دختر رسول سیدہ النساء العالمین سلام علیھا اپنے بابا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رخصت ہونے کے فقط چند ماہ بعد ” صبت علي مصائب لو أنها۔ صبت علی الایام صرن لیالھا” کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
۔
وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شیر خدا امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عمر 59 برس۔ مسجد کوفہ نماز فجر کے دوران حالت سجدہ میں عبدالرحمن ابن ملجم ملعون نے ضربت لگائی اور امام علی ؑ”فزت ورب الکعبہ ” کہتے ہوئے تین دن بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔آپ شیعہ اثناء عشریہ کے پہلے امام ہیں۔ آپ کا روضہ نجف الاشرف میں ہے۔
۔
نواسہ رسول ؑ، کریم اہلیبیت امام حسن المجتبی علیہ السلام جنہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ کوثر کی تفسیر قرار دیا۔ 45 برس کی عمر میں زہر دیا گیا۔ جنازے پر تیر برسائے گئے۔ پہلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں دفن نہ ہونے دیا گیا۔ آج امام حسنؑ کی قبر مطھر بقیع میں کھلے آسمان تلے اُنؑ کی مظلومیت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ آپ اِمام دوئم ہیں۔
آپ ؑ کے فرزند قاسم ابن حسن علیہ السلام فقط تیرہ برس کی عمر میں کربلا میں شہید ہوئے۔ یہ وہ واحد نفس ہے جس نے موت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے بتا دیا کہ یہ شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔
۔
سید الشھداء یعنی شہداء کے سردار کے نام سے پہچانے جانے والے نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام جنہیں قتیل العبرات بھی کہا جاتا ہے۔ عشق و جذبات کے مرکز جنہیں کعبہ القلوب یعنی قلوب کا کعبہ کہا جاتا ہے۔ 54 برس کی عمر میں کربلا میں اپنی اولاد اور ناصرین سمیت شہید ہوئے۔ آپ کہ شہادت نے فتح و شکست کا مفہوم بدل کر رکھ دیا۔ کربلا کے معرکے میں آپ کے اٹھارہ سالہ کڑیل جوان علی اکبر علیہ السلام اور چھ ماہ کا علی اصغر علیہ السلام بھی شہید ہوئے، تینتیس سال کے بھائی ابو الفضل العباس علیہ السلام بھی شہید ہوئے اور کم سن بھانجے عون و محمد علیھم السلام بھی۔ امام حسین علیہ السلام امام سوئم ہیں۔
۔
علی ابن حسین زین العابدین علیہ السلام۔ فرزند امام حسین علیہ السلام جنہیں سید الصابرین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، سید الساجدین سے بھی اور زین العابدین سے بھی۔ تاریخ میں جن تین ہستیوں کو گریہ کہ کثرت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ان میں اپنی دادی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ امام سجاد علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ مدینہ میں تقریبا تیس سے پینتیس برس رہے اور 54 برس کی عمر میں اموی آمر ولید نے آپ کو زہر دیکر شہید کیا۔ آپ کی شکستہ قبر بھی جنت البقیع میں ہے۔ امام علی بن حسین علیہ السلام امام چہارم ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام، آپؑ کے والد امام سجاد علیہ السلام یعنی فرزند امام حسین علیہ السلام تھے اور آپ کی والدہ امام حسن المجتبی علیہ السلام کی دختر تھیں جن کا لقب صدیقہ تھا۔ امام محمد باقرؑ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلام کہا تھا جسے آپ تک صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاریؑ نے اُس وقت آپ تک پہنچایا تھا جب آپ کربلا سے واپس مدینہ پہنچے تھے۔ آپ واقعہ کربلا کے وقت چار برس کے تھے۔ دنیا آپؑ کو باقر العلوم کے نام سے یاد کرتی ہے یعنی علم و حکمت کی زمیوں پر ہل چلاکر وہاں فصلیں اُگانے والا۔ تاریخِ اسلام کے نامی گرامی محقق، سائنسدان، فقیہ آپ کے شاگرد تھے۔ امام محمد باقرؑ کو بھی اُموی آمر ابراہیم بن ولید نے زہر دیکر شہید کیا۔ آپ کی عمر مبارک 54برس تھی۔ آپ کی شکستہ قبر بھی اپنے والد امام زین العابدینؑ کے ساتھ جنت البقیع میں موجود ہے۔ امام محمد باقرؑ، امامِ پنجم ہیں۔
۔
امام جعفر بن محمد الصادقؑ، یہ وہ ہستی ہیں جن کی نسبت سے شیعہ اثناء عشری خود کو جعفری کہتے ہیں۔ جنہوں نے فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھ کر علوم آلِ محمدؑ کو ایک جگہ مربوط کیا۔ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے فقیہ آپ کے شاگرد رہے۔ مسلم تاریخ کے مختلف کیما دان و ماہر طبیعات آپ کے شاگرد تھے۔ علم و حکمت کی کھیتیوں کا آبیاری کا جو سلسلہ امام محمد باقرؑ نے شروع کیا، امام جعفر صادقؑ نے اُسے کمال تک پہنچایا۔ ان دونوں اماموں کے دور کو اسی لیے باقرین کہا جاتا ہے۔ امام جعفر صادقؑ وہ واحد امامِ اہلیبیتؑ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ عمر پائی۔ آپ کو 67 برس کی عمر میں مدینہ میں عباسی خلیفہ منصور نے شہید کیا۔ امام جعفر الصادقؑ چھٹے امام ہیں۔
۔
امام موسی ابنِ جعفر الکاظم جنہیں باب الحوائج بھی کہا جاتا ہے اور اسیرِ بغداد بھی۔ آپ کی عمر مبارک بھی 54برس تھی جس کا بیشتر حصہ سخت ترین قید میں گزرا۔ اس قید کی خاص بات یہ تھی کہ عباسی خلیفہ اور اُس کے گماشتوں کو بار بار قیدخانہ تبدیل کرنا پڑتا تھا کیوں کہ جس بھی قید خانے میں امام موسی کاظمؑ کو قید کیا جاتا تھا، وہاں تعینات پہریدار امام موسی کاظمؑ کی شخصیتِ مطہرہ سے متاثر ہوکر تائب ہوجایا کرتے تھے۔ امام موسی کاظمؑ کو انتہائی مظلومیت کے عالم میں ہارون رشید نے شہید کیا تھا۔ آپ کا جنازہ چند مزدوروں نے اُٹھایا تھا اور بغداد کے پل پر رکھ دیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کی اکثریت آج ہارون رشید کو اپنا ہیرو مانتی ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس وارث سے ناواقف ہے۔ امام موسی کاظمؑ ساتویں امام ہیں۔ آج کاظمین میں آپ کا راج ہے۔ بغداد کا وہ پل آج بھی آپ کے یومِ شہادت پر لاکھوں محبین کے مجمعے سے بھر جاتا ہے۔ جبکہ ہارون الرشید کے محلات کھنڈر کی صورت عبرت کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔
۔
امام علی بن موسی الرضاؑ۔ آپ غریب الغرباءؑ بھی ہیں اور سلطان العربِ والعجمؑ بھی۔ آپ نے اپنے والد امام موسی الکاظمؑ کی طویل قید اور سخت مصائب کے دوران انتہائی صبر آزما وقت گزارا۔ آپ کا دور اس حوالے سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس دور میں مکتبِ اہلیبیتؑ دور دور تک پھیلا۔آپؑ نے عباسی خلیفہ مامون الرشید کے مجبور کرنے پر مدینہ چھوڑا اور دور دراز خراسان کا سفر کیا۔ آپ وہیں پر مامون الرشید کے ہاتھوں شہید کیے گئے جس کی پیشن گوئی آپ نے دعبل خزاعیؑ کو یہ کہہ کر کر دی تھی کہ یہاں طوس میں بھی ایک تنہا قبر بنے گی جو آنے والے وقتوں میں محبین اہلیبیتؑ کا مرکز قرار پائے گی۔ اپنے مظلوم والد امام موسی کاظمؑ کے برعکس امام علی رضاؑ کا جنازہ تاریخِ اسلام کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ امام علی رضاؑ کی عمر مبارک 53 برس تھی۔ امام علی رضاؑ آٹھویں امام ہیں۔
۔
امام محمد بن علیؑ جنہیں الجواد بھی کہا جاتا ہے اور التقیؑ بھی۔ امام تقی الجوادؑ کی عمر فقط نو برس تھی جب آپ کے والد امام علی رضاؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو تقی اُس تقوے کی وجہ سے کہا جاتا ہے جو اہلیبیتؑ کا خاصہ ہے، آپ کو الجواد اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ غریبوں کے مددگار تھے، مسکین کی دارسی کرتے تھے، مہمان نواز تھے۔ آپؑ سخیوں کے گھرانے کے وارث ہیں۔ آپ تقی الجوادؑ ہیں۔ آپ نے نو برس کی عمر میں اپنے علم وحلم سے علماء و فقہا سمیت حاکم وقت مامون الرشید کو بھی حیران کردیا۔
آپ کی عمر فقط پچیس برس تھی جب عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے آپ کو شہید کیا۔ آپ اپنے دادا امام موسی الکاظمؑ کے ساتھ بغداد کے قریب کاظمین میں مدفون ہیں۔ یہ دونوں امام “کاظمین الغیظ” یعنی اپنے غصے کو قابو رکھنے کیلئے معروف تھے۔ اسی نسبت سے اس جگہ کو کاظمین کہا جاتا ہے۔ لفظ “کاظمین” میں آج محبانِ اہلیبیتؑ کیلئے راحت ہے، سکون ہے اور عافیت ہے۔ امام تقی الجوادؑ نویں امام ہیں۔
۔
امام علی بن محمد الھادیؑ جنہیں امام علی نقیؑ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے والد امام تقی الجوادؑ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر فقط چھ برس تھی۔ امام علی نقیؑ کا دورِ امامت 34 برس پر محیط ہے۔ اپنے والد امام تقی الجوادؑ کی شہادت کے بعد تقریبا 13 برس تک آپ مدینہ میں رہے۔ یہ معتصم عباسی اور پھر وثیق باللہ کا دور تھا۔ اس کے بعد متوکل عباسی کا دور شروع ہوا جس کی اہلیبیتؑ سے دشمنی کسی تفصیل کی محتاج نہیں۔ متوکل کو اس کے بیٹے منتصر باللہ نے قتل کیا۔ اس نے چھ ماہ حکومت کی اور پھر یہ بھی مر گیا۔متوکل کے دور میں امام علی نقیؑ کبھی مدینہ میں قیام پذیر رہے اور کبھی متوکل آپ کو بغداد بلاتا رہا۔ عباسی آمر معتز باللہ نے حکومت سنبھالنے کے بعد امام علی نقیؑ کو سامرا میں نظر بند کردیا۔ جہاں آپ اپنی شہادت تک مقیم رہے۔ آپ کو متعز باللہ نے زہر دے کر شہید کروایا۔ آپ کو سامرا میں آپکے فرزند امام حسن العسکریؑ نے تنہا قبر میں اتارا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 40 برس تھی۔ امام علی نقی علیہ السلام دسویں امام ہیں۔
۔
امام حسن بن علیؑ جنہیں حسن العسکریؑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ بھی اپنے والے امام علی نقیؑ کی شہادت کے بعد سامرہ میں نظر بند رہے۔ جو لوگ سامرہ جاچکے ہیں، وہ جانتے ہونگے کہ آج بھی یہ علاقہ مرکزی شہروں اور علاقوں سے کس قدر کٹا ہوا ہے۔ امام حسن عسکریؑ کی عمر فقط 28 برس تھی جب عباسی خلیفہ معتمد باللہ نے اُنہیں شہید کروایا۔ یہ شخص امامؑ کے جنازے میں بھی شریک ہوا تھا البتہ جس وقت امام حسن عسکریؑ کے بھائی نماز کی امامت کیلئے تیار ہوئے، ایک پانچ سال کا بچہ گھر کے اندر سے وہاں آیا اور یہ کہہ کر امامت کیلئے آگے بڑھا کہ ایک امام کی نمازِ جنازہ صرف ایک امام پڑھا سکتا ہے۔ یہ فرزندِ امام حسن عسکریؑ یعنی امام زمانہ صلوات اللہ علیہ تھے، جو ہمارے امامِ وقت اور رہبر و آقاؑ ہیں۔ امام حسن عسکریؑ گیارہویں امام ہیں جبکہ آپ کے فرزند امام مھدی بن حسنؑ شیعہ اثناء عشری کے بارہویں امام ہیں۔
۔
اگر آپ غور کریں تو امام علی بن ابی طالبؑ اور امام مھدی صلوات اللہ علیہ کے علاوہ، ہر امامؑ کی ولادت مدینہ میں ہوئی۔ ان میں سے کسی کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور کسی کو مدینہ میں ہی شہید کیا گیا۔ سوائے امام جعفر الصادقؑ کے، کوئی بھی امام طویل عرصہ ظاہرا حیات نہ رہا۔ یعنی ائمہ اہلیبیتؑ میں سب سے طویل عمر سرسٹھ برس تھی جو امام صادقؑ نے پائی یہاں تک کے وہ بھی شہید کردئے گئے۔
۔
آخر ان تمام ادوار کے آمروں کو ان ائمہؑ سے ایسا کون سا خطرہ تھا کہ یہ انہیں قید کرتے آئے، نظر بند کرتے آئے اور شہید کرتے آئے؟
وہ طبقہ جو شیعہ اثناء عشریہ سے آخری امام اہلیبیتؑ یعنی امام مھدی صلوات اللہ علیہ کی طویل غیبت اور عمر سے متعلق استفسار کرتے ہوئے اسے غیر منطقی قرار دیتا ہے، کیا اس طبقے کے پاس امام مھدیؑ سے قبل گیارہ ائمہ اہلیبیتؑ اور اُن کی جدہ سیدہ فاطمہؑ کی کم عمری میں شہادتوں کا جواب موجود ہے؟ خانوادہ رسالتؐ کو ہر دور میں قتل کرنے والوں کو اپنا ہیرو ماننے والے سوال پوچھتے ہیں کہ اس خانوادے کا آخری وارث اتنے طویل عرصے تک زندہ کیسے ہے۔ امام مھدیؑ کی غیبت اور طویل عمر کا سبب جاننا چاہتے ہیں تو سیدہ فاطمہؑ سے لیکر امام حسن العسکریؑ تک کی شہادتوں اور ظلم کی تفصیل پڑھ لیں۔ یاد رکھیں، کربلا کا ظلم، ظلمِ عظیم تھا جہاں امام حسینؑ نے قاتلوں، غاصبوں اور فاسقوں کو تمام دنیا کے سامنے بینقاب کردیا۔ لیکن ظلم کربلا کے بعد بھی جاری رہا۔ مدینہ، بغداد، طوس سے ہوتا ہوا سامرا تک آیا۔ سوال آپ خود سے پوچھیں کہ کیا آپ ہر دور کے یزید سے واقف ہیں؟