تذکرہِ اہل بیتؑ

بچپن میں ہر بچے کی طرح میں بھی مجلس میں تبرک کی لالچ میں جایا کرتا تھا یا کبھی وہاں آئے دیگر بچوں کے ساتھ باہر کھیلنے کیلئے۔ کبھی کبھی ہم سب بچے مل کر ماتم بھی کرلیا کرتے تھے، کچھ بچے نعرے لگانے کے شوق میں بھی مجلس میں جایا کرتے تھے۔ بچپن سے ہی مجالس میں شرکت کی وجہ سے ایک بنیادی بات سمجھ آگئی تھی کہ جب مولا علیؑ کا نام آتا ہے تو لوگ خوش ہوکر نعرہ لگاتے ہیں اور جب  مولاحسینؑ کا ذکر ہوتا ہے تو سب بہت روتے ہیں۔ تھوڑا اور بڑا ہوا تو مجالس میں فضائلِ  اہل بیتؑ کے بارے میں مولانا کے بیان کردہ چھوٹے چھوٹے نکتے بھی یاد کرنا شروع کردئے، جنہیں مجلس سے واپس آکر اپنی والدہ کو سنانا کبھی نہیں بھولتا تھا۔

میں جب چھوٹا تھا تو مجھے مصائبِ اہل بیتؑ  پر گریہ کرتے عزاداروں میں بہت کشش محسوس ہوتی تھی، میں بغور اُنہیں دیکھتا تھا۔ میرے ایک قریبی عزیز جو خود تو بہت پکے عزادار تھے ہی، ساتھ ہی ساتھ محرم کی مخصوص تاریخوں میں مجھ سمیت خاندان کے دیگر بچوں کو اپنے ساتھ جلوس میں لے جایا کرتے تھے۔ میرے یہ عزیز مجلس میں مصائب سنتے ہوئے بہت شدت سے گریہ کرتے تھے، رومال چہرے پر رکھ کر زاروقطار روتے تھے۔ اُن سے ایک بار میں نے پوچھ لیا کہ آپ کو مصائب سن کر رونا کس طرح آجاتا ہے؟ جس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ ذہن میں تصور کرنا پڑتا ہے اور خود کو اُس جگہ رکھ کر سوچنا پڑتا ہے۔ شاید یہ بچوں کو سمجھانے کا اُن کا آسان سا طریقہ تھا۔  ایک ڈیرھ سال قبل میرے یہ عزیز دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن مصائب اہل بیتؑ سُن کر اُن رومال چہرے پر رکھ کر اور کبھی اپنے دانتوں کے درمیان دبا کر شدت سے گریہ کرنا مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ پرورددگار بحق اہل بیتؑ اُن کے اِس پرخلوص گریے کو اُن کیلئے بہترین توشہِ آخرت قرار دے۔
۔
ایک بار انہی عزیز کے ساتھ میں اور دیگر بچے اندرون موچی دروازے کسی جلوس میں گئے، تاریخ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ وہاں کسی گلی میں موجود ایک چھوٹے سے امام بارگاہ کے سامنے گزرے تو دیکھا کہ وہاں مجلس جاری ہے۔ اندرون  لاہورشہر میں ایسے چھوٹے چھوٹے کئی امام بارگاہ موجود ہیں۔ ہم سب بھی مجلس سننے کیلئے امام بارگاہ میں بیٹھ گئے۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ اس روز میری آنکھ میں، غم حسینؑ میں پہلا آنسو آیا تھا۔ بس ایک قطرہ تھا جو آنکھ سے بہہ کر گال تک آگیا تھا۔ مجھے یہ آنسو آج تک یاد ہے اور مجھے یہ بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا اُس وقت بی بی سکینہؑ کے مصائب بیان کررہے تھے۔ امام حسینؑ کی شہزادی سکینہؑ سے محبت کا ذکر کرہے تھے اور وہ منظر بیان کر رہے تھے جب امام حسینؑ کا سرِ مبارک بی بی سکینہؑ کے سامنے لایا گیا تھا۔ اب تک جتنی زندگی گزر چکی ہے، اُس میں کتنی ہی باتیں یاد ہیں اور کتنی بھول چکا۔ لاتعداد مجالس میں گیا، فضائل و مصائب اہل یبیتؑ سنے۔ کتنے ہی علمی نکات علماء سے سنے جن میں سے کچھ یاد ہیں اور بہت سے بھول چکا لیکن نہیں بھولا تو برسوں پہلے آنکھ سے بہنے والا وہ پہلا آنسو جو بی بی سکینہؑ کے مصائب سُن کر آنکھ سے گرا تھا۔ مجھے یہ آنسو اِس قدر قیمتی محسوس ہو رہا تھا کہ میں اِسے خشک نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ میں یہ آنسو جلد از جلد گھر پہنچ کر اپنی والدہ کو دکھاوں کے دیکھئے آج میری آنکھ میں مصائب سن کر پہلی بار ایک آنسو آیا ہے۔
۔
بی بی سکینہؑ کو رقیہؑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عرب میں رقیہ اور سکینہؑ دونوں نام استعمال ہوتے ہیں۔ شام میں ضریح مبارک پر بھی رقیہ بنت الحسینؑ ہی لکھا ہوا ہے، جبکہ کربلا میں یومِ عاشور قبیلہ طوریج کے لوگ جب حرمِ  مولا ابوالفضلؑ سے حرمِ امام حسینؑ کی جانب بھاگتے ہیں تو “عباسؑ جیب الماء لسکینہؑ” کہتے ہوئے بھاگتے ہیں۔
۔
چند سالوں کی اس بچی کا کردار، اپنے چھ ماہ کے بھائی علی اصغرؑ کی طرح کربلا کے انتہائی جذباتی کرداروں میں سے ایک ہے۔ مولا حسینؑ کی اُس تمنا کا نام جسے امام حسینؑ نے اپنے دل کا سکون کہا۔ جو امام حسینؑ کے سینے پر سوتی تھی۔ مولا عباسؑ سے سکینہؑ کےتعلق کیا بیان کیا جائے کہ آج جہاں مولا عباسؑ کا علم ہوتا ہے، تو ساتھ مشکِ سکینہؑ بھی ہوتی ہے۔ شامِ غریباں سے لیکر کوفہ اور پھر شام تک سکینہؑ اور سیدہ زینبؑ کے درمیان ہونے والے مکالموں کا ذکر کریں تو یہ مکالمے اپنے اندر مصائب کا ایک پورا باب سموئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
اور ایک تعلق سکینہؑ کا اپنے بھائی امام زین العابدینؑ سے بھی ہے۔ مولانا صادق حسن کہتے ہیں کہ امام سجادؑ کا صرف نام ہی علیؑ نہیں تھا، وہ علیؑ بابِ مدینہ العلمؑ کے وارث بھی تھے۔ علم و رشد و ہدایت کا یہ چراغ جو وارثِ دعویِ سلونی تھا۔ لیکن ایک سوال ایسا تھا جس پر یہ وارثِ سلونی بھی لاجواب ہوگیا تھا۔ وہ سوال اسی سکینہؑ کا سوال تھا، جب زندانِ شام میں وہ امام سجادؑ سے سرشام پرندوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کرتی تھی کہ یہ پرندے شام کے وقت کہاں جاتے ہیں؟ امام سجادؑ جواب دیتے تھے کہ اپنے گھروں کو جاتے ہیں، جس پر بی بی سکینہؑ حسرت سے پوچھتی تھیں کہ پھر ہم کب اپنے گھر مدینے جاینگے؟

۔
کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا کے بعد شاید ہی کسی سیدانی نے واپس مدینہ جانے کا اتنا ذکر کیا ہو جتنا مولا حسینؑ کی اِس لاڈلی بچی نے کیا۔ یہ بار بار اپنے بھائی سید سجادؑ اور پھوپھی سیدہ  زینبؑ سے پوچھا کرتی تھی کہ مدینہ کب جاینگے۔ لیکن اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور شام کا وہ تاریک زندان ہی اس کا مدفن قرار پایا۔
بچپن میں جو روایت سن کر پہلی بار میری آنکھ میں آنسو آیا تھا، وہ کوئی اور روایت نہیں بلکہ شام کے اسی زندان میں بی بی سکینہؑ کے چل بسنے کی روایت تھی۔ تمام دن اپنے باپ کو یاد کرکے رونے والی بچی جب رات کے وقت سوئی تھی تو خواب میں اُس کے بابا حسینؑ اپنی والدہ سیدہ فاطمہؑ کے ہمراہ ملنے آئے تھے اور اُسے اطمینان دلایا تھا کہ وہ اُسے اپنے ساتھ لیجانے آئے ہیں۔

سکینہؑ کے گریہ و ماتم سے پریشان ملعون یزید نے زندان میں امام حسینؑ کا سرِ مبارک بھجوایا تھا تاکہ بچی کو قرار آسکے۔ یہ اس دنیا میں بی بی سکینہؑ اور مولا حسینؑ کی آخری ملاقات تھی۔ جناب حسنین اکبر کے لکھے اور میر حسن میر کے پڑھے ایک لازوال کلام کے یہ مصرعے زندانِ شام کی اُس وقت کی کیفیت کو بیان کردینے کیلئے کافی ہیں۔
۔
دونوں کو جدا میں کیسے کروں،ہمت ہی نہیں یہ میری
ہے آپ کے سر سے لپٹی ہوئی،بے جان یہ آپ کی بیٹی
کیا ساتھ سکینہؑ کے بابؑا، سر آپ کا بھی دفناوں میں؟
کر مدد میری باقر ؑبیٹا، ہمشیر کی قبر بناوں میں

امام حسین علیہ السلام کی بیٹی سکینہ سلام اللہ علیھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی دختر یعنی سکینہ سلام اللہ علیھا کی دادی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ دونوں اپنے بابا کو یاد کرکے کثرت سے گریہ کیا کرتی تھیں۔ سکینہ سلام اللہ علیھا کے گریہ سے شام میں یزید ملعون پریشان ہوا اور مدینہ میں لوگ بی بی سکینہ سلام اللہ علیھا کی دادی کے گریہ سے پریشان ہوتے تھے۔
۔
سکینہؑ کو امام سجادؑ نے اُسی تاریک زندان میں دفن کردیا۔ کچھ دیر کیلئے تصور کیجئے کہ ایک بھائی نے کس دل سے اپنی معصوم بہن کو اس تاریک زنداں میں دفن کیا ہوگا۔ سمجھ میں آجاتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے تین بار “الشام” کیوں کہا تھا۔اسیروں کا تمام قافلہ رہائی کے بعد واپس مدینہ آگیا اور امام حسینؑ کی لاڈلی سکینہؑ وہیں شام میں رہ گئی۔ جسے سب سے زیادہ واپس مدینہ جانے کا انتظار تھا، وہ شام میں ہی رہ گئی۔ جہاں آج بھی اس کے روضے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے زائر کا دل ڈوبتا ہے۔

“پردیسیوں کی قبروں میں تُربتِ سکینہؑ
کس نے ہیں پھول ڈالے، کس نے دیا جلایا”
۔
مجھے مولانا ناصر عباس شہید کو اُن کی زندگی میں چند بار سننے کا ہی اتفاق ہوا، ایک بار موچی دروازے میں بہت برس پہلے اٹھائیس صفر کو سنا تھا۔ لیکن آج سوشل میڈیا کی بدولت  اکثر  اُن کی کوئی نہ کوئی ویڈیو سننے کو مل جاتی ہے۔ میرا دل یہ کہتا ہے کہ یہ شخص کچھ مصائب ایسے بیان کرگیا ہے، جو اِس کے بلندی درجات اور بخشش کیلئے کافی ہونگے۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تحریر کا اختتام ناصر عباس شہید کے پڑھے ہوئے مصائب میں سے ایک اقتباس پر کروں۔ ناصر عباس کہتے ہیں کہ:
۔
“میں جیل میں قید تھا۔ جیلر سے پوچھا کہ موت کی سزا پانے والے قیدی کو گھر والوں سے آخری ملاقات کیلئے کتنا وقت دیا جاتا ہے؟ جیلر نے کہا کہ علامہ صاحب سرکاری وقت تو ۸۰ منٹ ہے لیکن آخر ملاقات اکثر تین سے چار گھنٹے تک طویل ہوجاتی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ جب سرکاری وقت ۸۰ منٹ ہے تو یہ اضافی وقت کیوں ملتا ہے؟ جیلر نے کہا کہ چاہے کتنا بھی سخت پولیس والا ہو، وہ جتنی بار قیدی کو بتانے جاتا ہے کہ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا، اتنی بار اُس کی بیٹی اپنے باپ سے لپٹ کر روتے ہوئے اُسے روک لیتی ہے۔ یوں یہ ملاقات طویل ہوتی جاتی ہے۔

میں نے دل میں سوچا واہ سکینہؑ تیری قسمت، تجھے حسینؑ سے آخری ملاقات کی مہلت بھی نہ دی گئی۔”