جس بچے کے دنیا میں آنے کےکچھ روز بعد ہی اُس کی ماں دنیا سے رخصت ہوجائے، وہ قدرتی طور پر اپنے باپ سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ یہ قربت یک طرفہ نہیں، دوطرفہ ہوتی ہے۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے، یہ تعلق بھی مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام حسینؑ اور امام سجادؑ کا تعلق۔ امام سجادؑ بہت محبت کرتے تھے اپنے بابا حسینؑ سے۔ یہی وجہ تھی کہ کربلا میں جب مولا حسینؑ تنہا رہ گئے تو یہ بیمارؑ عالمِ غشی سے اختیار اُٹھا اور پکار کر کہا کہ مجھے میرا عصا اور تلوار دے دیں تاکہ میں آپ کی حفاظت کرسکوں۔
امام علی ابن الحسین زین العابدینؑ کی والدہ جنابِ شہر بانوؑ اُن کی دنیا میں آمد کے فقط کچھ دن بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسینؑ کا اپنے بیٹے علی ابن الحسینؑ سے بہت قربت کا تعلق رہا۔ اس قربت کی ایک اور وجہ آپؑ کے نانا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ فرمان بھی تھا کہ
” روزِ قیامت منادی ندا دے گا کہ زین العابدینؑ کہاں ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ صفوں کے درمیان میں سے علیؑ ابن الحسینؑ ظاہر ہوگا۔ “
۔
کہتے ہیں کہ جنابِ جناب شہر بانوؑ کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے اُن کے ساتھ اُن کی زندگی میں موجود تمام کنیزوں کو آزاد کردیا تھا سوائے ایک کنیز کے، جنہوں نے درخواست کی تھی کہ وہ اس شیر خوار بچے کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہیں۔
ایک بہت مشہور واقعہ ہے جو ہم اکثر مجالس میں سنتے ہیں کہ امام زین العابدینؑ دسترخوان پر کبھی بھی اپنی والدہ کے ہمراہ کھانا کھانے میں پہل نہ کرتے تھے، یہاں تک کہ کسی نے سوال پوچھ لیا تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے جو آپ ان کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے۔ امامؑ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ صرف اس وجہ سے کہیں غلطی سے بھی میرا ہاتھ اُس لقمے کی جانب نہ بڑھ جائے،جسے اُٹھانے کیلئے میری ماں نے ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا ہو۔ یہ اُنہی کنیز کا ذکر تھا، جنہوں نے امام زین العابدینؑ کی دیکھ بھال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امام سجادؑ واقعہ کربلا کے بعد ۳۵ برس زندہ رہے یہاں تک کہ ملعون ولید بن عبدالملک نے سنہ ۹۵ ھ میں اُنہیں زہر دے کر شہید کردیا۔ ان ۳۵ برسوں میں جو صبر آزما جدوجہد امام سجادؑ نے مدینہ میں کی، اُس کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب جب ۲۵ محرم کو امام سجادؑ کے مصائب سنتے ہیں، محسوس یہی ہوتا ہے کہ جیسے سید سجادؑ بھی اکسٹھ ہجری میں ہی شہید ہوگئے تھے، ۹۵ ہجری میں نہیں۔ شاید وہ کربلا میں شہید ہوگئے تھے؟ کوفہ میں؟ یا اُس شام میں جسے یاد کرکے روتے ہوئے تین بار کہا تھا “الشام، الشام، الشام” ؟
۔
واقعہ کربلا کے تین روز بعد امام سجادؑ اعجازِ امامت کے ذرئعے کربلا آئے تھے اور قبیلہ بنی اسد کے مردوں کو شہداء کی تدفین کا حکم دیا تھا۔ مختف مقامات کی نشاندہی کی تھی جہاں پر قبریں بنائی گئی تھیں۔ گنجِ شہیداں میں جملہ شہیدانِ کربلا کو دفنایا گیا، حبیب ابنِ مظاہرؑ کی قبر علیحدہ بنانے کی تاکید کی۔ اس قبر کا مقام دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے یہ امام حسینؑ کے روضے کے خاص مجاور کی قبر ہو، جہاں سے گزرنا ہر زائر کیلئے لازم ہو جو قبرِ امام حسینؑ کی زیارت کیلئے آئے اور پھر واپس جائے۔ پھر امام حسینؑ کی قبر کا مقام بتلایا، اپنے بھائی علی اکبرؑ کی قبر اپنے بابا کے قدموں کے پاس بنوائی جبکہ شیرخوار بھائی اصغر تو حسینؑ کے سینے میں دفن تھا۔
اس کے بعد سیدِ سجادؑ فرات کی جانب چلے تاکہ اپنے چچا کا جسمِ مطاہر اُٹھا سکیں۔ مجالس میں سُنا ہے کہ ابوالفضلؑ کا جسمِ مطاہر اُٹھاتے ہوئے امام سجادؑ نے ایک بار روتے ہوئے پکارا تھا “یا قمرِ بنی ہاشمؑ”۔ وجہ آپ جانتے ہیں، مجھ میں لکھنے کی سکت نہیں۔ وہی قمر بنی ہاشمؑ کے جن کا نام جب جب امام سجادؑ کے سامنے لیا جاتا تھا، وہ احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
مولا ابوالفضلؑ کی قبر کا مقام متعین کیا گیا جس کا فاصلہ امام حسینؑ کی قبر سے بالکل اتنا ہی ہے جتنا صفا اور مروہ کا درمیانی فاصلہ۔ کربلا کا ذکر اور زائر کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ کربلا میں قبرِ حسینؑ کی زیارت کیلئے آنے والے پہلے زائر کا نام جابر ابنِ عبداللہ الانصاریؑ تھا۔ آج ہر زائر کیلئے باعثِ اعزاز ہے کہ وہ صحابی رسول(ص) جابر ابن عبداللہ انصاریؑ سے یہ نسبت رکھتا ہے۔
۔
دربارِ یزید ملعون میں امام سجادؑ کا یادگار خطبہ ہم نے بارہا پڑھ رکھا ہے، وہ خطبہ جس نے دربارِ یزید اور دربار میں بیٹھے ہوئے درباریوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ یزید نے بوکھلا کر موذن کو اذان کہنے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ سیدہ زینبؑ اور امام سجادؑ کے ان خطبوں کا نتیجہ تھا کہ یزید ملعون کیلئے اسیرانِ کربلا کو مزید قید رکھنا ممکن نہ رہ سکا اور چالیس روز کے بعد انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق شام میں قید کا عرصہ اس سے قدرے طویل تھا۔ یوں یہ لُٹا ہوا قافلہ کربلا سے ہوتا ہوا واپس مدینہ پہنچ گیا۔ البتہ حسینؑ کی لاڈلی بچی اور سیدِ سجادؑ کی بہن سکینہؑ، وہیں شام کے تاریک زنداں میں رہ گئی۔ بقول مرحوم بابا نثار حیدریؔ:
۔
“پردیسیوں کی قبروں، میں تُربتِ سکینہؑ
کس نے ہیں پھول ڈالے، کس نے دیا جلایا؟”
۔
یہاں سے امام سجادؑ کی اُس جدوجہد کا آغاز ہوا جو ۳۵ برس جاری رہی۔ اسی دوران واقعہ حرہ پیش آیا، شہرِ مدینہ پر چڑھائی کی گئی، تین دن مسجد نبوی میں نماز معطل رہی، مسجد میں گھوڑے باندھے گئے اور خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ اس تمام شورش کے دوران امام سجادؑ کا مدینہ میں گھر وہ واحد جگہ تھی جہاں بنو اُمیہ تک کی خواتین نے پناہ لی۔ وہ بنو اُمیہ جس کے دامن پر خانوادہ رسالت کے خون کے دھبے تھے۔ یہ اس ہستی کے وارث کا گھر تھا جو پتھر کھا کر دعائیں دیتا تھا، جو خود پر کچرا پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کیا کرتا تھا۔
انہی ۳۵ برسوں کے دوران کوفہ میں توابین اور پھر مختار ثقفیؒ کی تحریک بھی اُٹھی جس میں قاتلین امام حسینؑ سے چُن چُن کر بدلا لیا گیا۔
۔
کربلا، کوفہ و شام کے مصائب جھیلنے والے امام سجادؑ کے مصائب مدینہ واپس آنے کےبعد بھی ختم نہ ہوئے تھے۔ مدینہ کا معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار تھا، امامؑ کا سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ کوئی اُن کی بات سننے پر آمادہ نہ تھا۔ یہ اُس شہر کی حالت تھی جو مرکزِ اسلام تھا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ تاریخ کا ایسا کون سا مقام تھا جہاں ایسی سنگین غلطی ہوئی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی؟
۔
بہرحال، امام سجادؑ نے اس تباہ حال معاشرے کی اصلاح کی جد و جہد شروع کی۔ لوگوں کو متوجہ کرنا شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام سجادؑ کے کلام کا بہت بڑا حصہ زہد و تقوی، دعا و مناجات اور اللہ سے رابطے کی تلقین پر مشتمل ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کا دوسرا پہلو ایک دوسرے کے حقوق کو سلب کرنا یا حقوق کو فراموش کرنا تھا۔ یعنی حقوق اللہ بھی فراموش اور حقوق العباد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے راز و نیاز کیلئے امام سجادؑ رہتی دنیا تک کیلئے صحیفہ سجادیہ کا تحفہ دے گئے اور ایک انسان کا دوسرے انسان پر کیا حق ہے، یہ سمجھانے کیلئے رسالۃ الحقوق جیسی طولانی حدیث مرتب کرگئے۔ والدین اور بچوں کے حقوق، ہمسائے کے حقوق، حکومت اور شہری کے حقوق سمیت معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے پچاس حقوق کی تفصیل اور مختلف وظائف اس کتاب میں موجود ہیں۔ کتاب کی اہمیت اور بلند و بالا مضامین کی وجہ سے اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ اور شرحیں منظر عام پر آگئی ہیں۔
جبکہ بقول ڈاکٹر عمار نقشوانی، صحیفہ سجادیہ کا ترجمہ وہ ایک مسیحی پوپ کی لائبریری میں دیکھ چکے ہیں۔ پوپ کے مطابق، رب سے راز و نیاز کرنے کیلئے ایسا اثر انگیز کلام، انہوں نے پہلے کبھی نہیں پڑھا۔
صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق میں موجود کلام شہرِ مدینہ کے اُس تباہ حال معاشرے کے درمیان بیٹھ کر مرتب کیا گیا جہاں کوئی امامؑ کی بات سننا نہیں چاہتا تھا لیکن رفتہ رفتہ وقت بدلتا گیا۔ لوگ امامؑ کے گرد جمع ہوتے چلے گئے۔ امام سجادؑ نے اسلام کی کمزور ہوتی ہوئی بنیادوں کو اتنا مضبوط کردیا کہ آنے والے ادوار میں باقر العلومؑ اور جعفر الصادقؑ نے ان بنیادوں پر مستحکم عمارت تعمیر کردی۔
۔
ایک جانب معاشرے کی اصلاح اور دینِ محمدیؑ کی نصرت کی جد و جہد تو دوسری جانب ہر لمحہ، ہر سانس کے ساتھ کربلا کو یاد کرکے گریہ کرنا۔ کبھی کسی جانور کو ذبح ہوتے دیکھنا تو رُک کر پوچھنا کہ کیا ذبح کرنے سے پہلے اسے پانی پلا دیا تھا؟ اثبات میں جواب ملنے پر روتے ہوئے سوال کرنا کہ پھر میرے بابا کو کیوں پیاسا ذبح کردیا گیا؟ کبھی کسی گھر سے شادی کا دعوت نامہ ملنے پر کہنا کہ کربلا کے بعد ہمارے گھرانے نے خوشی کے موقعوں میں جانا چھوڑ دیا۔ بلانے والے کے اصرار کرنے پر کہنا کہ اگر تم میرے بابا کی مجلس کا اہتمام کرلو تو میں آجاونگا اور پھر اُس شخص کے اپنے گھر پہنچنے سے پہلے اُس کے دروازے پر پہنچ جانا کہ جہاں میرے بابا کا ذکر ہو، میں وہاں فورا پہنچتا ہوں۔
یہ جو آج گلی گلی کوچہ کوچہ مجالس حسینؑ کا سلسلہ ہے، یہ جو فرشِ عزا بچھے ہوئے ہیں، یہ سب سیدِ سجادؑ کا صدقہ ہے، یہ انہی کا حکم ہے۔ یہ سب اہتمام اسی یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ امام سجادؑ ہمارے گھر بھی اپنی جدہ سیدہؑ کے ساتھ ضرور تشریف لاینگے۔ ہاں، یہ سوچ کر دل فرشِ عزا کی بجائے عزارداوں کی جوتیوں کے پاس بیٹھ جانے کو چاہتا ہے کہ سنا ہے یہ امامؑ بھی یہیں آکر بیٹھ جاتا ہے۔
یہاں ہم سب کیلئے دعوتِ فکر بھی ہے کہ ہم اپنی مجلسوں کو شایانِ شان بنائیں کہ وہاں سید سجادؑ اور سیدہؑ تشریف لائیں۔
۔
امام سجادؑ کا ایک لقب ذوالثَّفنات بھی ہے۔ یعنی وہ شخص کے جس کی پیشانی کی جلد سجدوں کی کثرت کی وجہ سے اونٹ کی گھٹنوں کی مانند ہوچکی ہو۔ ایک طرف یہ کثرتِ سجدہ اور ایک طرف اپنے بابا اور کربلا کو یاد کرکرکے کثرتِ گریہ۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں کثرتِ گریہ کی وجہ سے پانچ ہستیوں کا نام آیا ہے۔ جن میں چوتھی ہستی کا نام فاطمہ الزہراءؑ ہے اور پانچویں ہستی زین العابدینؑ ہیں۔ ان دونوں ہستیوں کا آپس میں تعلق بھی بہت منفرد ہے۔ یہ دونوں فرشِ عزا پر ضرور پہنچتی ہیں۔ ایک اپنے لعل حسینؑ کیلئے اور ایک اپنے بابا حسینؑ کیلئے۔ سیدہؑ “صبت علي مصائب لو انها” کہہ کر رویا کرتی تھیں اور سجادؑ “مودۃ فی القربی” کے حکم اور کربلا کے ظلم کو یاد کرکے روتے تھے۔
۔
تاریخ میں غسلِ میت کے دوران چیخ مار کر رودینے کی تین مثالیں ملتی ہیں۔ ایک جب امام علیؑ، سیدہ النساء العالمینؑ کو غسل دیتے ہوئے زخم دیکھ کر چیخ مار کر رودئے، ایک اُس وقت جب سیدِ سجادؑ نے شام میں اپنی بہن سکینہؑ کو دفن کرنے کا ارادہ کیا اور ایک اُس وقت جب امام محمد باقرؑ اپنے والد امام زین العابدینؑ کی گردن پر اُس طوق کا زخم دیکھر کر چیخ مار کر رودئے جو ۳۵ برس قبل اُنہیں کوفہ و شام میں پہنایا گیا تھا۔ یہ ظاہری زخم نہ گھل سکا تو وہ زخم کیسے گھلے ہونگے جو سید سجادؑ کے دل پر لگے۔ غالبا اسی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے شاعر نے یہ شعر لکھا ہوگا:
۔
“وہ ظلم دیکھیں ہیں، سجادؑ نے حسینؑ کے بعد
مجھے یقین ہے، اب تک بھی رو رہا ہوگا۔۔! “
گلے میں طوق کا زخم، پیشانی پر سجدوں کا نشان اور کمر پر ضروتمندوں کے گھر اناج کی بوریاں پہنچا پہنچا کر بننے والا نشان۔ کربلا، کوفہ و شام کے مصائب جھیلنے والا ہمارا مُرشد سجادؑ، آج دنیا سے رخصت ہوگیا۔