وجود، غیبت اور ظہور امام مھدیؑ
میں نے ایک بات بہت شدت سے محسوس کی ہے کہ امام علیؑ سے لیکر امام العصرؑ تک، ہر امامؑ کی شخصیت اور زندگی کا عکس ہمیں مختلف انبیاء کی زندگیوں اور شخصیات میں کسی نہ کسی انداز میں نظر آجائےگا۔ امام علیؑ اور اپنا ذکر کرتے ہوئے رسولِ کریمؐ نے موسیؑ و ہارونؑ کا ذکر کیا۔ امام حسنؑ نے اپنی صلح کو بذاتِ خود اپنے جد کی صلح حدیبیہ سے نسبت دی، امام حسینؑ نے اُس ذبح عظیم کا وعدہ پورا کیا جسے اللہ نے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی موخر قربانی کا جزیہ قرار دیا تھا، واقعہ کربلا کے بعد امام سجادؑ کی طویل اور صبر آزما تبلیغ و جد و جہد کو یاد کریں تو نوحؑ کی تبلیغ یاد آتی ہے، پھر ایک ایک کرکے ہر امامؑ کے حالات زندگی کو یاد کرتے جائیں۔ قید، جبر، جلا وطنی اور بلاخر حاکمِ وقت کے ہاتھوں شہادت۔ انبیاء کو انسانوں کی اکثریت کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور یہی صورتحال ائمہؑ اہلیبیتؑ کے ساتھ رہی۔ خود کو دینِ محمدؐ کا ماننے والوں نے اہلیبیتِؑ محمدؑ سے جنگیں کیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ انبیاءؑ کے ماننے والے ہمیشہ تعداد میں کم رہے اور اُنہیں بھی ظالموں کے ظلم کا سامنا رہا۔ ائمہؑ اور محبانِ اہلیبیتؑ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔
۔
فرعون کو اپنی موت کا سبب معلوم ہوا تھا تو اُس نے ہر پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کروانا شروع کردیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ انسان زندہ ہی نہ رہے جس کے ہاتوں مستقبل میں میری موت لکھی ہے۔ لیکن یہ انتظامِ خدا تھا کہ حجتِ خدا یعنی موسیؑ زندہ رہے اور ان کی پرورش اسی فرعون کے گھر ہوئی۔ خدا ہر شے پر قادر ہے، وہ اپنی حجت کو بچانا چاہے تو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھتا ہے۔
عباسی حکمرانوں کو بھی معلوم تھا کہ اب اُس مھدیؑ کی آمد متوقع ہے جو ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ لہذا اِن آمروں نے بھی فرعون کی طرح انتظامات شروع کردئے۔ امام علی نقی الھادیؑ اور آپکے فرزند امام حسن العسکریؑ کو جبراً مدینہ سے جلاوطن کرکے سامرا میں نظر بند رکھا گیا۔ ان عباسی آمروں کی بھی فرعون کی طرح یہی کوشش تھی کہ اول تو مھدیؑ دنیا میں آئے ہی نہ اور اگر آتا ہے تو یہ اُسے قتل کردیں۔
.
عباسیوں کا امام علی الھادیؑ، امام حسن العسکریؑ اور اُن کے خانوادے کو اِس انداز سے نظر بند کرنا اور کڑی نگرانی میں رکھنا اِس بات کی دلیل ہے کہ اِن وقت کے فرعونوں کے علم میں تھا کہ وہ مھدیؑ جس کا نام اپنے جد محمدؑ کے نام پر ہے، جو اولادِ فاطمہؑ سے ہے، جسے اس کرہ ارض کو عدل و انصاف سے پُر کرنا ہے، وہ اسی خانوادے میں ظہور کرے گا۔ ورنہ خود سوچئے کہ امام حسن العسکریؑ اور اُن کے والد امام علی نقی الھادیؑ کے پاس ایسا کون سا بڑا لاو لشکر تھا جس سے ان حکمرانوں کو خطرہ ہوتا؟ کیا ائمہؑ نے ان آمروں کے خلاف قیام کا فیصلہ کر رکھا تھا؟ اگر نہیں تو اس قدر بوکھلاہٹ اور تجسس کس بات کا تھا؟ اتنی کڑی نظر بندی کی وجہ کیا تھی؟ کیا وجہ تھی انہیں مدینہ سے جلاوطن کرکے سامرا کے دوردراز مقام پر نظر بند کردیا گیا؟ غور و فکر کرنے والوں کیلئے اس میں واضح نشانیاں ہیں۔
۔
وہ ذاتِ برحق جو موسیؑ کو فرعون کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھوائے، جو یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھے، جس کے اذن سے عیسیؑ صدیوں پرانے مردے زندہ کردیں، جو اسماعیلؑ کی جگہ ایک دنبے کو ذبح کروادے، جو ابراہیمؑ کیلئے بھڑکائی گئی نارِ نمرود کو گلستاں میں بدل دے۔ اُس ذات کیلئے اپنی آخری حجت کو وقت کے فرعونوں کی نظروں سے اوجھل کرکے صدیوں طویل حیات عطا کردینا ناممکن کیسے ہوسکتا ہے؟
مجھے آج تک یاد ہے جب ایک ناص بی نے امام زمانہؑ کے خلاف بکواس کرتے ہوئے طنز کیا تھا کہ انبیاء نے خدا کے دین کیلئے قربانیاں دی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کئی صدیوں سے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے تاکہ اُس کی جان محفوظ رہے؟ اگر آپ غور کریں تو یہ سوال اُس خانوادے کے وارثؑ کی غیبت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے جس خانوادے نے اپنا کچھ دین کی خاطر قربان کر ڈالا۔ ایسے سوال کرنے والوں کی اہلیبیتؑ سے دشمنی ملاحظہ کیجئے کہ یہ اُس ابوطالبؑ کو بھی کافر کہتے ہیں جس کی آغوش میں ختمی مرتبتؑ نے پرورش پائی، جس کی اولاد دین کی راہ میں قربان ہوگئی اور یہ اسی ابوطالبؑ کے فرزند علی المرتضیؑ اور دخترِ رسولؐ سیدہ فاطمہ الزہراؑ کے وارث یعنی امام مھدیؑ سے یہ تقاضا بھی کرتے ہیں کہ وہ سامنے کیوں نہیں آتے؟ میدانِ کربلا میں خانوادہ رسالتؐ کو بیدردی سے شہید کردینے والے اور ہر دور میں اہلیبیتؑ رسولؐ سے دشمنی کی حدیں پار کرنے والوں کے وکیل یہ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ آخری وارث (معاذ اللہ) چھپا ہوا کیوں ہے۔ کل کو یہ لوگ خدا سے بھی سوال پوچھ لیں گے کہ اسماعیلؑ کو قربان کیوں نہ ہونے دیا، دنبہ کیوں بھیج دیا؟ عیسیؑ کو قتل کیوں نہ ہونے دیا، آسمان پر کیوں بلا لیا؟ گویا یہ ناص بی ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام علیؑ سے لیکر امام حسن العسکریؑ تک، اولادِ فاطمہ الزہراؑ کو ہر دور میں ہمارے آقا قید و قتل کرتے رہے، اب یہ آخری وارثؑ کو کیوں خدا نے ہماری نظروں سے اوجھل کردیا؟
۔
علامہ طالب جوہری نے “علامات ظہورِ مھدیؑ” کے عنوان سے انتہائی اہم اور جامع کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں عقیدہ مھدیؑ، آپؑ کی شخصیت، آپ کی غیبت اور آپؑ کی علاماتِ ظہور پر شیعہ اور سُنی مصادر میں موجود انتہائی اہم معلومات کو تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں آقائے صافی گلپائیگانیؒ کی کتاب “منتخبُ الاثر” کا اقتباس نقل کرتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے کہ شیعہ اور سُنی مصادر میں اُن روایات کی تعداد ۹۱ ہے جن میں ذکر ہوا ہے کہ ائمہؑ کی تعداد ۱۲ ہے جن میں پہلے امام علیؑ ہیں اور آخری مھدیؑ۔ اُن روایات کی تعداد ۳۸۹ ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ مھدیؑ خاندانِ رسولؐ سے ہیں۔ اُن روایات کی تعداد ۱۹۲ ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ مھدیؑ اولادِ فاطمہؑ ہیں۔ وہ روایات جن میں ذکر ہوا ہے کہ مھدیؑ نسلِ علیؑ سے ہیں، ۲۱۴ ہیں۔ وہ روایات جن میں تذکرہ ہے کہ امام مھدیؑ، امام حسینؑ کی نویں پشت سے ہیں، ۱۴۸ ہیں۔ وہ روایات جن میں بتایا گیا ہے کہ امام مھدیؑ، امام علی بن حسین زین العابدینؑ کی نسل سے ہیں، ۱۸۵ ہیں۔ وہ روایات جن میں بتایا گیا ہے کہ امام مھدیؑ، امام حسن العسکریؑ کے صاحبزادے ہیں، ۱۴۶ ہیں۔ جن رویات میں ذکر ہے کہ امام مھدیؑ آخری اور بارہویں امام ہیں، ۱۳۶ ہیں۔ وہ روایات جو امام مھدیؑ کی ولادت کے متعلق ہیں، ۲۱۴ ہیں۔ وہ روایات جن میں آپؑ کی طولانی عمر کا تذکرہ ہے اُن کی تعداد ۳۱۸ ہے۔ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ امام مھدیؑ کی غیبت طویل ہوگی، اُن کی تعداد ۹۱ ہے۔ وہ روایات جن میں ظہورِ مھدیؑ کی بشارت ہے، اُن کی تعداد ۶۵۷ ہے۔ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ امام مھدیؑ دنیا کو عدل و انصاف سے پُر کردینگے، اُن کی تعداد ۱۲۳ ہے۔ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ اسلام دنیا میں امام مھدیؑ کے ذرئعے حاوی ہوگا، اُن کی تعداد ۴۷ ہے۔ امام مھدیؑ سے متعلق ذخیرہ احادیث میں کُل روایات کی تعداد ۲۸۷۰ ہے۔
اسی کتاب، یعنی “علاماتِ ظہورِ مھدیؑ” میں علامہ طالب جوہری نے علامہ مرزا حسین نوری طبرسیؒ کی کتاب “کشف الاستار” کا ذکر کیا ہے جس میں اُن چالیس اہلسنت علماء و محدثین کے نام لکھے ہیں جو ولادتِ مھدیؑ کے قائل ہیں۔ اس فہرست میں علامہ معاصر شیخ محمد رضا نے اپنی کتاب “الشیعہ والرجعۃ” میں مزید ۲۲ اہلسنت علماء و محدثین کا اضافہ کیا ہے اور پھر فاضلِ معاصر علی محمد دخیل نے اپنی کتاب “الامام المھدیؑ” میں اس فہرست میں مزید پانچ علماء کا اضافہ کیا ہے۔ علامہ طالب جوہری نے ان ۶۶ علماء کے نام، ان کی کتابوں کے نام اور امام مھدیؑ سے متعلق ان کے نظریہ کے بارے میں مختصر تبصرے کے ساتھ اس کتاب میں نقل کیے ہیں۔
۔
اسی کتاب میں اُن افراد کی فہرست بھی نقل کی گئی ہے جنہوں نے امام حسن العسکریؑ کی حیات میں یا آپؑ کی وفات کے بعد کے قریبی دور میں امام محمد بن حسنؑ یعنی امام مھدیؑ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ ان افراد کی تعداد ۱۷۵ ہے البتہ اگر اُن لوگوں کی فہرست مرتب کی جائے جو زمانہِ غیبت کبری کے طویل دور میں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے رہے تو یہ تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ یہاں علامہ طالب جوہری یہ جملہ لکھتے ہیں کہ :
” امام مھدیؑ کے سلسلے میں یہ خدائی منصوبہ تھا کہ مختلف عہد میں آپ کی ملاقاتیں ہوتی رہیں تاکہ آپؑ کے وجود مبارک کو افسانوی اور تخیلاتی نہ قرار دیا جاسکے۔ “
یہ سب تفصیل پڑھتے ہوئے ایک بات تو مجھے سمجھ میں آگئی کہ عقیدہ مھدیؑ کس قدر اہم اور متفقہ موضوع ہے کہ شیعہ اور سنی، دونوں کے ہاں اس پر اس قدر کثیر مواد موجود ہے کہ سوائے دشمنِ اہلیبیتؑ کے کوئی اور اسے جھٹلا نہیں سکتا۔ یہاں دوبارہ علامہ طالب جوہری کا ہی جملہ یاد آتا ہے کہ علامات ظہور مہدی علیہ السلام کے حوالے سے کتب میں اس قدر روایات و احادیث موجود ہیں کہ وہ حقانیتِ مذہبِ آلِ محمد علیھم السلام کیلئے کافی ہیں۔
۔
امام مھدیؑ کی غیبت صغری کا عرصہ ۶۹ برس پر محیط تھا جس میں اپنے چار نائبین کے ذرئعے لوگوں سے خط و کتابت رکھتے تھے۔ آپ کے پہلے نائب کا نام ابو عمروؒ عثمان بن سعید الاسدی تھا۔ دوسرے نائب کا نام ابوجعفرؒ محمد بن عثمان بن سعید تھا، تیسرے کا نام ابوالقاسم حسین ابنِ روح نوبختیؒ جبکہ چوتھے کا نام ابوالحسن علی بن محمد سمریؒ تھا۔ سنہ ۳۲۹ ھ میں چوتھے نائب کی وفات کے ساتھ ہی غیبتِ صغری کا دور تمام ہوا اور غیبت کبری کا دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
۔
15 شعبان المعظم ہمارے آقا و مولا امام صاحب العصر صلوات اللہ علیہ کی آمد کئ تاریخ ہے۔ اِن مبارک ساعتوں میں یہ تحریر دوبارہ بارگاہ ِ مولا امام زمانہ صلوات اللہ علیہ میں اِس التجا کے ساتھ پیش کر رہا ہوں کہ مولا ؑہمارے دلوں میں یہ احساس راسخ کر دیجئے کہ ہمارا مولاؑ ہمارا رہبر ہمارا ولی ہمارا امام موجود ہے اور بہت محبت و کرامت سے ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔