متفرق موضوعات

اِمام نسائیؒ اہلسنت کے بہت بڑے اور مستند محدثین میں سے ہیں۔ اُن کی کتاب سنن النسائی صحاحِ ستہ، یعنی اہل سنت کی کتبِ احادیث کی چھ مستند ترین کتب میں شامل ہے۔ امام نسائی  کا اختصاص یہ ہے کہ اُنہوں نے دمشق میں   دشمنانِ امیر المومنین علیہ السلام کی کثرت دیکھ کر ایک ایسی کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں مناقب و فضائلِ  امیر المومنینؑ اکٹھے کیے جائیں۔ لہذا اُنہوں نے یہ ایک کتاب لکھی جس  کا نام “خصائصِ علیؑ” رکھا۔ یہ کتاب بلاشبہ شیخ نسائیؒ کی مولا علیؑ اور اہل بیتؑ سے محبت کا ثبوت ہے۔
شیخ نسائیؒ کو ناصبیوں یعنی دشمنانِ امیرالمومنینؑ نے اُن کی اِسی محبتِ اہل بیتؑ کی وجہ سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں  شہید ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ دمشق میں ناصبیوں نے شیخ نسائیؒ سے پوچھاتھا  کہ آپ نے شانِ علیؑ میں تو پوری کتاب لکھی ہے، کیا شانِ معاویہ ا بن ابو سفیان میں بھی آپ کو کوئی روایت یا حدیث یاد ہے؟ شیخ نسائیؒ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک روایت بیان کی تھی جسے سُن کر ناصبیوں نے اُن پر حملہ کردیا تھا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔
۔
یہ واقعہ آپ نے بہت بار سن رکھا ہوگا۔ میں اس واقعے کے توسط سے یہ دعوتِ فکر دینا چاہتا ہوں کہ امام نسائی محبِ اہل بیتؑ تھے، مولا علیؑ سے محبت کرتے تھے، اہل سنت کے معتبر ترین محدثین میں شمار ہوتے ہیں، صحاحِ ستہ میں اُن کی کتاب شامل ہے۔  آپ کسی بھی اہل سنت سے امام نسائی کے بارے میں پوچھیں، وہ فخر سے یہی کہے گا کہ وہ سُنی تھے۔ آپ کو کوئی بھی اہل سنت یہ کہتا نظر نہیں آئے گا کہ چونکہ امام نسائی نے خصائصِ علیؑ نامی کتاب لکھی تھی اِس لیے وہ شیعہ تھے۔  اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس گروہ نے شیخ نسائی کو شہید کیا، آج کے دور میں کیا آپ کو کوئی گروہ ایسا نظر آتا ہے جس کے طرزِ عمل میں آپ کو ہوبہو دمشق کے اُن ناصبیوں کی جھلک نظر آئے؟ جو امام نسائی کی طرح فضائلِ علیؑ بیان کرنے والے اور امیرِ شام کے بارے میں کوئی روایت یا حدیث سنانے والے کی جان کا دشمن بن جائے؟   اُن کی تکفیر کے فتوے دے؟ اُن پر توہین و گستاخی کے الزام لگائے؟  میرا نہیں خیال کہ اس گروہ سے کوئی واقف نہ ہوگا۔
حال ہی میں سینٹ میں زبردستی اور مشکوک انداز میں جو بل منظور کیا گیا ہے، اور اُس کے منظور ہونے پر جس گروہ نے سب سے زیادہ خوشی منائی ہے وہ گروہ کوئی اور نہیں بلکہ یہی گروہ ہے۔ میں نہایت ادب و احترام سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ فرض کیجئے کہ صحاحِ ستہ میں شامل سنن نسائی اور خصائصِ علیؑ کے مصنف اور اہل سنت کے مستند ترین محدثین میں شامل امام نسائی اگر آج موجود ہوں اور اُن سے وہی سوال پوچھا جائے جو دمشق میں پوچھا گیا تھا اور وہ وہی جواب دیں جو اُنہوں نے دمشق میں دیا تھا تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ اُن پر اِس متنازعہ قانون اطلاق کریں گے؟  اگر ہاں تو مان لیں اِس قانون کا سرا دمشق کے اُموی منبروں سے ملتا ہے اور اگر نہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ امام نسائی جیسے جواب دہرانے پر آپ ہم پر اِس قانون کو اطلاق کیوں کریں گے؟ اِس سے اگلا سوال یہ ہے کہ آپ کے خیال میں جو سوال دمشق میں امام نسائی سے  دشمنانِ علیؑ نے کیا تھا، وہ سوال آج اُن سے کون سا گروہ کرے گا؟  میرا نہیں خیال کہ اِس سوال کا جواب دینا کسی کیلئے بھی مشکل ہوگا۔ لہذا فیصلہ آپ خود کر لیجئے کہ آج کے دمشق میں آپ خصائصِ علیؑ والے  امام نسائی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیں گےیا اُن کے دشمنوں کے فکری وارثوں کے۔