منقبت خوانی میں موسیقی کا استعمال از نور درویش
کچھ برسوں سے منقبت خواں حضرات نے منقبت کی اسٹوڈیو ریکارڈنگ اور ویڈیوز میں موسیقی کے مختلف افیکٹس کا استعمال تواتر سے شروع کر دیا ہے۔ کوئی فقط دف کے افیکٹ کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہے اور کوئی دیگر آلات و افیکٹس بھی استعمال کرتا ہے۔ جب کہ بعض پڑھنے والوں نے تو باقاعدہ موسیقی کے مختلف آلات کو ہوبہو ویسے ہی استعمال کیا ہے جیسے کسی نغمے یا غزل میں استعمال ہوتا ہے۔ آج سے پانچ چھ سال پیچھے جائیں تو منقبت خوانی کی ریکارڈنگ میں یہ طریقہ نارملائزڈ نہیں تھا بلکہ کبھی کبھی سننے کو ملتا تھا ۔ جبکہ وہ حلقہ جس کا اصل پس منظر ہی موسیقی، راگ و سر وغیرہ سے جڑا ہے وہ طبقہ تو ہمیشہ سے ہی موسیقی کا بلا جھجھک استعمال کرتا آیا۔ یہ طبقہ آج بھی اسی انداز پر عمل پیرا ہے۔
البتہ جو بات حیران کن ہے کہ وہ طبقہ جو منقبت کو اس کے “اصل” انداز سے پڑھتا تھا اب اس طبقے نے بھی تواتر کے ساتھ مختلف انداز سے موسیقی کا استعمال شروع کر دیا ہے اور اسی انداز کو اب “نارملائزڈ” بھی کر دیا ہے۔ یعنی منقبت=“جائز موسیقی” کی آمیزش”۔ یہ “جائز موسیقی” کی اصطلاح بھی کچھ برسوں سے زیادہ سننے کو ملنا شروع ہوئی۔ اس سال میں نے ۱۳ رجب کی مناسبت سے “ریلیز” کی جانے والی بیشتر منقبت سنیں اور ان سب میں ہی موسیقی استعمال کیا گئی تھی۔ کسی میں کم، کسی میں اوسط اور کسی بھی زیادہ۔ یہاں تک کہ وہ سینئر اور اُستاد لیول کے منقبت خواں جنکی آواز ہی طرز و کلام کا حق ادا کرنے کیلئے کافی ہوا کرتی ہے، انہوں نے بھی موسیقی کے افیکٹس استعمال کئے۔ میں ان کی رواں سال کی منقبت سن کر سوچتا رہا کہ اگر ایک طرف ان دس بارہ سال قبل پڑھی گئی بغیر موسیقی کی منقبت سنی جائے اور دوسری طرف یہ موسیقی اور بھرپور افیکٹس کے ساتھ ریکارڈ کی گئی منقبت تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں وہ بارہ سال پرانی منقبت آج بھی سماں باندھ دے گی۔
۔
صحیح یا غلط اور جائز یا نا جائز کی بحث میں پڑھے بغیر میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ منقبت میں کسی قسم کی موسیقی کی آمیزش نہیں ہونی چاہئیے۔ اس کی آسان سے مثال یہی ہے کہ مردوں کی نماز ماڈرن لباس، ٹی شرٹ اور ایسے شارٹس پہن کر بھی ہوجائے گی جو گھٹنوں سے نیچے ہوں، لیکن نماز کا حق یہ ہے کہ جو بہترین لباس ہو وہ پہن کر بارگاہ خدا میں پیش ہوا جائے۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اللہ جمیل ہے اور وہ جمال پسند کرتا ہے۔ تو جب معاملہ حجت اللہ کی منقبت کا ہو تو انصاف سے بتائیے کیا وہ منقبت جمال کے پیمانے پر پوراُترے گی جس میں کسی قسم کی موسیقی کی آمیزش نہ ہو یا وہ جس میں افیکسٹس اور جائز موسیقی کا نام لیکر موسیقی شامل کی گئی ہو؟
ظاہر ہے منقبت جدید افیکٹس اور “جائز موسیقی”کے ساتھ بھی ہوگی منقبت ہی لیکن کیا یہ مناسب محسوس ہوگا کہ آپ مولا ع کی بارگاہ میں منقبت پیش کریں اور ساتھ یہ حاشیہ بھی لگادیں کہ مولا ع یہ منقبت ہے اور جائز موسیقی کے ساتھ ہے۔ اگر تو منقبت مولا ع کیلئے ہے تو اُسی انداز میں ہو جو منقبت کا حق ہے۔ اور ظاہر ہے اگر ٹارگٹ یوٹیوب و سوشل میڈیا کا کمپٹیشن، آڈینس کی انگیجمنٹ اور ویوز کی جنگ ہے تو آپ کا حق ہے کہ اس ٹارگٹ کے حصول کیلئے ہر “جائز” طریقہ استعمال کریں۔
۔
ایک بات اور جس کا ذکر کچھ عرصہ سے کرنا چاہ رہا تھا وہ ہے بعض معروف پڑھنے والوں کے کلام کی طرز اور ویڈیو کا انداز۔ ایک معروف منقبت و نوحہ خواں جو اب ایک بڑی سلیبریٹی کا تاثر زیادہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ رمضان انہوں نے ایک نعتیہ کلام کے ریلیز ہونے کا اعلان فرمایا۔ جب ویڈیو ریلیز ہوئی تو طرز اور انداز، دونوں ہی نعت سے زیادہ قوالی کا تاثر دے رہے تھے۔ موسیقی کا شدت سے استعمال اور طرز، سن کر کسی کلاسیکل پکے راگ کا گمان زیادہ ہو رہا تھا۔ میں نے قوالی کا نام احتیاطاً لیا ورنہ تاثر بھجن سنگیت وغیرہ کا زیادہ آرہا تھا۔ یہی معاملہ ان محترم کے اکثر نوحوں کی طرز اور بالخصوص ویڈیوز کا ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک نوجوان منقبت و نوحہ خواں کی رواں سال پڑھی گئی منقبت کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ نوجوان نے ایک گلوکار یا غزل گانے والے کی طرح شال اوڑھ رکھی ہے اور طرز کے ساتھ موسیقی اس قدر شدت سے استعمال کی گئی ہے کہ چاہ کر کر دل تسلیم نہیں کر پا رہا کہ یہ منقبت مولائے کائنات علیہ السلام پڑھی جا رہی ہے۔
۔
منقبت ہو یا نعت، ان کی تاثیر و خوبصورتی کسی بھی قسم کی موسیقی کی آمیزش کے بغیر زیادہ ہوتی ہے۔ سامع طرز اور کلام دونوں کو بغور سنتا ہے جبکہ موسیقی کی آمیزش کی وجہ سے کلام ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور سننے والا طرز و موسیقی کی طرف زیادہ متوجہ رہتا ہے بلکہ اسی میں محو ہوجاتا ہے۔
میں نے اس معاملے کے نفسیاتی پہلو پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ زیادہ تر پڑھنے والے میوزک اس لئے استعمال کر رہے ہیں تاکہ لوگ منقبت اس کے افیکٹس، طرز، کورس، دف، بسا اوقات ڈرم یا دیگر آلات کی وجہ سے اسے زیادہ سے زیادہ سنیں ، لطف اندوز ہوں اور ویوز بڑھیں۔لہٰذا جب ٹارگٹ سامع کو طرز اور “جائز موسیقی” میں انگیج کرنا اور ویوز ہوں تو کلام پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ جب یہ بات ہم سب کو سمجھنی چاہئے کہ منقبت کا مقصد لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ اہل بیتؑ کی مودت و محبت کے احساس اور اُن کے فضائل کی بے اختیار خوشی کو دل میں محسوس کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ اُس وقت ہی ممکن ہے جب سامع کا دل یکسوئی کے ساتھ کلام کی طرف متوجہ ہو نا کہ کلام میں شامل کی گئی موسیقی اور بے تحاشا افیکٹس کی طرف۔