ایک تین یا ساڑھے تین سال کے بچے کی کُل کائنات کیا ہوتی ہے؟ والدین کی آغوش میں سکون کی نیند سونا؟ اُن کی اُنگلی پکڑ کر چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چلنا؟ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنا؟ اپنے آس پاس موجود چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مگن رہنا؟ بس یہی کچھ تو ایک تین ساڑھے تین سال کے بچے کی دنیا ہوا کرتی ہے۔
لیکن ایک دنیا سنہ 61 ہجری کے ایک ساڑھے تین سالہ بچے کی بھی تھی جس نے ایک ایک کرکے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بڑوں، اپنے پیاروں اور خود سے بھی چھوٹے ایک شیر خوار کو شہید ہوتے دیکھا، اس نے ایک جلتے ہوئے خیمے میں بستر پر لیٹے اپنے بیمار والد کو دیکھا اور اس نے پردہ دار بیبیوں کو ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا۔ یہ وہی بچہ تھا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کربلا کو بپا ہوتے دیکھا۔ جسے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام، رقیہؑ، سکینہؑ اور اہلِ بیتؑ کے دیگر بچوں کے ساتھ ایک ہی زنجیر سے جکڑ کر لایا گیا۔ اِس بچے کا نام محمد بن علیؑ ہے جسے دنیا نے محمد ابن علی الباقرؑ اور باقر العلومؑ کے نام سے یاد کیا۔
۔
یہ وہی بچہ تھا جس نے دربارِ یزید میں اپنے ایک جملے سے سکوت طاری کردیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ جب اسیرانِ کربلا دربارِ یزید ملعون میں پہنچے تو یزید نے رعونت آمیز لہجے میں اُنہیں مخاطب کرکے اُن کے انجام سے متعلق کیا کفر بولا تھا۔ کسی کو قتل اور کسی کو (معاذ اللہ) فروخت کردینے کے غلیظ ارادے کا اظہار کیا تھا۔ یہاں تک کہ دربار میں ایک بچے کی آواز گونجی تھی کہ تجھ سے بہتر تو وہ فرعون تھا کہ جس کے دربار میں جب موسیؑ و ہارونؑ گرفتار کرکے لائے گئے تھے اور اُس نے اپنے دربار میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے اُن کے انجام سے متعلق مشورہ مانگا تھا۔ تو اس فرعون سے بھی پست ثابت ہوا جس نے اپنے اطراف میں موجود ان درباریوں سے مشورہ لینا بھی ضروری نہ سمجھا۔ یزید یہ سن کر چونک اُٹھا تھا کہ ایک ساڑھے تین برس کا بچہ، ایک قرانی واقعے سے کس طرح استدال کرسکتا ہے۔ یہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ باقر العلومؑ تھا۔
۔
اسیرانِ کربلا کا یہ قافلہ بعد از رہائی پہلے شام سے واپس کربلا آیا تھا اور پھر وہاں سے مدینہ روانہ ہوگیا تھا۔ البتہ سکینہؑ شام میں ہی رہ گئی۔
یہ لکھتے ہوئے بے اختیار جناب حسین اکبر کا لکھا، شہید سبطِ جعفر اور میر حسن میر کا پڑھا وہ لازاول نوحہ بھی ذہن میں گونج اُٹھا جس میں شام کے تاریک زندان میں چل بسنے والی ایک معصوم بچی کی تدفین کے بارے میں اُس کے بھائی امام سجادؑ اور اسی بچے کا ذکر کچھ کیوں کیا گیا ہے:
” کر مدد میری باقرؑ بیٹا، ہمشیر کی قبر بناوں میں
زنجیر اُٹھاو تم میری، اور اس کی لاش اُٹھاوں میں “
۔
اہلِ حرم کی مدینہ واپسی پر صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب جابر بن عبداللہ الانصاری رض کا ذکر کیسے بھولا جاسکتا ہے۔ یہ اُس دور تک زندہ رہنے والے غالبا واحد صحابی رسول ص تھے۔ کہتے ہیں کہ جب انہیں آلِ محمدؑ کی مدینہ آمد کی خبر ملی تھی تو وہ مسجد نبوی کے باہر بے اختیار این الباقر ع یعنی “الباقرؑ کہاں ہے” کی صدائیں دیتے ہوئے بیٹھ گئے۔ اُنہیں اُس باقرؑ کا انتظار تھا جس کے بارے میں اُنہیں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتلا گئے تھے کہ جب تم اُس سے ملو جو میرا ہم نام ہو، جو خصوصیات میں مجھ جیسا ہو، جس کا چہرہ نور سےمنور ہو، جو علم و فضل کا پیکر ہو تو اُسے میرا سلام کہنا۔ لوگ اُسے باقرؑ کے نام سے جانیں گے۔
یہ محمد ابن علی الباقرؑ تھے، جنہیں سلام پہنچانے کی وصیت، اُن کے جد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے صحابی کو کرگئے تھے۔
۔
امام محمد باقرؑ کو یہ منفرد خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اُن کے والد امام زین العابدینؑ، امام حسینؑ کے فرزند تھے اور اُن کی والدہ، امام حسنؑ کی دختر۔ یعنی آپؑ کے دادا امام حسینؑ تھے اور نانا امام حسنؑ۔ آپ کے والد کا نام علیؑ تھا اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہؑ، جنہیں امام حسنؑ نے صدیقہ کا لقب بھی دیا تھا۔ یعنی دادا سیدالشہداءؑ، نانا کریمِ اہلیبیتؑ، باپ علی زین العابدینؑ، والدہ فاطمہ صدیقہؑ اور جد رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
گویا امام محمد باقر علیہ السلام وہ ذات مطھر ہیں جس میں پروردگار عالم نے نسل امام حسن مجتبی علیہ السلام اور نسل امام حسین سید الشہداء علیہ السلام کو ضم کردیا۔
امام محمد باقرؑ کے دوسرے بھائی کا نام عبداللہ الباہرؑ تھا جب کہ آپ کے تیسرے بھائی جناب زید شہیدؑ تھے جن کی والدہ کا تعلق سرزمینِ برصغیر کی سندھ دھرتی سے تھا، یہ امام زین العابدینؑ کی دوسری زوجہ تھیں۔
۔
بنجر زمین پر ہل چلا کر، اس میں بیج بو کر اس میں سے ہری بھری فصل اگا کر اناج کی صورت رزق بانٹنے والے کسان کی طرح اِس باقر العلومؑ نے جہالت کی بنجر زمین میں ہل چلائے، اُس میں علم کے بیج بوئے، پھر علم کی ہری بھری فصلیں اُگائیں اور پھر پوری دنیا میں علم و حکمت کو یوں پھیلایا کہ دنیا نے اسے باقر العلومؑ کے لقب سے یاد کیا۔
عربی زبان میں بقر کا لفظ زمین پر گہرائی تک ہل چلانے والے کیلئے ہوتا ہے، یعنی باقر العلومؑ وہ شخصیت جنہوں نے علم کی زمینوں کی آبیاری کی۔ ایسی آبیاری کہ اُن کے فرزند امام جعفر صادقؑ کے دور تک ان فصلوں کا ثمر ہر سو نظر آیا۔ ہر امامؑ کا دور اور ہر امامؑ کا مرتبہ یکساں لیکن علومِ آلِ محمدؑ کی ترویج و تعلیم کے حوالے سے جو منفرد مقام امام باقرؑ اور پھر امام جعفر الصادقؑ کے ادوار کو حاصل ہے، اُسی کی وجہ سے ان ادوار کو باقرین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۔
اقتدار اور گمراہی کے نشے میں دھت اُموی آمروں کے درمیان مسجد نبوی میں بیٹھ کر علومِ آلِ محمدؑ تقسیم کرنا، فلسفہ، فقہ، جغرافیہ اور دیگر علوم پڑھانا اور پھر اُموی آمروں کی طرف سے بھیجے جانے والے نامی گرامی علماء کے سوالوں کے جواب دینا، صرف اُسی ذات پر جچتا ہے جسے باقر العلومؑ کہا جاتا ہے۔ اس میں غور کرنے کیلئے بہت کچھ ہے کہ اس حقیقی طاغوتی نظام کے درمیان رہتے ہوئے امامؑ کس طرح اپنے افکار اور علومِ آلِ محمدؑ کی ترویج کر رہے تھے۔ عبد الملک بن مروان سے شروع ہوجائیں اور ملعون ہشام تک آجائیں۔ یہ لوگ امامؑ کے علم و فضل سے جل کر بار بار کوشش کرتے رہے کہ کسی زرخرید عالم کے ذرئعے امامؑ کو لاجواب کردیا جائے لیکن ہر بار ناکام رہے۔ ایسے ہی ایک عالم نے تکبر کے ساتھ امامؑ سے پوچھا تھا کہ کیا تم سب کچھ جانتے ہو؟ جس کے جواب میں امامؑ نے جو کہا، وہ وہی کہہ سکتا ہے جو باقر العلومؑ ہو۔ آپ کا جواب تھا:
“میں جاہل نہیں ہوں”۔
اِسی باقر العلومؑ نے ہمیں بتلایا کہ “جب کسی انسان کے دل میں غرور پیدا ہوتا ہے، تو اُسی قدر اُس کی عقل میں کمی واقعہ ہوجاتی ہے۔”۔ آج اپنے اطراف میں دیکھ لیجئے، زعمِ علم، زعمِ تقوی اور زعمِ ہدایت میں مبتلا کتنے ہی لوگ نظر آینگے جن کے نزدیک ہر دوسرا شخص گمراہ ہوگا، جاہل ہوگا اور معرفت سے محروم ہوگا۔ ہم سب کو اپنے اپنے قلوب میں جھانکنا چاہئے کہ کہیں غرور نے ہماری عقلوں کو مفلوج اور مزاج کو اکھڑ تو نہیں بنا دیا ہے؟ یہ اُس ہستی کا سبق ہے جسے باقر العلومؑ کہا جاتا ہے، یعنی علم کی آبیاری کرنے والا اور پھر تقسیم کرنے والا۔
۔
امام محمد باقرؑ نے ساڑھے تین برس کی عمر میں کربلا بپا ہوتے دیکھا، کوفہ و شام دیکھا اور پھر مدینہ میں مختلف اُموی آمروں کا دور دیکھا۔ اس میں عبدالملک بن مروان جیسے بدکردار بھی ہیں جو حجاج بن یوسف جیسے سفاک لوگوں کو گورنر مقرر کرتے ہیں، ولید جیسے ملعون بھی ہیں جنہوں امام باقرؑ کے والد امام زین العابدینؑ کو زہر دے کر شہید کیا اور پھر انہی میں عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی آتے ہیں۔ یہ وہ عمر بن عبدالعزیز تھا جس نے بنو امیہ کے دور کی اُس بدعت کو ختم کرنے کا حکم دیا جس میں ۸۰ برس تک منبروں سے امام علی ابن ابی طالبؑ پر سب و شتم کیا جاتا تھا۔ یہ وہی عبر بن عبدالعزیز تھا جس نے امام باقرؑ کے لب مبارک سے بس اتنا سُنا تھا کہ فدک میری جدہ طاہرہؑ کا حق تھا اور فدک کو اہلیبیتؑ کو لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ اسی عمر بن عبدالعزیز نے امام باقر العلومؑ کے علم سے استفادہ کرنے کیلئے اُن سے درخواست کی تھی کہ مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ بہرحال، عمر بن عبدالعزیز کے بعد حالات اُسی طرف پلٹ گئے، جیسے وہ اُس سے پہلے ہوا کرتے تھے۔
۔
یہاں تک کہ ہشام بن مالک ملعون کا دور آیا اور اُس نے اُس ہستی کو زہر دے دیا جس کا دادا حسینؑ شہیدِ کربلا تھا اور نانا حسنؑ سبز قبا تھا۔ کربلا کے مصائیب سے لیکر اپنے جد کے مدینہ میں بد ترین آمروں کے درمیان رہ کر بنجر زمینوں میں علم و فضل کے ہل چلانے والے اِس باقر العلومؑ کی اپنے فرزند امام جعفر الصادقؑ کو کی جانی والی تین وصیتیں غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ اہلیبیتؑ کے چاہنے والے کیلئے ان تین وصیتوں میں مکمل ضابطہ حیات موجود ہے:
۔
پہلی وصیت یہ کی کہ میری جو جمع پونجی ہے، اُسے علم کی ترویج میں لگا دینا۔
دوسری وصیت یہ کی کہ مجھے میرے اُس لباس کے ساتھ دفن کرنا جسے پہن کر میں نماز ادا کیا کرتا تھا۔
تیسری وصیت یہ کی کہ ہر برس حج کے موقع پر منی میں مجلس کا اہتمام کیا کرنا، میرے دادا حسینؑ کی مجلس کا۔
۔
باقر العلومؑ نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی اپنے چاہنے والوں کیلئے مکمل ضابطہ بتلا دیا۔ خوب تعلیم حاصل کرو، نماز کو حقیر مت سمجھو اور عزاداری پر کوئی سمجھوتا مت کرو۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اُن سب کیلئے جو نماز اور عزاداری کا تقابل کرتے نظر آتے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی لکھ دوں کہ باقر العلومؑ نے جہاں اپنے شاگردوں کو علوم آلِ محمدؑ کی تعلیم دی، دنیاوی علوم پڑھائے تو وہیں ایسے شاگرد بھی تیار کیے جنہوں ںے امام حسینؑ کی یاد میں نوحے، مرثیے اور منقبت لکھنے اور پڑھنے کو اپنا شعار بنایا۔ آج عرب و ایران کے نوحہ خوان یا شعراء ہوں اور یا پاک و ہند کے شعراء و نوحہ خوان، یہ سب بھی باقر العلومؑ کے در کی خیرات سے فیض اُٹھا رہے ہیں۔
۔
کون بھول سکتا ہے کہ امام رضاؑ نے بھی مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے قم کے مقام پر بالخصوص دس روز تک مجلسِ حسینؑ کا اہتمام کیا تھا اور کون بھول سکتا ہے سیدالساجدینؑ اور سیدہ زینبؑ کی عزاداری کو؟ یہ عزاداری تو وصیتِ ائمہؑ ہے۔ یہ عزاداری ایک رسم نہیں، یہ تو ایک مکتب ہے جو صدیوں سے ہمیں بچاتا ہوا لے آیا ہے۔ ایک نئی رسم چلی ہے کچھ طبقوں کی طرف سے جو اپنے افکار کے سامنے، جذبات و احساسات کے وسیع سمندر کو محض ایک رسم قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ یہی تو اصل رسمِ شبیریؑ ہے، وہ رسم جو کبھی میدانِ عرفات میں ادا کی جاتی ہے، کبھی منی کے میدان میں، کبھی بین الحرمین کربلا میں، کبھی بقیع میں اور کبھی اکیلے میں “بس یاحسینؑ” کہہ کر۔
کیا آپ نے باقر العلومؑ کا وہ فرمان نہیں سن رکھا کہ ” جس شخص کی آنکھ میں غمِ حسینؑ میں ایک مکھی کے پر کے برابر بھی آنسو آگیا، اُس کا یہ آنسو، اُس کے گناہوں کے سمندر پر بھاری ہے۔ “
۔
میں ہرگز اس قابل نہیں کہ مولا باقر علیہ السلام کی شان میں کچھ بھی لکھ سکتا، جو کچھ مجالس میں اور کچھ لیکچرز میں سنا، اُسے اپنے الفاظ میں یہاں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ سب کچھ لکھ دیا تو آخر میں بقیع میں موجود باقرالعلومؑ کی اُس خستہ حال قبر کا خیال آیا، جسے سلام کہنے کی وصیت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جابر ابن عبداللہ الانصای رض کو کی تھی۔ آپ میں سے کسی کا جانا جب بھی جنت البقیع میں ہو تو ایک شکستہ حال قبر کو دیکھ کر ایک بار “اسلام و علیک یا محمد ابن علی الباقرؑ” کہہ کر عقب میں روضہ رسول ص پر ایک نظر ضرور ڈالئے گا، اسے “فریادی نطر” کہا جاتا ہے۔