حمدِ پروردگار از نور درویش
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میری فیس بک آئی ڈی بند ہوئی تھی یا بند کروا دی گئی تھی اور میری بہت سی تحاریر ضائع ہوگئی تھیں۔ مجھے بہت پچھتاوا ہوتا تھا کہ میں نے اپنی تحاریر کو کہیں محفوظ کیوں نہ کر لیا تھا، جو کچھ بھی لکھا تھا، جیسا بھی لکھا تھا، بہت محنت سے لکھا تھا۔ بہتر ہوتا کہ کہیں یہ سب محفوظ کر لیتا۔ یہی سوچتے ہوئے ایک روز میں نے اپنی زوجہ سے کہا کہ بہت بہتر ہوتا اگر میں اپنی کچھ تحاریر کو کتاب کی شکل میں محفوظ کر لیتا بالخصوص وہ تحاریر جو میں نے مخصوصی تاریخوں پر مختلف عظیم المرتبت شخصیات کے حوالے سے لکھی تھیں۔ مثلا رسولِ خداؐ سے لیکر امام مھدی صلوات اللہ علیہ تک اور شہدائے کربلا کے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ سب محفوظ کر لیتا۔ میری زوجہ نے میری بات سنی اور کہا کہ بہت بہترین ہوجاتا اگر ایسا ہوتا لیکن کتنا اچھا ہوتا اگر آپ اپنی کتاب کا آغاز اُس ذاتِ بزرگ و برتر کے تذکرے سے کرتے جس نے ہمیں چہاردہ معصومین علیھم السلام اور اِن تمام پاک و مطھر ہستیوں کی محبت کا نعمت عطا فرمائی جن کا تذکرہ آپ مخصوصی تاریخوں میں کرتے آئے۔
مجھے یاد ہے کہ یہ جملہ سُن کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا تھا اور بہت طویل عرصے کے بعد میں نے اپنے دل میں اُس پروردگارِ عالم کیلئے محبت و اُنسیت محسوس کی تھی جو میرے مولائے کائناتؑ کا بھی خالق ہے۔ میں نے سوچا کہ میں ایک دن اُس محبوب و مہربان رب کی بارگاہ میں کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا جس کیلئے کوئی تاریخ مخصوص نہیں بلکہ ہر دن، ہر تاریخ اور ہر لمحہ اُس سے منسوب ہے۔ دن گزرتے رہے اور میں بس ارادہ کرتا ہی رہ گیا کہ میں بارگاہ خداواندی میں حمد لکھنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن باوجود ارادے کہ نہ لکھ پایا۔
۔
میں سوچتا تھا کہ خالقِ کائنات کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو شروع کہاں سے کروں۔ خداواند لامکاں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی سِرا نہیں ملتا، لامکاں کے تذکرے کا سِرا ملتا بھی کیسے؟ میں اسی کیفیت سے اُس وقت بھی گزرا تھا جب میں اپنے امامِ وقت صلوات اللہ علیہ کی بارگاہ میں کچھ حقیر سے الفاظ لکھنا چاہتا تھا لیکن ایک طویل عرصے تک نہ لکھ سکا تھا، ارادہ کرتا تھا لیکن لکھ نہ پاتا تھا۔ ہر سال پندرہ شعبان آتی تھی، شہادتِ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ایام آتے تھے لیکن میں اپنے امام زمانہ عج کی بارگاہ میں چاہ کر بھی کچھ لکھ نہ پاتا تھا اور ہمیشہ اِسی نتیجے پر پہنچتا تھا کہ شاید بلکہ یقینا میں اپنے امامِ وقت سے اس قدر غافل ہوں کہ اُنؑ کی بارگاہ میں کچھ لکھنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ پھر دو سال قبل مولا عج نے مجھ پر نظرِ کرم کی اور مجھے قطیف کے مضافاتی علاقے سیھات کی اُس مسجد کا منظر یاد دلا دیا جہاں روزِ جمعہ نماز سے قبل مولانا اپنے خطبے میں انتہائی دلنشیں انداز میں چہاردہ معصومین علیھم السلام کے اسمائے مبارک بمعہ خوبصورت القابات کے پڑھا کرتے تھے، نمازی بلند آواز سے دورود و سلام پڑھا کرتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسماء و القابات سے مزین موتیوں کی ایک لڑی سی بن جاتی تھی۔
۔
سیھات کی مسجد نے مجھے حجتِ خدا صلوات اللہ علیہ کی بارگاہ میں کچھ لکھنے کا راستہ دکھا دیا تھا اور اِسی سیھات کی مسجد نے مجھے خدا کے بارے میں کچھ لکھنے کا راستہ دکھا دیا۔ حجتِ خدا صلوات اللہ علیہ کی بارگاہ میں چند ٹوٹے پھوٹے لفظ پہنچانے کیلئے بھی مجھے طویل انتظار کرنا پڑا تھا اور ایسا ہی طویل انتظار مجھے خالقِ دوجہاں کی بارگاہ میں حمد کے چند الفاظ پہنچانے کیلئے کرنا پڑا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے امامِ زمانہ صلوات اللہ علیہ کا تذکرہ کیا تھا تو یہ اقرار کیا تھا کہ میں نے اپنے امامِ وقت کو اگر اس زندگی میں کبھی یاد کرنے کی کوشش کی تو وہ وہی زمانہ تھا جب میں سعودی عرب میں موجود تھا اور چاروں جانب سے وہابیت زدہ ماحول میں گھرا ہوا تھا۔ میں نے اقرار کیا تھا کہ اُس کے بعد میں کبھی اپنے امامِ وقت عج کو ویسے یاد نہ کر سکا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُس مختصر عرصے کے علاوہ میں اپنے امامِ وقت صلوات اللہ علیہ غافل ہی ہوتا چلا گیا۔ لیکن یہ یقین بہرحال مجھے ہمیشہ رہا کہ ہم چاہے اپنے امامؑ سے جتنا غافل رہیں، وہ ہم سے غافل نہیں رہتے۔
جس طرح سعودی عرب میں گزارے ہوئے اُس عرصے کے دوران میں نے امام زمانہؑ کو یاد کیا، ٹھیک یہی زمانہ تھا جب میں نے اپنے پروردگار کو بھی بھی یاد کیا۔ مجھے یہ اقرار کرنے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ اُس دور کے علاوہ میں اپنے رب سے غافل ہوتا چلا گیا، میں نے دعا مانگنے کی صلاحیت کھو دی، دل کی بات اُس ذاتِ مہربان سے کہنا بھول گیا اور فراموش کر بیٹھا کہ کبھی وہ دور بھی گزرا تھا جب میں اپنے خالق کی محبت کو دل میں محسوس کرتا تھا۔
۔
چونکہ اپنے خالق کے ساتھ مختصر عرصے تک اُنسیت بھرا جو تعلق میں نے سعودی عرب میں قائم کیا تھا، وہ اب میرے گلے میں موجود گناہوں کے بھاری طوق کی وجہ سے کمزور ہوچکا لہذا اس تحریر میں اُن گزرے دنوں کو یاد کرکے میں جو بھی لکھوں کا اُسے احساسِ ندامت سمجھا جائے، دکھاوا نہیں۔ کیوں کہ یہ سب کچھ میں زندگی کے جھمیلوں اور دنیا کی محبت میں غرق ہوکر اپنے ہاتھوں سے گنوا چکا۔ اب میری مثال بس اُس شخص جیسی ہے جو ہر روز مسجد میں جلدی جلدی نماز پڑھنے کیلئے صرف اِس لئے آجایا کرتا تھا تاکہ خدا کو یہ بتا سکے کہ وہ گناہگاہ تو بہت ہے لیکن باغی نہیں ہے۔ بس میں بھی باغی نہیں ہوں۔
۔
سیھات کی اُس جامعہ مسجد کے باہر اکثر زمین پر چٹائی بچھا کر ایک شخص مختلف عربی کتب بیچا کرتا تھا۔ ایک بار میں نے اُس سے لبنان کی چھپی ہوئی ایک مناجات کی کتاب خریدی تھی جس میں دعائے کمیل، دعائے مشلول، زیارتِ عاشور اور دیگر مناجات و تعقیبات لکھی ہوئی تھیں۔ اُس وہابیت زدہ ماحول میں یہ کتاب مل جانا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ میں جب جب عمرہ کرنے گیا یا مدینہ کی زیارت کیلئے گیا تو یہ کتاب ساتھ لے جاتا تھا۔ سال میں کبھی ایک آدھ بار رسما” دعائے کمیل یا دعائے مشلول میں اب بھی پڑھ لیتا ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو دعائے کمیل اور دعائے مشلول میں نے سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران پڑھی، اُس طرح شاید کبھی دوبارہ نہ پڑھ سکوں۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ میں “صبرت علی عذابک فکیف اصبر علی فراقک” کے جملے کو بار بار دہرایا کرتا تھا جیسے اپنے محبوب و مہربان رب کو بتانا چاہ رہا ہوں کہ تیرا عذاب تو سہہ لیں گے لیکن تیرا فراق کیسے سہیں گے۔ میں یہ پڑھتے ہوئے بار بار سوچتا تھا کہ یہ کلام عام کلام نہیں، یہ میرے مولا علیؑ کا تعلیم کردہ کلام ہے، میں اپنے مولاؑ کے سکھائے ہوئے الفاظ کے ذرئعے اپنے مولاؑ کے رب سے راز و نیاز کر رہا ہوں۔
آج میں یہ جملہ دہراتا ہوں لیکن افسوس میں وہ احساس کھو چکا، افسوس کہ اپنے محبوب و مہربان رب کا فراق اب مجھے تکلیف نہیں دیتا۔
میں دعائے مشلول پڑھتے ہوئے کوشش کرتا تھا کہ جلد از جلد اُس مقام تک پہنچ جاوں جہاں پروردگار اپنے بندے کو دلاسہ دے رہا ہے کہ سُنو میرے بندے، گناہ گار ہو؟ پشیمان ہو؟ گھبراو نہیں۔ میری رحمت سے مایوس بالکل بھی نہ ہو۔ میں تمہارے سب گناہ معاف کردوں گا۔ افسوس آج میں کبھی یہ دعا پڑھ بھی لوں تو اِس مقام تک پہنچنے کی جلدی نہیں کرتا اور جب پہنچتا ہوں تو تیزی سے پڑھ کر گزر جاتا ہوں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے میرا وہ محبوب و مہربان رب آج بھی مجھ جیسوں کو تسلی دینے کیلئے اپنے دروازے کھولے موجود ہے کہ سُنو میرے بندوں میری رحمت سے نا اُمید مت ہوجانا، کیا تم جانتے نہیں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں؟
پروردگار عالمِ کو بہت سے اسمائے حسنی کے ذرئعے پکارا جاتا ہے۔ لیکن جس اسم کے ساتھ میرا ہمیشہ قلبی تعلق رہا وہ “ستار العیوب” ہے۔ یہ وہ اسم ہے جو مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں کروڑوں کا آسرا ہے۔ یہ وہ اسم ہے جو مجھ جیسوں کو خدا کی کرامت کا احساس دلاتا ہے کہ ہم تو کسی قابل نہیں لیکن بہت اطمینان ہے کہ وہ عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا بہت کریم ہے۔ وہ تنہا نہیں چھوڑے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرا ایسا سوچنا درست ہے یا نہیں لیکن میرے قلب و ذہن پر خدا کی کریمی، مہربانی اور محبت کا اثر اُس کے قہر، عذاب اور خوف کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ گہرا رہا۔
۔
وہ تیز انٹرنیٹ کا دور نہ تھا اور نہ ہی موبائل فونز اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی تھی جتنی آج ہے۔ میں نے اپنے کمپیوٹر میں کچھ تحاریر اور کچھ کتابیں ڈاونلوڈ کر رکھی تھیں۔ ایک بار ایک مضمون میں مجھے ایک حدیثِ قدسی مل گئی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ انسان جن اعمال کے ذرئعے میرا یعنی اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے اُن میں وہ نمازیں شامل ہیں جو اللہ نے اُس پر فرض کیں۔ انسان یہ نمازیں پڑھ کر میرا قرب حاصل کرتا ہے پھر وہ نافلہ نمازیں پڑھ کر مجھ سے اور قریب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ میں یعنی اللہ اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کے بازو بن جاتا ہوں جن سے وہ طاقت کے جوہر دکھاتا ہے۔
میرے لئے یہ حدیثِ قدسی بہت حیران کن تھی کہ اللہ کس طرح اپنے بندے کی زبان اور آنکھ بن سکتا ہے؟ کیسے اُس کے بازو اور کان بن سکتا ہے؟ یہ وہ زمانہ تھا جب میں پابندی سے نماز پڑھنا شروع کر چکا تھا۔ شاید یہ وہ واحد زمانہ تھا جب میں نے پابندی اور رغبت کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں جب چار دوستوں کے ہمراہ بیٹھا کسی کی غیبت کرنے لگتا تو میرے باطن سے ایک بہت شدید ردعمل سامنے آتا کہ دیکھو یہ غیبت ہے، اس سے دور رہو۔ مجھے اب تک یقین نہیں آتا کہ اس ردعمل کی وجہ سے میں نے اُس زمانے میں غیبت کرنے سے مکمل چھٹکارا پا لیا تھا۔ اِس ردعمل نے مجھے کسی حد تک سمجھا دیا تھا کہ نماز برائی سے کس طرح روکتی ہے۔ افسوس کہ آج میری عادتا” پڑھی ہوئی نماز مجھے برائی سے نہیں روکتی، غیبت کرتے ہوئے میرے باطن سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا۔ افسوس کہ میرے محبوب و مہربان رب نے مجھے اُس حدیث قدسی کا مفہوم سمجھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن میں سب کچھ سمجھ کر بھی سب کچھ بھلا بیٹھا۔ آج میری زبان غیبت کرتی ہے، میری آنکھ وہ سب دیکھتی ہے جو اللہ نہیں چاہتا کہ میں دیکھوں، میرے کان وہ سب سنتے ہیں جو میرا رب نہیں چاہتا کہ میں سنوں اور میں وہ سب کرتا ہوں جو میرا حدیثِ قدسی والا رب نہیں چاہتا کہ میں کروں۔
۔
مجھے آج بھی جب جب یاد آتا ہے تو حیران ہوتا ہوں کہ میدانِ عرفات میں غروبِ آفتاب سے کچھ پہلے لاکھوں حاجیوں کی باآوازِ بلند مانگی جانے والی دعاوں کے درمیان خاموشی سے کھڑے ہوکر دل ہی دل میں اپنے خالقِ سے باتیں کرنے کی کوشش میں نے ہی کی تھی۔ اور آج یہ نوبت آچکی کہ کسی فرض نماز کے بعد چند لمحوں کیلئے دعا مانگنے کی صلاحیت بھی سلب کروا چکا۔ آج کسی دعاوں کی کتاب میں پڑھا جملہ یاد آتا ہے کہ دعا مانگنے کی توفیق ملنا بھی ایک نعمت ہے۔ افسوس میں اِس توفیق سے محروم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں میدانِ عرفات میں کھڑا زہد و تقوی کے امام، امام سید الساجدینؑ کی زبان مطھر سے جاری ہوئی کچھ مناجات کو یاد کر رہا تھا جو مولاؑ نے اپنے چاہنے والوں کو اُن کے خالق سے راز و نیاز کیلئے سکھلائیں۔ ” اے میرے محبوب و مہربان رب، اگر تو نے میرے گناہوں کی وجہ سے مجھے جہنم میں بھی بھیج دیا تو میں وہاں بھی یہی کہوں گا کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں”۔ میں میدانِ عرفات میں مولا سجادؑ کے تعلیم کردہ یہ جملے دل میں دہراتا تو دل کو سکون ملتا، آج مجھے یہ جملے تو یاد ہیں لیکن دل کا سکون کھو گیا۔
۔
اوپر موجود تمام تحریر میں نے ایامِ عزا یعنی 8 ربیع الاول سے پہلے لکھ لی تھی لیکن باوجود کوشش اور ارادے کے اِس کا اختتام نہ کر پا رہا تھا۔ روز خیال آتا تھا اور روز سمجھ نہ آتی تھی کہ اِس تحریر کا اختتام کیسے کروں۔ ایامِ عزا ختم ہوئے، عیدِ زہراؑ گزری اور آمدِ صادقینؑ کے ایام آگئے۔ آج اچانک اس تحریر کا خیال آیا تو دل نے بے اختیار آواز دی کہ خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں لکھی تحریر مکمل کرنے کیلئے محبوبِ خدائے بزرگ و برتر کی آمد کی بابرکت تاریخ سے بہتر دن اور کیا ہو سکتا ہے۔ بھلے گناہگار ہوں، بے عمل ہوں اور لیکن وسیلے پر دل و جان سے اعتقاد رکھتا ہوں۔ لہذا دل نے گواہی دی کہ جب خدا تک پہنچنے کیلئے محمدؐ و آلِ محمدؑ کا وسیلہ موجود ہے تو خدا تک اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پہنچانے کیلئے بھی انہی ہستیوں کا وسیلہ کیوں نہ اختیار کیا جائے جو مظہرِ ارادہِ الہی ہیں؟ وہ ہستیاں جن کی محبت پروردگار عالمِ کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
میں اسے حسنِ اتفاق ہی کہوں گا کہ وہ تحریر جس کا نوے فیصد حصہ میں دو ہفتے قبل لکھ چکا تھا لیکن اُس کا اختتام کرنے کیلئے مجھے الفاظ نہیں مل پا رہے تھے یہاں تک کہ آمدِ صادقینؑ کا دن آ پہنچا اور ایسا محسوس ہوا جیسے اس تحریر کو آج ہی مکمل ہونا تھا۔
بنیادی طور پر یہ بارگاہِ الہی میں مجھ گناہگار کا ایک اقرار نامہ تھا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ رب العالمین کے سامنے یہ اقرار رحمت للعالمینؐ اور رحمت للعالمینؑ کے علوم کے وارثؑ کے آمد کے بابرکت ایام میں کیا۔ یقین ہے کہ جن کے وسیلے سے مانگی ہوئی دعائیں وہ ذات رد نہیں کرتی، وہ ذات اس اقرار نامے کو بھی قبول کر لے گی۔
17 ربیع الاول 1442 ھ