امامؑ کسی کی بیعت نہیں کرتا از نور درویش
ایک بات جو عقیدے کی طرح ایک شیعہِ اہل بیتؑ کے دل میں موجود ہوتی ہے کہ واقعہِ کربلا کے بعد کسی بھی آمر و غاصب کی ائمہؑ اہل بیتؑ سے بیعت طلب کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ کوئی بھی روایت چاہے کسی بھی کتاب میں موجود ہو، کسی بھی سند کے ساتھ موجود ہو۔ اگر اُس سے کسی بھی طرح ایسا مفہوم نکلتا ہو کہ نعوذ باللہ ہمارے کسی امامؑ نے بعد از کربلا کسی غاصب اور آمر کی بیعت کی تو ہمارے لیے اس روایت کی حیثیت بھی خود ائمہؑ بتلا گئے ہیں کہ ایسی روایت کو دیوار پر دے مارو۔ ایک بار علامہ طالب جوہریؒ نے شانِ رسالتؐ بیان کرتے ہوئے برادران کی کتب میں موجود کچھ ایسی روایتوں کا ذکر کیا تھا جو شانِ رسالتؐ کے خلاف تھیں اور پھر یہ جملہ کہا تھا کہ “ہمیں معاف کر دینا، ہم پر محمدؐ رسول اللہ کا احترام واجب ہے، راویوں کا نہیں۔” یہی کلیہ وارثانِ محمدؐ یعنی ائمہؑ اہل بیتؑ کیلئے ہوگا کہ ہم پر احترام و اقرارِ عظمتِ ائمہؑ اہل بیتؑ واجب ہے، کسی کتاب، کسی راوی یا کسی کتاب میں موجود روایت کا احترام نہیں۔
۔
اگر ہم ائمہ اہل بیتؑ کی ظاہری زندگیوں پر بھی ایک نگاہ ڈالیں تو وہاں بھی ہمیں اپنے اسی عقیدے کی تائید ہوتی نظر آئے گی کہ یہ خدائے بزرگ و برتر کی حجتیں ہیں، یہ کسی غاصب، آمر اور فاسق و فاجر کی نعوذ باللہ بیعت نہیں کرتیں۔ باب الحوائج امام موسی کاظمؑ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہارون رشید کی سخت ترین قید میں گزارا یہاں تک کہ اسی عالمِ مظلومیت میں شہید ہوئے۔ لیکن اسی دوران امام موسی کاظمؑ نے اپنے صحابی علی بن یقطین کو ہارون رشید کی حکومت میں بطور وزیر کام کرنے پر بھی معمور کر رکھا تھا تاکہ وہ وہاں رہ کر شیعانِ اہل بیتؑ کی مدد کر سکیں۔
مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل لع کا عقد امام تقی الجوادؑ سے کروایا تھا، تاکہ جو اولاد ہو اُسے یہ علویوں اور عباسیوں کا اثاثہ قرار دیکر اپنے اقتدار کو اور مضبوط کر سکے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام تقی الجوادؑ انکار نہ کر سکتے تھے؟ اس کا جواب بھی مشیتِ الہی ہے کہ امامؑ کا ہر عمل ارادہ الہی کا مظہر ہوتا ہے۔ اور اس معاملے میں ارادہ الہی یہ تھا کہ یہ عورت بے اولاد رہے اور اللہ کا یہ قانون واضح ہوجائے کہ حجتِ خدا اور منصوص من اللہ ہستیوں کے پاک و مطھر سلسلوں میں کسی عیب دار کا شامل ہوجانا ناممکن ہے۔ چاہے وہ کسی نبیؐ کے والدین ہوں یا امامؑ کے۔ لہذا امام تقی الجوادؑ کی زوجہ جناب سمانہؑ صاحبِ اولاد ہوئیں اور یوں امامت اپنے نویں سلسلے میں داخل ہوئی۔
۔
بعد ازاں امام تقی الجوادؑ کو بھی شہید کیا گیا، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کا دور تو اس قدر سخت تھا کہ ان دونوں ائمہؑ کو سخت ترین اور کڑے پہرےمیں مسلسل گھر پر نظر بند رکھا گیا۔ اس کی وجہ فقط یہ تھی کہ بنو عباس کو بھی علم تھا کہ انہی کے بعد اُس آخری حجت یعنی قائم آلِ محمدؐ کا ظہور ہونا ہے جو کرہِ ارض سے ہر ظلم و نا انصافی کو ختم کرنے والا ہوگا۔ لہذا جس طرح فرعون نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے اقتدار کو ختم کرنے والا موسیؑ زندہ رہے اسی طرح یہ آمر بھی یہی چاہتے تھے کہ اُس آخری حجتِؑ خدا کو زندہ ہی نہ رہنے دیا جائے جس کی ذات کے وسیلے سے اللہ نے اس کرہِ ارض کو عدل و انصاف سے پر کرنا ہے۔ اب خود سوچئے کہ اگر امام موسی کاظمؑ ،امام تقی الجوادؑ اور امام عسکرینؑ نے نعوذ باللہ ان غاصبوں کی بیعت کی ہوتی تو کیا اس قدر سخت قید و بند کا سامنا کرتے اور شہید کیے جاتے؟
۔
ہمارا ایمان ہے کہ حجتِ خدا کا ہر قدم اور ہر عمل حالات کے مطابق ارادہِ خدا کا مظہر ہوتا ہے۔ امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا دور مکتبِ اہل بیتؑ کی حقانیت کی تجلی کا دور تھا۔ اس دور کو باقرین بھی کہا جاتا ہے۔ امام جعفر صادقؑ کے دور میں بنو عباس اور بنو اُمیہ کی آپسی چپقلش عروج پر تھی۔ ایک باطل دوسرے باطل کی چولیں ہلا رہا تھا۔ اس چپقلش کے دوران صادقِ آلِ محمدؑ نے مسجد نبوی سے علومِ آلِ محمدؑ کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا جس میں ان علوم کو سیکھنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔ یہ اُس دور کے حالات کے مطابق ایک حجتِ خدا کا عمل تھا جسے ہمارے عقیدے کے مطابق مظہرِ ارادہِ خدا کہا جائے گا۔
۔
امام رضاؑ کو جبرا مدینہ سے خراسان جلا وطن کیا گیا تھا۔ خراسان آمد کےبعد امام رضاؑ اور مامون کے درمیان ایک مشہور مکالمہ ہوا تھا جب امام رضاؑ نے مامون کی جانب سے کی گئی ولی عہدی کی پیشکش کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر تجھے یہ حکومت خدا نے دی ہے تو تجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ تو اپنی مرضی سے کسی کو ولی عہد بنائے اور تجھے یہ اختیار خدا نے دیا ہی نہیں تو تو کون ہوتا ہے کہ کسی کو یہ منصب دے؟ (مفہوم)۔ مامون جو بظاہر امام رضاؑ کی تکریم کر رہا تھا، اُس نے یہ سن کر امام رضاؑ کو قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ لہذا امام رضاؑ نے اُس وقت کے حالات کے مطابق وہ کیا تھا جو مرضیِ پروردگار کا مظہر تھا۔ یاد رہے کہ اسی مامون نے جب امام رضاؑ کو زہر آلود انگور کھانے کیلئے پیش کیے تھے تو امام نے انگور کا ایک دانہ کھایا تھا اور فورا وہاں سےتشریف لے جانے کیلئے کھڑے ہوگئے تھے، مامون نے پوچھا تھا کہ آپؑ کہاں جا رہے ہیں فرزندِ رسولؐ اور امام رضاؑ نے جواب دیا تھا وہیں جہاں تو مجھے بھیجنا چاہ رہا ہے۔ یعنی یہی امام رضاؑ تھے جنہوں نے پہلے جبرا مدینہ سے خراسان جلا وطن کیا جانا برداشت کیا، مامون کی طرف سے ولی عہدی کی پیشکش کو اُس وقت کے حالات کے پیشِ نظر قبول کیا اور پھر یہی امام رضاؑ تھے جنہوں نے اذنِ الہی سے عطا کردہ اپنے علمِ غیب کے ذرئعے زہر آلود انگوروں اور مامون کی نیت جانتے ہوئے بھی انگور کا ایک دانہ کھایا کیوں کہ یہی مشیت الہی تھی اور حجتِ خدا کا ہر قدم اور ہر عمل مشیتِ الہی کے تحت ہوتا ہے۔
۔
امام علی ابنِ موسی الرضاؑ کا دور بھی مکتبِ اہل بیتؑ کی تجلی اور شیعت کی بھرپور ترویج کا دور تھا۔ بقول علامہ سید علی نقیؒ (نقن صاحب) امام رضاؑ کو تبلیغِ حق کیلئے اور نامِ امام حسینؑ کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی بھرپور موقع حاصل ہوگیا تھا۔ جس کی بنیاد اس سے پہلے امام محمدباقرؑ اور امام جعفر صادقؑ قائم کر چکے تھے۔ لیکن وہ زمانہ ایسا تھا جب امامؑ کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیتِ امام اور بحیثیتِ عالمِ دین آپؑ سے عقیدت رکھتے تھے۔البتہ امام رضاؑ کو اب وسیع حلقہ میسر آیا تھا۔ یہ تھی ایک حجتِ خدا کی اُس ظاہری ولی عہدی کو قبول کرنے کی حکمت۔
یہ دو واقعات یہ سمجھنے کیلئے کافی ہیں کہ حجتِ خدا نہ صرف مرضیِ خدا کا مظہر ہوتی ہیں بلکہ اُن کا ہر قدم مشیتِ پروردگار کے مطابق اُٹھتا ہے۔
۔
یہاں ایک بات کا اور اضافہ کرتا چلوں کہ جب امام رضاؑ نے مامون کی ولی عہدی کی پیشکش قبول کر لی تھی تو کچھ لوگ تھے جو امام رضاؑ کے پاس آئے تھے اور امام رضاؑ کو اپنا امام کہنے کے باوجود بارگاہِ امامت میں جسارت کرتے ہوئے یہ سوال کر رہے تھے کہ آپ کیسے مامون جیسے کی ولی عہدی قبول کر سکتے ہیں؟جس پر امام رضاؑ نے فرمایا تھا کہ تم مجھے یہ بتاو کہ کون بہتر ہے، ایک مسلمان یا ایک مش رک؟ اُنہوں نے جواب دیا ظاہر ہے مسلمان۔ اس پر امام رضاؑ نے سورہ یوسف کی آیت نمبر 55 کی تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے: “کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں۔”
یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد امام رضاؑ نے فرمایا کہ یوسفؑ نے یہ عہدہ رضاکارانہ طور پر ایک مش رک حکمران کی حکومت میں خود قبول کیا اور مجھے یہ عہدہ قبول کرنے کیلئے مجبور کیا گیا۔ امام رضاؑ نے اس جواب کے ذرئعے دراصل خود کو اہل بیتؑ کا شیعہ کہنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ تمہیں ایک نبیؑ کا ایک مشرک حکمران سے رضاکارانہ طور پر عہدہ طلب کرنا سمجھ میں آتا ہے، تاکہ وہ اس عہدے کے ذرئعے اُس ملک، سلطنت اور وہاں کے باسیوں کی فلاح کیلئے کچھ کر سکے لیکن تمہیں اپنے امامؑ کا وہ عمل سمجھ نہیں آتا جس کی حکمت آنےو الے وقت میں ہر محب اہل بیتؑ نے دیکھی اور سمجھی۔ بطور اہل بیتؑ کے شیعہ، ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ امام رضاؑ کا یہ عمل بھی مشیتِ الہی کا مظہر تھا اور زہر آلود انگوروں کی وجہ سے شہید کیے جانے کا علم ہونے کے باوجود وہ انگور کھانا بھی مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا آئنہ دار۔ یعنی حاصلِ کلام یہ ہے کہ امامؑ حالات کے مطابق مشیتِ الہی کے تحت عمل کرتا ہے۔
۔
امام حسن مجتبیؑ لشکرِ شام کے خلاف جنگ کرکے اس فتنے کا خاتمہ چاہتے تھے۔ لیکن جب وفاداریاں بکنے لگیں اور چند ایک کے سوا اکثریت لڑنے سے پھر گئی تو امامؑ نے معاہدہ کیا جسے علامہ طالب جوہریؒ نے سیز فائر کا نام دیا تھا۔ امام حسن مجتبیؑ نے یہ معاہدہ کرتے ہوئے اسے اپنے نانا رسولؐ خدا کی صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی۔ یعنی حجتِ خدا کا تلوار اُٹھانا بھی مشیتِ الہی کے تحت اور قلم سے معاہدہ لکھنا بھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب رسولِؐ خدا نے صلح حدیبیہ کی تھی تو اُس وقت بھی بعض اصحاب نے تعجب سے سوال کیا تھا کہ جنگ کے بجائے صلح کیوں اور ایسے ہی سوال امام حسنؑ سے کیے گئے تھے۔ جس کے جواب میں امام حسنؑ نے فرمایا تھا کہ اگر میں یہ معاہدہ نہ کرتا تو وہ لوگ ہمارے تمام چاہنے والوں کو قتل کر دیتے۔ (مفہوم)۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امامؑ کیلئے اپنے چاہنے والوں کی امان بھی کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔
۔
تحریر بہت طویل ہوگئی جس میں بہت سے پہلو لکھتے لکھتے ذہن میں آتے رہے۔ آخر میں مولانا کمیل مھدوی کا ذکر کرتا چلوں کیوں کہ موضوع اُنہی کیو جہ سے شروع ہوا جس میں مختلف آراء پڑھنے کو ملیں۔ میری ذاتی اور ادنی رائے میں مولانا کمیل مھدوی اگر منبر سے یہ بات نہ کرتے تو بہتر تھا اور کرنا ہی تھی تو ایسی روایت پڑھتے جس سے بات واضح ہوتی۔ مثلا امام رضاؑ اور مامون کے درمیان ہوئے مکالمے کا تذکرہ اور پھر امام رضاؑ کا اعتراض کرنے والوں کو جواب۔ جو روایت مولانا نے پڑھی نہ ہی اُس سے اُن کا مفہوم واضح ہو پایا اور نہ ہی وہ وضاحت کرتے ہوئے اپنی بات واضح کر سکے بلکہ اس بات مزید اُلجھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جہاں تک میں سمجھ پایا تو محسوس ایسا ہوا جیسے مولانا یہ کہہ رہے ہوں کہ نعوذ باللہ امام زین العابدینؑ نے یزید لع کی بیعت کر لی تھی اور پھر وہ ایک روایت اس کی تائید میں بیان کرتے رہے جو مختلف کتب میں موجود تھی۔ میری رائے میں مسئلہ یہیں سے پیدا ہوا کہ قبلہ سے لفظِ بیعت پر اصرار کیا اور پھر اسے ثابت کرنے کیلئے ایک ایسی روایت سے استدلال کیا جس کا متن ہی انتہائی ہتک آمیز محسوس ہوتا ہے اور کسی بھی شیعہ کیلئے اسے قبول کرنا ناممکن ہے۔ یعنی تاثر ایسا پیدا ہوا جیسے امام زین العابدینؑ نے یزید لع کے دھمکانے پر بحالتِ تقیہ اُس کی بعیت کر لی تھی۔ یہ روایت شانِ امامت میں جسارت ہے جسے پڑھتے ہی دیوار پر مار دینا چاہئے، کجا اسے منبر سے بیان کیا جائے۔
بہتر ہوتا کہ مولانا کمیل مھدوی سامعین کو یہ واضح کرتے کہ ہمارے ائمہؑ کا ہر قدم اپنے جدؐ کے دین کی حفاظت، اپنے چاہنے والوں کی امان اور حکمِ الہی کے عین مطابق ہوتا ہے اور پھر وہ جملہ کہتے اُنہوں نے اپنی وضاحتی ویڈیو میں کہا کہ معصومؑ کسی فاسق و فاجر تو کیا کسی مومن کی بیعت بھی نہیں کرتا۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے۔
۔
مولانا کمیل مھدوی ایک خوش عقیدہ عالم ہیں اور میرے دل میں اُن کا بہت زیادہ احترام ہے اور یہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔ ترویجِ عزاداری، عزاداروں کی غمگساری اور دفاعِ عقائدِ تشیع کیلئے جس قدر خلوص اور جرات کے ساتھ وہ مسلسل گفتگو کرتے آئے ہیں، اُس پر اُن کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ البتہ یہاں قبلہ جو پیغام دینا چاہ رہے تھے وہ درست انداز سے بیان بھی نہ ہو سکا اور پیغام پہنچانے کیلئے جس روایت کا سہارا لیا گیا وہ بھی بہت دل دکھانے والی تھی۔پھر وضاحتی ویڈیو نے بات کو مزید الجھا دیا۔ لہذا مجھ حقیر کی رائے میں قبلہ کو وضاحت کے بجائے اس تمام معاملے سے رجوع کر لینا چاہئے، اس سے اُن کا قد مزید بڑھے گا کیوں کہ یہاں چلن یہ ہے کہ کئی “نامور” صاحبانِ عمامہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار شانِ اہل بیتؑ میں جسارت کرتے رہے اور پرھ وضاحت کے نام پر دوبارہ جسارت کرتے رہے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ان تمام صاحبانِ عمامہ کی ہر جسارت پر ان کا دفاع کرتے آئے، آج انہی کو سب سے زیادہ دکھ ہو رہا ہے کہ مولانا کمیل مھدوی نے توہین کر دی۔ یہ دوہرے معیار محبِ اہل بیتؑ ہونے کے دعویدار کو زیب نہیں دیتے۔