تذکرہِ اہل بیتؑعزاداری

نسانوں کا ایک ہجوم تھا جو خاموشی سے ایک سمت میں چلا جارہا تھا۔ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر بسوں کو ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور ہی روکا جارہا تھا اور باقی فاصلہ لوگ پیدل طے کررہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور فضا میں ایک عجیب اُداسی اور یاس کی سی کیفیت تھی۔

یہ کوفہ تھا, ہم سب مسجدِ کوفہ کی جانب گامزن تھے اور یہ اداسی سے بھری شب، شبِ ضربت تھی۔ میں مسجد میں داخل ہوا تو کچھ لمحوں کیلئے مسجدِ کوفہ کے رعب، روشنیوں سے منور اُس کے وسیع صحن اور صحن کے عین اوپر کھلے سیاہ آسمان کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گیا۔ مسجدِ کوفہ کی دیواریں اور میناروں میں نصب گھڑی دیکھ کر لاشعوری طور پر اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا خیال بار بار ذہن میں آرہا تھا۔ اِس گھڑٰی میں عجیب کشش تھی جیسے یہ صرف وقت بتانے کیلئے نہیں بلکہ تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار کی یاد دہانی کیلئے نصب کی گئی ہو۔
۔
یہ وہ مسجدِ کوفہ تھی جس کا ذکر مجالس میں سُن سُن کر میں بڑا ہوا تھا۔ یہ وہ شہر تھا جس کی تاریخی اہمیت کو ایک مخصوص پراپگینڈے کے ذرئعے نقصان پہنچایا جاتا رہا۔ یہ وہی مسجد تھی جس کی منبر سے اعلانِ سلونی کیا گیا، یہ وہی مسجد تھی جہاں آدمؑ سے لیکر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک، سب کے مصلے موجود تھے، یہ وہی مسجد تھی جس کا ایک دروازہ امام علیؑ کے گھر کے سامنے کھلا کرتا تھا، یہ وہی مسجد تھی جہاں امام علیؑ عدالت لگایا کرتے تھے۔ یہ وہی مسجد تھی جہاں امام علیؑ کو ضربت لگی اور یہ وہی مسجد تھی جہاں فزت و ربِ الکعبہ کی صدا بلند ہوئی۔
۔
ہم نے شبِ قدر اور مسجدِ کوفہ سے منسوب اعمال انجام دیئے، انبیاء سے منسوب مقامات پر نفل ادا کیے اور پھر سب دائرہ بنا کر بیٹھ گئے تاکہ ایک چھوٹی سی مجلس کر لیں۔ مولانا نے مصائب پڑھے اور سوز خوان نے سلام پڑھا۔ میں نے دیکھا کہ مجلس کے بعد لوگ بے اختیار سوز خوان سے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر روتے رہے۔ شاید کچھ غموں کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انسان بے اختیار ایک کندھا ڈھونڈتا ہے، جس پر سر رکھ کر رو سکے۔ یہ صرف اور صرف اعجازِ غمِ اہلیبیتؑ ہے کہ نہ ان کا ذکر کبھی پرانا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا غم۔ جب بھی سنیں یہی محسوس ہوتا جیسے کوئی بہت تازہ غم ہے۔ ورنہ خود ہی سوچیں کون روتا ہے سدا بچھڑنے والوں کو؟
۔
مسجد کوفہ میں سفیرِ حسین حضرت مسلم بن عقیلؑ، ہانی ابن عروہؑ اور مختار ثقفیؓ کی ضریح بھی ہیں۔ وہی مسلم بن عقیلؑ جن کا سر ابنِ زیاد ملعون کے حکم پر کوفہ کے دار الامارہ کی چھت پر قلم کیا گیا۔ وہ ہانی ابنِ عروہؑ جو صحابی امام علیؑ تھے جنہیں ۹۹ برس کی عمر میں ابنِ زیاد نے اس لئے قتل کروایا کیونکہ اُنہوں نے مسلم بن عقیلؑ کو اپنے گھر مہمان رکھا اور ابنِ زیاد ملعون کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔ وہی مختار ثقفیؓ جن کو اُنکے پانچ ہزار ساتھیوں سمیت یزید ملعون کے حکم پر قید رکھا گیا۔ بعد از واقعہ کربلا، اِنہوں نے ہی ابنِ زیاد،ل عمر بن سعد شمر بن جوشن حرملہ سمیت دیگر قاتلانِ امام حسینؑ و انصارانِ حسینؑ سے بدلہ لیا۔

کہیں پڑھا تھا کہ مسلم بن عقیلؑ اور ہانی بن عروہؑ کو قتل کردینے کے بعد ابنِ زیاد کے حکم پر اُن کے اجسامِ مطہر کو کوفہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا تھا اور سرِ شام بغیر غسل و کفن صحرا میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایسے میں صحابیِ امام علیؑ اور عاشقینِ امام علیؑ کے دلوں کی دھڑکن میثمِ تمار کی بیوہ نے مسجد کوفہ میں ان دونوں کی تدفین کا انتظام کیا تھا۔
۔
فجر کا وقت قریب آرہا تھا اور مسجد کوفہ کے ایک مخصوص حصے میں لوگوں کا رش بڑھتا جارہا تھا۔ یہ وہ محراب تھی جہاں امام علیؑ پر حالتِ سجدہ میں وار کیا گیا۔ اذانِ فجر میں کچھ وقت باقی تھا۔ چودہ صدیاں قبل اس وقت امام علیؑ جب آخری بار گھر سے نمازِ فجر کیلئے روانہ ہورہے تھے تو گھر میں اُن کی پالی ہوئی مرغابیوں نے بے چین ہوکر اُنہیں چاروں جانب سے گھیر لیا تھا جیسے امام علیؑ کو روکنا چاہ رہی ہوں۔ کبھی کبھی اِن بے زبانوں پر سلام بھیجنے کو جی چاہتا ہے، چاہے کربلا کا ذوالجناح ہو یا کوفہ کی یہ مرغابیاں۔
۔
اذانِ فجر میں بس کچھ ہی لمحے بچے تھے۔ ہر جانب سے لبیک یا علیؑ کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ تھدمت واللہ ارکان الھدی کی صدائیں عجیب کیفیت پید اکر رہی تھیں۔ وقتِ ضربت کے قریب یہ جملہ یعنی ” بخدا آج ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے” عجیب کیفیت سے دوچار کررہا تھا۔ میں چاہ کر بھی اُس کیفیت کا الفاظ میں بیان نہیں کرپارہا شاید یہی اِس پرتاثیر جملے کا کمال ہے۔

پھر اچانک روشیاں گُل ہوگئیں، محراب میں سرخ روشنی ظاہر ہوگئی۔ درود کے بعد موذن نے اللہ اکبر کہا اور یہاں گریے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ اشہد ان لا الا اللہ کے ساتھ گریہ اور بلند ہوا، اشہد ان محمد رسول اللہ پر آوازیں مزید بلند ہوگئیں۔ اشہد ان علی ولی اللہ کی سدا گونجی تو کوئی یا علیؑ پکار کر روتا رہا، کسی نے روتے ہوئے تھدمت واللہ ارکان الھدی کہہ کر سر پیٹنا شروع کیا اور کسی نے ضربت کو یاد کرنے کیلئے قمہ کا سہارا لیا۔ عجیب منظر تھا جب سرخ روشنی والی محراب کے اطراف میں لبیک یا علیؑ کے ساتھ گریہ و ماتم کا یہ منظر دیکھ کر بار بار گمان ہوتا رہا کہ یہ محراب خالی نہیں ہے یہاں بس ابھی ابھی ضربت لگی ہے، بس ابھی ابھی فزت و رب الکعبہ کی صدا بلند ہوئی ہے۔
۔
اذان ختم ہوئی، ماتم تمام ہوا اور نماز کی صفیں درست ہوگئیں۔ لیکن گریہ بدستور جاری رہا۔ لوگ اپنے علیؑ کو اور اپنے علیؑ کے جملے “فزت و رب الکعبہ” کو یاد کرکے روتے ہوئے اللہ کے سامنے سر بسجود ہوگئے۔ میں نے بھی نماز پڑھی اور مسجد کوفہ کو الوادع کہتے ہوئے باہر آگیا لیکن دل وہیں اس محراب کے سامنے رہ گیا جہاں کچھ دیر قبل ایسا محسوس ہوا تھا جیسے بس ابھی اس محراب میں ضربت لگی ہے، بس ابھی فزت و رب الکعبہ کی صدا بلند ہوئی ہے۔

تھدمت واللہ ارکان الھدی
۔
شب ضربت 1436 ھ