تذکرہِ اہل بیتؑ

کیا امام سجادؑ کو عابدِؑ بیمار یا بیمارِ کربلا کہنا درست ہے؟

امام سید سجاد علیہ السلام کے مصائب بیان کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص انہیں بیمار کربلا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مرثیوں میں سوز و سلام میں عابدؑ بیمار کی اصطلاح ہمیشہ سے استعمال ہوتی آئی۔ مقصد صرف اور صرف امام سجاد علیہ السلام کے مصائب کربلا، کوفہ و شام کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ کون شیعہ ہوگا جو اپنے اِمام کو بیمار امام اس پس منظر سے کہے کہ وہ نعوذ باللہ بے بس تھا، کمزور تھا اور ثم نعوذ باللہ محتاج تھا۔ ہم ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کی ولایت کے ماننے والے شیعہ اثناء عشریہ ہیں۔ ولایت یعنی اتھارٹی اور تصرف۔ وہ صاحبان ولایت جو “من عندہ علم الکتاب” کے مصداق ہیں یعنی پوری کتاب کا علم رکھنے والے راسخون فی العلم جو اعجاز امامت کے ذرئعے یہ قدرت رکھتے ہیں کہ اپنے پیاروں کے بے کفن لاشوں کی تدفین کیلئے کوفہ سے کربلا آجائیں اور قبیلہ بنی اسد کی رہنمائی فرما دیں جن کی امامت کی گواہی حجرِ اسور دے دے۔
۔
مجھے یہ تمہید اس لیے بیان کرنا پڑی کیوں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک طبقے کو امام سید سجاد علیہ السلام کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے انہیں بیمار کربلا یا عابدؑ بیمار کہنے پر بہت اعتراض ہے۔ اس طبقے کی رائے پڑھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا جیسے یہ ایسا سمجھتا ہے کہ مرثیوں، نوحوں اور مصائب میں امام سید سجاد علیہ السلام کی بیماری کا تذکرہ کرنے کا مقصد نعوذ باللہ یہ ہے کہ جیسے لوگ امام کی بعد از واقعہ کربلا صبر آزما جد و جہد کو جھٹلا رہے ہیں، کوفہ و شام میں امام کے خطبوں کو فراموش کر رہے ہیں اور نعوذ باللہ امام سجاد علیہ السلام کو ایک کمزور، بیمار اور لاغر شخص کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یحالانکہ اِس طبقے کو معلوم ہونا چاہئے کہ مصائب بیان کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ مظلوم کی مظلومیت اور ظالم کا ظلم بیان کیا جائے۔
۔
اگر یہی منطق استعمال کی جائے تو پھر بات مولا حسین علیہ السلام کی ذات اقدس تک پہنچے گی کہ یہ کیا ہمیشہ امام کے مصائب اور مولا کی مظلومیت بیان ہوتی رہتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی جنگ صفین و نہروان وغیرہ میں شرکت اور جوانمردی کا ذکر کیوں نہیں ہوتا۔ شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بعد حاکم شام کے دور اقتدار میں امام حسین علیہ السلام کی حکمت و بصیرت کا تذکرہ کیوں نہیں ہوتا فقط امام کے مصائب کیوں بیان ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہوبہو وہی نظریہ ہے جو انجینئر محمد علی مرزا جیسے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والے پاپولسٹ اختیار کرتے ہیں کہ شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت بیان کرکے بس گریہ و ماتم تک خود کو محدود کر لیا، ہائے حسین علیہ السلام کے بجائے شہادت امام حسین علیہ السلام پر واہ یا حسین علیہ السلام نہیں کہا۔ یہ ہر اس شخص کا نظریہ ہے جو مظلومیت کو نعوذ باللہ بزدلی یا عیب سمجھتا ہے حالانکہ عیب ظالم ہونا ہے، مظلوم ہونا نہیں۔ خدا ظالم پر لعنت کرتا ہے اور مظلوم کا مددگار بنتا ہے۔ مظلومیت عیب نہیں، قوت ہے۔ کم از کم واقعہ کربلا سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔ آج ظالموں کا نام گالی بن چکا اور مظلوموں سے منسوب خاک بھی خاک شفاء کہلائی گئی۔ غمِ حسینؑ سے بغض رکھنے والوں کی سب سے بڑی فکری پستی یہی ہے کہ یہ لوگ مظلومیت اور مظلومیت کے تذکرے کو عیب سمجھتے ہیں۔

میرے نزدیک وہ لوگ پڑھ لکھ کر بھی شعور سے عاری کہلائے جاینگے جن کے نزدیک مظلوم کی مظلومیت بیان کرنا بزدلی ہے۔ مظلوم کی مظلومیت بیان کرنا ہی سب سے بڑی حق گوئی ہے کیوں کہ یہ ظالم کے چہرے سے نقاب کھینچتی ہے۔ واقعہ کربلا کی اصل قوت ہی یہی ہے اور یہی امام حسین علیہ السلام کا زندہ معجزہ ہے کہ مولا کی مظلومیت نے ظالم کو شکست دی۔ تلوار پر خون کی فتح فقط محاورہ نہیں آفاقی حقیقت ہے۔ امام حسینؑ کو اپنا مولا اور امام ماننے والا کوئی شیعہ نہیں ہوگا جو امام حسینؑ کو مظلوم کہنے کا مطلب یہ سمجھے کہ امام حسینؑ نعوذ باللہ بے بس اور بے اختیار تھے۔ امام حسینؑ نے اپنے اختیار و تصرف کی ایک چھوٹی سی جھلک روز عاشور دکھلائی تھی جب لشکرِ یزید ملعون پر یہ کہہ کر حملہ کیا تھا کہ تم نے میرے عباسؑ کو مار ڈالا، تم نے میرے اکبرؑ کو مار ڈالا، تم نے میرے قاسمؑ کو بھی مار ڈالا؟ اب اِس بوڑھے کی جنگ دیکھو، اب اِس بھوکے کی جنگ دیکھو، اب اِس پیاسے کی جنگ دیکھو، اب اُس کی جنگ دیکھو جس نے اپنا چھ ماہ کا بچہ دفنا دیا۔
۔
بہرحال بات دوسری طرف نکل گئی۔ امام سجاد علیہ السلام کی زندگانی اور دور امامت کا اہم ترین حصہ واقعہ کربلا اور سفر کوفہ و شام ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جسے یاد کر کے ہمارا مظلوم امام تمام عمر گریہ کرتا رہا۔ ہم جب امام سجاد علیہ السلام کی بیماری کا ذکر کرتے ہیں تو وہ امام سجاد علیہ السلام کے مصائب کربلا کے باب میں کرتے ہیں۔  مرثیوں، نوحوں اور سوز و سلام میں جب یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو اِسی پسِ منظر کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ واقعہ کربلا کے بعد ٣٥ برس تک امام سجاد علیہ السلام نے جو طویل اور صبر آزما جدوجہد کی اس نے بنو امیہ کے زوال کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو آہستہ آہستہ دوبارہ آل محمد علیھم السلام کے گرد جمع ہونے پر مائل کیا یہاں تک کہ دور باقرین علیھم السلام تک امام سجاد علیہ السلام کی بنائی ہوئی بنیادوں پر عمارت کھڑی ہوگئی۔

لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ محرم کے ایام واقعہ کربلا کے مصائب بیان کرنے کے دن ہیں۔ وہ مصائب جنہیں یاد کرکے امام سجاد علیہ السلام تمام عمر روتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ ہوتا ہے تو امام سجاد علیہ السلام کی ہر اُس مصیبت کا تذکرہ ہوتا ہے جو مولا سجاد علیہ السلام نے کربلا، کوفہ و شام میں جھیلی۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ جب ہر سال ٢٥ محرم کو واقعہ کربلا کے ٣٥ برس بعد شہید کیے جانے والے مولا سجاد علیہ السلام کے مصائب بیان ہوتے ہیں تو سننے والوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام ٣٥ برس بعد نہیں بلکہ واقعہ کربلا میں یا اس کے بعد ہی شہید ہوئے، صرف اِس لیے کہ امام سجاد علیہ السلام کے مصائب کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ مولاؑ کا ہر محب یہ مصائب سن کر ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ کیا امام سجادؑ نے خود تین بار الشام کہہ کر ہمیں نہیں بتلایا کہ مولاؑ پر سب سے سخت مصیبت کہاں ٹوٹی؟
۔
ایام عزا اہل بیت علیھم السلام کے مصائب بیان کرنے کے ایام ہیں۔ خود ائمہ اہلیبیت علیھم السلام ان ایام میں اپنے جد مولا حسین علیہ السلام کے مصائب سننے کا اہتمام کرتے آئے۔ لہذا ان ایام میں جب سید سجاد علیہ السلام کے مصائب بیان ہونگے تو مولا سجاد علیہ السلام کی ہر اس مصیبت کا ذکر ہوگا جس کا سامنا سید سجاد علیہ السلام نے کربلا میں کیا۔  سید سجاد علیہ السلام کی علالت انہی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت تھی۔ ہم جب مصائب بیان کرتے ہوئے عابدؑ بیمار یا بیمار امام کہتے ہیں تو مقصد امام کےکربلا  مصائب بیان کرنا ہوتا ہے، نعوذ باللہ اپنے صاحب ولایت و تصرف امام کو کمزور، لاغر اور بے بس قرار دینا نہیں اور نہ ہی اِس اصطلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امام سجادؑ کی بعد از واقعہ کربلا کی زندگانی اور صبر آزما جد و جہد کو فراموش کر دیا جائے۔ یہ اصطلاح  خالصتا” مصائب کربلا کے باب میں استعمال ہوتی ہے۔ ورنہ کون شیعہ ہوگا جو ایسا عقیدہ رکھے کے نعوذ باللہ امام سجادؑ واقعہ کربلا کے بعد  ٣٥  برس تک بیمار رہے یا نعوذ باللہ حجتِ خدا مسلسل بیمار رہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے ائمہؑ وہ  اصطفی ہستیاں ہیں جن کی طرف لوگ مخالفین کے تمام تر حربوں کے باوجود کھچے چلے آتے ہیں۔ پروردگار عالم نے یہ وصف  اِن  ہستیوں کو عطا کر رکھیاہے کہ لوگوں کے دل اِن کی جانب لپکتے ہیں، وہ اِن ہستیوں کی زیارت کے مشتاق رہتے ہیں۔ لہذا ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ منصوص من اللہ نبیؑ  ہوں یا ائمہؑ، یہ ایسی ہر چیز سے دور ہیں جن کی وجہ سے لوگ اِن کی جانب مائل نہ ہوں لہذا بعید از قیاس ہے کہ کوئی شیعہ امام سجادؑ کو نعو ذ باللہ مسلسل بیمار سمجھے۔   امام سجادؑ واقعہ کربلا کے بعد عالمِ سوگ میں رہے، گریہ کرتے  رہے لیکن بیمار وہ کربلا میں تھے اور یہ  علالت بھی مشیتِ الہی تھی تاکہ چراغِ امامت دشمنان امامت سے محفوظ رہے۔

فضائل اہل بیتؑ کے بیان میں شک اور مصائب اہل بیتؑ کے بیان میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں کو اپنے ریوں پر غور کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جو مصائب بیان کرنے کے ایام ہوں اُن میں مصائب سنیں اور گریہ کریں۔ یہی حقِ مودت فی القربی ہے۔

دربار میں بیمار کے خطبے کی گرج سن
پابند مشیت ہے گرفتار نہیں ہے۔۔!