ارشاد بھٹی کے مولانا شہنشاہ نقوی سے سوالات
گزشتہ دو دنوں سے ارشاد بھٹی اور مولانا شہنشاہ نقوی کی پوڈکاسٹ کا کافی ذکر ہوتا رہا۔ چونکہ پوڈکاسٹ دو گھنٹے سے زیادہ طویل تھی اس لئے میں دیکھنے کیلئے وقت نہ نکال سکا اور بغیر سنے رائے دینا بھی بالکل مناسب نہ تھا۔ البتہ پوڈکاسٹ کے مختلف ٹکڑے اور اس پر تبصرے نظر سے گزرتے رہے۔ آج ہمت کرکے مکمل پوڈ کاسٹ سنی، کچھ حصے فاسٹ فارورڈ بھی کیے اور سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ پوڈ کاسٹ کے سوالات اور جوابات، یعنی ارشاد بھٹی اور مولانا شہنشاہ نقوی، دونوں کے بارے میں اپنی رائے یا اپنا مشاہدہ بیان کرنی کی کوشش کرنی چاہئے۔
۔
میں اگر ارشاد بھٹی کے بارے میں مختصر بات کروں تو وہ یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء سے پوڈکاسٹ کرنے کہ اس سلسلے میں جب مولانا شہنشاہ نقوی سے قبل دیگر مکاتب فکر کے علماء سے انٹرویو کیلئے گیا تو وہ فقط اُس عالم سے انٹرویو کیلئے گیا لیکن جب وہ مولانا شہنشاہ نقوی کا انٹرویو کرنے آیا تو اُس نے فقط شہنشاہ نقوی صاحب کا انٹرویو نہیں کیا بلکہ اُس نے پورے مکتب تشیع کو کٹہرے میں کھڑا کرکے گویا انٹیروگیشن شروع کردی۔ ارشاد بھٹی سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہے کہ جس طرح کے سخت سوالات اُس نے ایک مکتب فکر کے بارے میں کیے، کیا ایسے ہی سوالات وہ اُن علماء سے بھی کرنے کی جرات کرے گا جن کے پاس وہ شہنشاہ نقوی صاحب سے پہلے گیا؟ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اکثر رمضان نشریات میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا تھا کہ ایک شیعہ عالم کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اُس سے سخت سوالات پوچھے جاتے تھے۔ ارشاد بھٹی نے بھی یہی کیا۔ دیگر علماء سے بھلے ہی اُس نے سخت سوالات پوچھے ہوں، لیکن وہ تمام سوالات فقط اُس عالم کے بارے میں، اُس کے طرز عمل کے بارے میں، اُس کے بعض انفرادی نظریات کے بارے میں یا زیادہ سے زیادہ اُس کے مکتب فکر کے چند مجموعی پہلووں کے بارے میں تھے جبکہ ایک شیعہ عالم دین سے سوالات بلکہ جرح کی گئی اُس کے مکتب فکر کے عقائد کے بارے میں۔ سوالات سن کر اندازہ ہوا جیسے کسی ایسے مولوی سے سوالات ترتیب دلوا کر لایا ہو جو شیعوں سےتعصب کیلئے معروف ہو۔ ایسے ہزار ہا مولویوں کو میں بھی بچپن سے دیکھ اور سن رہا ہوں اس لئے بہت اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں کہ آیا یہ لکھے ہوئے سولات ارشاد بھٹی کی اپنی “تحقیق” تھے یا کہیں سے لکھوائے گئے تھے۔ کیوں کہ یہ وہ سوالات تھے جو کسی بھی شیعہ کیلئے نئے نہیں۔ لہذا ارشاد بھٹی کا یہ پوڈ کاسٹ اس حوالے سے کافی حد تک جانبدار اور تعصب کا شکار محسوس ہوا۔
دوسرا اہم نکتہ جس کا ذکر میں اکثر کرتا رہتا ہوں وہ ہے اتحاد اور جوڑنے وغیرہ جیسی باتوں کا شوشہ۔ ارشاد بھٹی نے متعدد بار کہا کہ وہ جو یہ پوڈ کاسٹ کر سلسلہ لیکر آیا ہے، اس کا مقصد سب کو جوڑنا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتی کہ سب ایک اللہ ایک رسولؐ ایک قران پر کیوں متحد نہیں ہو سکتے۔ یہ اتنے فرقے کیوں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی لئے وہ یہ انٹرویو کر رہا ہے تاکہ سب قریب آسکیں۔ جبکہ جس طرح کے سوالات وہ ایک شیعہ کیلئے تیار کر کے لایا، وہ خود یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھے کہ اہل سنت کی اکثریت کی طرح اُس کے نزدیک بھی اتحاد اور آپس میں جڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ شیعہ اپنے عقائد بالائے طاق رکھ کر اُن میں ضم ہوجائیں۔ یہی المیہ ہے کہ یہاں نیشنل ٹی وی سے وابستہ ایک صحافی بھی ایک کٹ ملا کی طرح بقائے باہمی یعنی Coexistance کا مفہوم سمجھنے اور اس کی ترویج کے بجائے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اتحاد کیلئے دوسرا گروہ آپ کے عقائد و نظریات کے احترام کے نام پر اپنے عقائد و نظریات ترک کر دے یا اُن کا اظہار ترک کر دے۔ آپ کو رمضان نشریات میں مرحوم ڈاکٹر ضمیر اختر نقویؒ سے کیا جانے والا تقاضا یاد ہوگا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی محفلوں میں اہل بیتؑ کا ذکر کریں یا کرتے ہیں تو اسی طرح شیعہ حضرات بھی اپنی مجالس میں خلفاء کا ذکر کیا کریں۔ جس پر نقوی صاحب نے جو جواب دیا تھا وہ آج تک سب کو یاد ہے۔ میں فقط اُس جواب کی پنچ لائن لکھ کر آگے بڑھتا ہوں کہ “لوگ سنتے ہی نہیں اُٹھ کے چلے جاتے ہیں۔ مجمع ذکرِ علیؑ پر بیٹھتا ہے۔”
بہرحال میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ ایک مائینڈ سیٹ ہے کہ آپ دوسروں سے اپنے عقائد و نظریات کے نہ صرف احترام بلکہ اُن کے ذکر کیے جانے کا تقاضا بھی کریں۔ آسان الفاظ میں اسے ایک آمرانہ طرز عمل کہا جائے گا۔ جب ارشاد بھٹی بار بار یہ سوال پوچھ رہا تھا کہ اہل بیتؑ نے اپنی اولاد میں سے بعض کے نام خلفاء کے نام پر رکھے تو دراصل اُس سوال کا پس منظر بھی یہی مائینڈ سیٹ تھا کہ جب اُنہوں نے نام رکھے تو آپ بھی احترام کریں۔ میرا ماننا ہے کہ اِس مائینڈ سیٹ کو تقویت پہنچانے میں خود شیعہ علماء کے اُس مخصوص طبقے کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو اتحاد بین المسلمین کی یک طرفہ کوششوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں، اتنا زیادہ آگے کہ انہیں خود یہ احساس نہیں ہوپاتا کہ اس سے آگے بس خود کو دوسروں میں ضم کر دینے کی کثر ہی باقی بچتی ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اتحاد و محبت کی جتنی یک طرفہ ٹریفک شیعوں کے اس مخصوص طبقے کی طرف سے چلائی جاتی ہے، دوسری طرف سے اس کا جواب ہمیشہ مایوس کن ہی ملتا ہے۔ بصد معذرت یہی طرزِ عمل قبلہ شہنشاہ نقوی کے انٹرویو میں بھی نظر آیا۔
۔
جہاں تک تعلق مولانا شہنشاہ نقوی کے بعض جوابات کا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ بعض سوالات کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کوئی بھی بات اپنے نظریات سے ہٹ کر کی۔ کم و بیش یہی باتیں وہ اکثر اپنی مجالس میں بھی کرتے آئے ہیں۔ لہذا بعض حضرات کا یہ کہنا درست محسوس نہیں ہوتا کہ قبلہ نے بعض جوابات ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے مختصر اور احتیاط کے ساتھ دیئے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو مولانا ایک بار یکم محرم الحرام کو نشتر پارک کے مرکزی منبر سے بردران اہل سنت کی ایک قابل احترام شخصیت کے قتل کی مذمت بھی کر چکے ہیں۔ کچھ جوابات بلکہ بعض سوالات کے انتہائی مختصر اور ایک جیسے جوابات سن کر ایسا بھی محسوس ہوا جیسے یا تو انہوں نے دانستہ جواب دینے سے گریز کیا یا ان کی موضوع پر ضروری دسترس نہ تھی۔ ہاں امام علیؑ کی افضلیت سے متعلق سوال پر اُن کے دو ٹوک موقف کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، اس سوال کا جواب مولانا شہنشاہ نقوی نے بہت بہترین دیا۔
میری اپنی رائے یہ ہے، جس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں کہ جس طرح کے سوالات ارشاد بھٹی تیار کرکے لایا تھا، ان میں سے بعض کے بہتر اور مفصل جوابات دینا نہ صرف بہتر تھا بلکہ ضروری بھی تھا۔ مجھے سب سے زیادہ مایوسی امام حسینؑ کے غم میں گریہ کے بارے میں کیے جانے والے سوال کے جواب پر ہوا۔ صرف اس لئے کہ مجھ گناہگار کیلئے یہ موضوع ہمیشہ سے اپنے دل کے بہت قریب ہے۔ کیا یہ اچھا موقع نہ تھا کہ قبلہ ارشاد بھٹی کے اس سوال کے ذرئعے اہل سنت کتب اور اپنی کتب کی روشنی میں امام حسینؑ کے غم میں رونے کی فضیلت بیان کرتے اور یہ واضح کرتے کہ اربوں انسانوں سے بھری اس دنیا میں اگر ایک انسان کے آنکھ میں نامِ حسینؑ سن کر آنسو آتا ہے تو یہ بذاتِ خود معرفت کی ہی ایک منزل ہے۔ قبلہ اسے بتاتے کہ آپ اس گریہ کو فقط رسم نہ سمجھئے، یہ بی بیؑ کے اپنے باباؐ سے پوچھے گئے سوال اور سوال کے جواب کا عملی اظہار ہے۔ قبلہ اُسے بتاتے کہ اہل سنت کتب میں موجود ہے کہ کس طرح امام حسینؑ کی دنیا میں آمد پر رسول ؐ اللہ نے نواسے کی گردن پر بوسے لیکر گریہ کیا تھا، کیسے اُم المومنین جناب اُم سلمیؑ کو ایک شیشی میں خاک دیکر گئے تھے کہ ایک روز آئے گا جب یہ خاک سرخ ہوجائے گی، جب ایسا ہو تو سمجھ لینا میرا حسینؑ مارا گیا۔ قبلہ اُسے بتاتے کہ یہ گریہ امام سجادؑ کے مسلسل گریے کی سنت کی پیروی ہے۔ یہ وصیت امام حسینؑ پر عمل ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیو تو مجھے یاد کرو، جب کسی غریب الوطن کا ذکر ہو تو مجھ پر گریہ کرو۔ ارشاد بھٹی نے یہ سوال گریہ کی اہمیت گھٹانے کیلئے پوچھا تھا، آپ گریہ کی اہمیت ، بلا مشروط اہمیت بتا کر اپنے ذاکر امام حسینؑ ہونے کا حق ادا کر دیتے ۔ لیکن ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں تھا کیوں کہ جو قبلہ نے بتایا وہی قبلہ اور قبلہ کے ہم فکر دیگر علماء کی رائے ہے جس پرچار وہ منبر سے کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کردار سازی، معرفت، مقصدیت اور میدانِ عمل جیسے موضوعات سے “مزین” ان مجالس سے خطاب کرنے والے ان “باعمل” علماء کے نزدیک اگر کوئی چیز سب سے غیر اہم ہے تو وہ یہی گریہ ہے۔ امام حسینؑ کے غم میں گریہ۔
اسی طرح جب ارشاد بھٹی سے سیاق و سباق سے ہٹ کر کسی روایت کا ایسا اقتباس نقل کر دیا جس میں شیعوں کی مذمت تھی اور بات آگے بڑھاتے ہوئے امام حسنؑ اور پھر حاکم شام تک لے آیا تو کیا یہ بہتر نہ تھا کہ قبلہ یہاں بجائے اس بات کو قبول کرنے کے یہ بتاتے کہ وہ صلح نہیں بلکہ سیز فائر تھا اور امام حسنؑ نے یہ فرما کر معاہدہ کیا تھا کہ میں اپنے جدؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ معاہدہ کررہا ہوں، یعنی صلح حدیبیہ۔ امام حسنؑ کا یہ فرمان بھی نقل کردیتے کہ اگر میں یہ معاہدہ نہ کرتا تو وہ (اہل شام) ہمارے ایک بھی چاہنے والے کو زندہ نہ چھوڑتے۔ جب سوال پوچھنے والا کوئی لحاظ نہیں کر رہا تو میری رائے میں جواب دینے والے کو بھی علمی انداز میں لحاظ نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ جناب عمار یاسر کی شہادت کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا اور اسی سال تک منبروں سے جاری رہنے والی ایک قبیح رسم کا بھی۔ جب ارشاد بھٹی امام موسی کاظمؑ سے شیعوں کی مذمت میں کوئی فرمان منسوب کر رہا تھا تو اسے قبول کرنے کے بجائے پوچھنا چاہئے تھا کہ وہ امام موسی کاظمؑ کے حالات زندگی کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ عباسی آمر ہارون الرشید کے بارے میں اُس کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ علی بن یقطین کے نام سے واقف ہے؟ کیا اُسے معلوم بھی ہے کہ امام موسی کاظمؑ کے دور میں محبانِ اہل بیتؑ کی حالت تھی کیا؟ افسوس قبلہ کو مجموعی طرز عمل ایک صحافی کے سامنے انتہائی دفاعی تھا۔ بہت سے جوابات دیتے ہوئے وہ غیر ضروری احتیاط کرتے رہے یا مصلحت سے کام لیتے رہے۔
میری رائے میں اگر یہی سوال مولانا اسد علی شاکری جیسی فکر کے کسی عالم سے پوچھے جاتے تو شاید جواب کہیں زیادہ مدلل، مفصل اور اپنے مکتب فکر کی درست نمائیندگی کا حق ادا کرپاتے۔ بالخصوص گریہ سے متعلق سوال، اہل بیتؑ کی اولادوں کے ناموں سے متعلق سوال اور چند دیگر سوال جن کے جوابات تشنہ محسوس ہوئے۔ مولانا اسد علی شاکری نے ٹی وی پر نشر ہونے والے ایسے متعدد پروگرامز میں شرکت کی ہے جن میں اُن سے اسی طرح کے سوال پوچھے گئے جن کے مفصل اور مدلل جواب دیئے گئے۔ ایک پروگرام میں تو مولانا نے باقاعدہ “رافضی” کا لفظ کہہ کر یہ جواب دیا تھا کہ میں آپ کو اپنا یعنی ایک رافضی کا عقیدہ بتا رہا ہوں۔ بعض جگہوں پر آپ کو مصلحت اور اتحاد سے آگے بڑھ کر سوچنا چاہئے، جب آپ اپنے مکتب فکر کی نمائیندگی کر رہے ہوں۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب ایک صحافی آُ کے مکتب کے خلاف سوال لیکر آیا ہو اور ایسا ظاہر کر رہا ہو جیسے شیعوں نے کوئی جرم کر دیا ہے اس لئے اُن سے جواب دہی ہوگی۔ بشرطیکہ کہ آپ کے پاس جواب دینے کیلئے متعلقہ موضوع پر وافر مطالعہ اور علم موجود ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ڈیجیٹل یا پبلک نشریاتی ذرائع پر جواب دینے کیلئے کا اسلوب اختیار کیا جائے، اس کا خیال بہرحال ضرور رکھا جائے۔ مولانا شہنشاہ نقوی بولنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، لہذا میری ناقص رائے میں ارشاد بھٹی کو کچھ سوالات کے علمی اور تفصیلی جوابات دیا جانا ضروری تھا۔ جب ایک شخص اتحاد اور جوڑنے کے نام پر آپ کے مکتب فکر کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا کر لے آیا ہو تو نہ صرف آپ کو اُسے گھر تک پہنچانا چایئے بلکہ اُس کے ہمراہ چند جوابی سوال بھی بھجوا دینے چاہئے کہ جناب اگلے انٹرویو میں یہ سوال میری طرف سے پوچھ لیجئے گا۔ ایک ڈیڑھ درجن سوال تو مجھ جیسا عام شیعہ ہی لکھ کر قبلہ کو پیش کر دے گا۔ تاکہ ارشاد بھٹی کو یہ پیغام مل جائے کہ جب تم دوسرے مکتب کے علماء کا انٹرویو ایک شخصیت کے انٹرویو کے طور پر کرتے ہو اور دوسری شخصیت کا انٹرویو کرتے ہوئے اُس کے پورے مکتب کے خلاف چارج شیٹ بنا کر لے آتے ہو تو ایک جوابی چارج شیٹ بھی ساتھ لیتے جاو۔
۔
ایسے درجنوں سوالات میں سے فقط ایک سوال یہاں لکھ کر بات ختم کرتا ہوں۔ ارشاد بھٹی ایک صحافی ہے لہذا بطور صحافی میں ایک سوال اُس کیلئے لکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے مسلک کے علماء سے یہ ضرور پوچھے کہ یہ کس قسم کا انصاف ہے کہ جس شخصیت کی تمام اولاد اسلام کی خاطر قربان ہوگئی، جس کی آغوش میں رسولؐ اللہ نے پرورش پائی، جو جب تک زندہ رہے رسولؐ اللہ کے سامنے ڈھال بنے رہے، جن کے دنیا سے رخصت ہونے پر رسولؐ اللہ نے پورے سال کو غم کا سال قرار دیا۔ آپ اُس محسنِ اسلام جناب ابو طالب علیہ السلام کو نعوذ باللہ ک /فر کہتے ہیں؟ کیا بطور ایک صحافی آپ کا ذہن یہ بات تسلیم کرتا ہے؟ اگر تھوڑی سی بھی شرم موجود ہے تو بطور مسلمان نہ سہی بطور ایک صحافی یہ سوال ضرور پوچھنا کہ ہماری کتابوں میں محسنِ اسلام کو نعوذ باللہ ک/فر کیوں لکھا گیا ہے؟ کیا یہ احسان فراموشی نہیں؟