متفرق موضوعات

مسیحی اور محبتِ امام حسینؑ از نور درویش

محرم میں وہب الکلبیؒ یا اکثر “وہب النصرانی” کے نام سے یاد کیے جانے والے کربلا کے جواں سال شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے میں نے اُس منفرد احساس کا ذکر بھی کیا تھا جو کبھی کبھی مسیحیوں کو دیکھ کر میرے دل میں پیدا ہوتا ہے۔
وہ احساس یہ ہے کہ مجھے عیسی ابن مریمؑ کے ماننے والے مسیحیوں کو دیکھ کر بار بار حسینؑ ابنِ فاطمہؑ کا خیال آتا ہے۔ مجھے آج تک اس احساس کی وجہ معلوم نہ ہوسکی کہ آخر میرا دل یہ کیوں کہتا ہے کہ عیسی ابن مریمؑ سے والہانہ محبت کرنے والے بہت سے مسیحی، حسینؑ ابن فاطمہؑ سے بھی محبت کرتے ہونگے؟ بار بار یہ خیال دل میں کیوں آتا ہے کہ انہی مسیحیوں کی بڑی تعداد مھدی ابن فاطمہؑ سے محبت کرے گی؟
۔
شاید بعض مسیحیوں کے امام حسینؑ کے بارے میں جذبات دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا۔ بالخصوص عراق کے وہ مسیحی جنہوں نے اپنے بازوں پر بیک وقت عیسی ابنِ مریمؑ اور امام حسینؑ کا نام کنندہ کروا رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسیحی ہیں لیکن ہم امام حسینؑ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ کچھ ایسے مسیحی بھی ہیں جو روزِ عاشور قمہ کا ماتم کرتے ہیں۔ میں نے کربلا میں اربعین کے موقع پر مسیحی لباس زیبِ تن کیے ایک مسیحی نوجوان کو چند شیعہ نوجوانوں کے ہمراہ اُس چھوٹے ٹھیلے پر کھڑا دیکھا تھا جس پر عموما عراقی کھڑے ہوکر نوحے پڑھتے ہیں اور سامنے حلقے میں لوگ ماتم کرتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی مناظر ہیں جو کربلا میں یومِ عاشور اور اربعین پر نظر آتے ہیں۔
۔
قران نے ایک مقام پر(سورہ مائدہ) مسیحیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض مسیحوں کو مومنین کا دوست اور درویش صفت قرار دیا ہے۔ قران نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ لوگ حق بات کے مقابلے میں تکبر کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اُسے تسلیم کرتے ہیں۔
یقینا یہاں دورِ نبویؐ کے مسیحیوں کا تذکرہ ہے جن میں نجاشی جیسے مسیحی حکمران سرِ فہرست ہیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کے وقت پناہ دی بلکہ اُن کی بات بھی توجہ سے سنی اور جنابِ جعفر طیارؑ کی زبانی اُن آیاتِ قرانی کی تلاوت سُن کر فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر آنسو بھی بہائے جن میں بی بی مریمؑ کی فضیلت و پاکدامنی کی گواہی دی گئی ہے۔ اگرچہ نجاشی نے بعد ازاں اسلام قبول کیا لیکن ہجرت حبشہ کے وقت بطور مسیحی اُس کے طرز عمل میں وہی نرم دلی اور محبت کی جھلک واضح تھی، جس کا تذکرہ قران نے کیا۔

یہی معاملہ کربلا میں وہب کلبیؒ کا ہے۔ اس شخص کا والد ایک مسیحی تھا لیکن اولاد کیلئے امام علیؑ سے یہ کہہ کر دعا کی درخواست کی تھی کہ میں مسیحی ہوں لیکن جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے خاص بندے ہیں، لہذا میرے لیے دعا کیجئے۔ وہبؒ، اُس کی زوجہ اور والدہ، تینوں جس وقت جذبات سے مغلوب ہوکر بے اختیار نصرتِ امام حسینؑ کیلئے کربلا پہنچے تھے، تو بطور مسیحی پہنچے تھے، اگرچہ بعد ازاں شہادت سے قبل امام حسینؑ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا تھا۔
مجھے وہ مسیحی بھی یاد آتے ہیں جو واقعہ کربلا کے بعد، اُس وقت خانوادہ رسالتؐ کو چادریں دے رہے تھے جب شامی “مسلمان” تماشہ دیکھ رہے تھے اور پتھر برسا رہے تھے۔ انہی مسیحیوں کی یاد میں چند برس قبل غالبا راولپنڈی کی ایک مجلس عزا میں دوران ماتم، پاکستانی مسیحیوں کے ایک چھوٹا سا جلوس ہاتھوں میں چادریں لیے مجلس میں شامل ہوا تھا۔
۔
آپ کا مجھ سے اتفاق کرنا ضروری نہیں لیکن آج بھی مسیحیوں میں ایسے بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جو اکھڑ مزاج نہیں ہوتے اور حق بات کو غور سے سنتے ہیں اور سن کر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ لوگ متکبر نہیں ہوتے۔ ایک مسیحی جب کربلا میں یومِ عاشور یا یوم اربعین میں ماتم کرتے ہوئے شریک ہوتا ہے تو وہ بطور مسیحی ہی شریک ہوتا ہے لیکن دل میں امام حسینؑ ابن فاطمہؑ کی محبت لیکر شریک ہوتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہوا ماتام کرتا ہے کہ ہم عیسی ابنِ مریمؑ کے مانے والے، آپ کے غم میں شریک ہوکر آپ کے ساتھ حسین ابن فاطمہؑ کا ماتم کرنے آئے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو بار بار میرے دل میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ عیسی ابنِ مریمؑ کے ان چاہنے والوں کی بڑی تعداد مھدی ابن فاطمہؑ سے بھی محبت کرے گی۔
۔
یومِ ولادت باسعادت حضرت مسیح علیہ السلام، تمام محبانِ عیسی ابنِ مریمؑ اور مھدیؑ ابنِ فاطمہؑ کو مبارک ہو۔