل و جان سے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا آقا و مولا ع مانتے تھے۔
مجھے اپنے ملک میں موجود اس طبقے کے طرز عمل پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خود کو روشن خیال، لبرل اور انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتے ہوئے مغرب کے ہر بڑے نام کے قصیدے پڑھتا نظر آتا ہے۔ جو اپنے ملک میں اقربا پروری، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز بلند کرکے مغرب کی ایمانداری اور اعلی اخلاقی قدروں کی مارکٹنگ کرتا نہیں تھکتا۔ یہاں تک کے یہ طبقہ جرمن فلاسفر نطشے کا گھوڑے پر ہوتا ظلم دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھنے پر بھی عش عش کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس طبقے کو تاریخ کے اس عظیم اور مظلوم کردار کا تذکرہ کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی جس نے اقربا پروری، کرپشن، نا انصافی اور استحصال کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں سخت ترین جلا وطنی اور ظلم کا سامنا کیا، یہاں تک کہ عالم مظلومیت میں ہی شہید کردیا گیا۔
میں آپ کو مکمل یقین سے بتا سکتا ہوں کہ پاکستان کے اس روشن خیال، لبرل اور انسانی حقوق کے علمبردار طبقے کی ابو ذر غفاری رض کے بارے میں خاموش رہنے کی وجہ بھی وہی ہے جو صحابہ کے نوکروں کی خاموشی کی ہے۔ یعنی جناب ابو ذر غفاری رض کا علوی کیمپ کا حصہ ہونا۔ ویسے بھی جس طبقے کے منہ سے کبھی کربلا جیسے دلسوز واقعے اور خانوادہ رسالت ص پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف ایک لفظ نہ نکلا ہو، جو ہر برس محرم میں ناصبی لبادہ اوڑھ کر خانوادہ رسالت ص کا غم منانے والوں پر طنز کرتا آیا ہو اور جس نے یزید ملعون تک کا دفاع کر ڈالا ہو، اس سے امید رکھنا عبث ہے کہ وہ کبھی شہید ربذہ رض کی یاد میں کچھ کہے گا۔
۔
جناب ابو ذر غفاری رض کا کردار اس وجہ سے بھی انسانی حقوق کے ہر علمبردار کیلئے مثال ہونا چاہئے کہ اس ہستی کے نام کے ساتھ ایک سیاہ فام غلام جون بن حوی رض جیسے لا زوال کر دار کا نام بھی جڑا ہوا ہے۔ معرکہ کربلا کا منور و معطر شہید کہلانا جون بن حوی رض کا سب سے بڑا اختصصاص ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جناب ابو ذر غفاری رض کے ساتھ ان کا تعلق ان کی شخصیت کو مزید منفرد بناتا ہے۔ یہ سیاہ فام صحابی رسول ص حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) سے ہجرت کرکے مدینہ آیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، مولائے کائنات علیہ السلام کی غلامی میں رہا، امام حسن و حسین علیھم السلام کی خدمت گزاری کی اور پھر جناب ابو ذر غفاری رض کے ساتھ ایسا جڑا کہ جب جناب ابو ذر غفاری رض کو مدینہ سے جلا وطن کرکے شام بھیجا گیا تو یہ سیاہ فام محب رسول ص و آل رسول ع بھی ان کے ساتھ شام گیا۔ شام میں بھی جناب ابو ذر غفاری رض نے معاشی بددیانتی، اقربا پروری اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا تو انہیں شام سے بھی جلا وطن کرکے جون کے ہمراہ جبل الامل (موجودہ لبنان) جلا وطن کر دیا گیا۔ آج لبنان میں اگر مکتب اہلیبیت علیھم السلام کے ماننے والے موجود ہیں اور یہاں پائے کے علماء پیدا ہوتے رہے تو اس میں جناب ابو ذر غفاری رض اور جون بن حوی رض کی محنت و ریاضت کا بہت بڑا کردار ہے۔
۔
ابو ذر غفاری رض کو بلاخر جون کے ہمراہ مدینہ سے ربذہ جلا وطن کیا گیا اور اسی مقام پر عالم مظلومیت میں آپ نے شہادت پائی جبکہ جون بن حوی کا اگلا تذکرہ اس وقت ملتا ہے جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کوفہ (کربلا) کیلئے روانہ ہو رہے تھے۔ جون نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں شہادت پا کر گویا یہ ثابت کیا کہ ان کا آقا اور ان کا دوست ابو ذر غفاری رض اگرچہ امام حسین علیہ السلام کی نصرت کیلئے موجود نہیں لیکن وہ ابو ذر غفاری رض کی نیابت میں یہ فرض ادا کرے گا۔
۔
خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والے اگر چاہتے تو ابو ذر غفاریؑ اور جون بن حوی جیسے لازوال کرداروں کا ذکر کرکے ثابت کر سکتے تھے کہ یہ حریت فکر اور حق پرستی کے ہر استعارے کی تکریم کے قائل ہیں۔ یہ چاہتے تو مغرب میں نسلی تعصب کی بدترین مثالوں کے سامنے جون بن حوی رض جیسے عظیم سیاہ فام کردار کو پیش کر سکتے تھے جس کی ابو ذر غفاری رض سے دوستی ایک مساوات کی عظیم تھی۔ امام حسین علیہ السلام کا جون کی پیشانی کا بوسہ لیکر آخری بار گلے سے لگانا نسلی امتیاز سے لتھڑے مغربی معاشروں کے سامنے پیش کیے جانے کے قابل ایک بے مثل منظر تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ صحابہ کے نوکروں کی طرح ان کی دشمنی بھی ہر اس شخص سے ہے جو علوی کیمپ سے نسبت رکھتا ہے۔ چاہے ابو ذر غفاری رض ہوں، جون رض ہوں، شیعان علی علیہ السلام ہوں یا خود علی علیہ السلام ہوں۔
” میں نوکر جناب ابو ذر غفاریؑ کا “