بیت الحزن اور مصائبِ سیدہ سلام اللہ علیھا
بقیع فقط قبرستان نہیں ہے، یہاں بیت الحزن نامی وہ حجرہ بھی موجود تھا جسے امام علی علیہ السلام نے سیدہ سلام اللہ علیھا کے لئے اس لیے تعمیر کیا تھا تاکہ وہ یہاں بیٹھ کر اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یاد کر کے عزاداری کر سکیں۔ گویا آج دنیا بھر میں جتنے حسینیہ یا امام بارگاہیں ہیں وہ سب دراصل مدینہ کے بیت الحزن کی شبیہیں ہیں۔ گریہ کرنا دراصل سنت سیدہ سلام اللہ علیھا اور ظلم کے خلاف سب سے موثر احتجاج ہے۔ یہ سیدہ سلام اللہ علیھا کے گریے اور آپؑ کے نوحے کی قوت ہے کہ آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد یہ گریہ اور گریہ کے لئے بنایا جانے والا بیت الحزن، یہ دونوں زندہ ضمیر والوں کے دلوں میں سوال پیدا کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے دخترِ رسول سلام اللہ علیھا کثرت سے گریہ کیا کرتی تھیں، بقیع میں بیت الحزن کیوں تعمیر ہوا تھا اور اسے مسمار کیوں کر دیا گیا؟
بی بی سلام اللہ علیھا ہر روز صبح اپنے بچوں حسنین کریمین علیھم السلام کے ہمراہ بیت الحزن میں تشریف لے آتیں تھیں، دن بھر یہاں موجود رہتیں، گریہ کرتیں، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یاد کرتیں اور شام ڈھلے امیر المومنین علیہ السلام بی بی سلام اللہ علیھا اور حسنین علیھم السلام کو واپس گھر لے جاتے۔
مسمار کیے جانے سے قبل بقیع کی زیارت کو جانے والے اس بیت الحزن کی بھی زیارت کیا کرتے تھے جس کا تذکرہ اُس دور کے سفرناموں میں ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا حجرہ تھا جس پر ایک گنبد نما چھت موجود تھی۔ چشم تصور میں دیکھنے کی کوشش کریں تو سو سال قبل اِس حجرے میں زائرین سیدہ سلام اللہ علیھا کے نوحے ” صبت علی مصائب “ کو یاد کرکے گریہ کرتے نظر آئیں گے۔ کوئی محسوس کرنے کی کوشش کرتا نظر آئے گا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں دخترِ رسول سلام اللہ علیھا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ اس لیے تشریف لایا کرتی تھیں کیوں کہ مدینہ والوں کے معمولات زندگی دختر رسول ع کے کثرت گریہ کی وجہ سے متاثر ہوتے تھے۔ کوئی تصور کرتا ہوگا کہ جب دختر رسول سلام اللہ علیھا یہاں تشریف فرما ہوتی ہوں گی تو وہ دو معصوم بچے یہاں کیا کرتے ہونگے؟ اپنی مادر سلام اللہ علیھا کو گریہ کرتا دیکھ کر وہ بھی گریہ کرتے ہوں گے؟ دلجوئی کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے؟ یہ زائرین یہ سب تصور کرتے ہوئے کثرت سے گریہ کرتے ہوں گے۔
۔
سو سال قبل دخترِ رسول سلام اللہ علیھا کی یہ یادگار بھی مسمار کر دی گئی جہاں بیٹھ کر وہ ” صبت علی مصائب “ کا نوحہ پڑھا کرتی تھیں۔ چودہ سو سال پہلے مدینہ والوں سے دخترِ رسول سلام اللہ علیھا کا گریہ برداشت نہ ہوتا تھا، چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اِسی مدینہ میں دخترِ رسول ؐ کو کو یاد کرکے گریہ کرنے والوں کا گریہ برداشت نہیں ہوتا۔ بیت الحزن مسمار کرنے والوں نے اپنی دانست میں دخترِ رسول سلام اللہ علیھا کی اس یادگار تو تو مٹا دیا لیکن اس حقیقت کو نہ مٹا سکے کہ اِس بقیع میں ایک بیت الحزن تعمیر ہوا تھا جہاں مسلمانوں کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی بعد از شہادت پیغمبر ؐ اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ آیا کرتی تھیں، گریہ کیا کرتی تھیں اور عزاداری کیا کرتی تھیں۔ بیت الحزن کا حجرہ تو مسمار ہوگیا لیکن بقیع کی خاموشی آج بھی بیت الحزن کی خاموشی کی یاد دلاتی ہے، جس خاموشی میں فقط دختر رسول سلام اللہ علیھا کے گریہ اور نوحہ کی آواز آیا کرتی تھی۔
بقیع کا بیت الحزن تو مسمار ہو گیا لیکن دنیا بھر میں اس بیت الحزن کی ہزاروں شبیہیں حسینیہ و امام بارگاہوں کی صورت تعمیر ہوگئیں۔ جہاں زہرا سلام اللہ علیھا اور اولاد زھراء سلام اللہ علیھا کو یاد کیا جاتا ہے، گریہ کیا جاتا یے اور عزاداری بپا کی جاتی ہے۔یہ ہے سیدہ سلام اللہ علیھا کے گریہ کی تاثیر، یہ ہے سیدہ سلام اللہ علیھا کے بیت الحزن کی قوت اور یہ ہے دعائے سیدہ سلام اللہ علیھا کا اثر۔