ائمہؑ اہلیبیتؑ اپنے جد، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح اپنے محبان کیلئے حکمت سے لبریز اقوال و احادیث اور جذبیت سے بھرپور دعا و مناجات کا ایسا خزانہ دے کر گئے جو “کلام الامام، امام الکلام” کا آئینہ دار ہے۔ کہیں صحیفہ سجادیہ کی صورت دعا و مناجات کا خزانہ ہے تو کہیں نہج البلاغہ کی صورت باب مدینہ العلم سے ملنے والے علم و حکمت کے بے مثل موتی۔ کہیں دعائے کمیل بن زیاد خدا سے راز و نیاز کا طریقہ سمجھاتے نظر آتی ہے تو کہیں دعائے عرفہ میں عبد و معبود کا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔ غرض ائمہ اہلیبیتؑ کی زبان مطہر سے جاری ہونے والے یہ تمام کلام فصاحت و بلاغت کے اُس معیار پر فائز ہیں کہ پڑھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ کسی عام انسان کا تو کُجا، کسی بڑے عالم و فقیہ کا کلام بھی نہیں ہوسکتا بلکہ یہ تو ان ہستیوں کی لسان مبارک سے جاری ہونے والا کلام ہے جنہیں قرآن ناطق کہا جاتا ہے۔ اب قرآن ناطق کے کلام کے اسلوب میں قرآن صامت کا عکس نظر آجائے تو تعجب کیسا؟
۔
ایسا ہی ایک تحفہ ہمیں ہمارے دسویں امام، امام علی نقی الھادیؑ سے “زیارت جامعہ کبیرہ” کی صورت ملا۔ یہ وہ زیارت ہے جسے امامؑ نے اپنے شیعانِ اہلیبیتؑ کی درخواست پر جاری کیا۔ زیارت جامعۂ کبیرہ ائمہ معصومینؑ کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے ان سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جاسکتی ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ اس زیارت کو شیخ طوسیؒ نے “تہذیب” اور شیخ صدوقؒ نے “من لا یحضر الفقیہ” میں نقل کیا ہے۔ زیارت جامعہ کو اپنے کلام کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کا مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ جس طرح نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کا کلام خود یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ کسی عام انسان کا نہیں بلکہ ایک معصومؑ کا کلام ہے، ٹھیک اُسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ کا کلام یہی اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ مثلا اس زیارت کے ان الفاظ پر غور کیجئے جن میں امام علی نقی الھادی علیہ السلام محبان اہلیبیت علیھم السلام کو بارگاہ امامت میں سر تسلیم خم کرنے کے آداب و الفاظ تعلیم فرما رہے ہیں۔ ایسے الفاظ جنہیں دہراتے ہوئے انسان کا سر عاجزی سے جھکا رہے تو وہیں دل شکرگزاری اور فخر کے احساسات سے لبریز ہوتا رہے کہ اسے خالق دو جہاں نے عقیدہ امامت کی نعمت عطا فرمائی ہے۔
“جو خدا کو چاہتا ہے، وہ پہلے آپ کے پاس آتا ہے۔ اور جو خدا کی توحید کا قائل ہے وہ آپ کی باتوں کو قبول کرتا ہے۔ جو خدا کا قصد کرتا ہے، وہ آپ کا رُخ کرتا ہے۔ اے میرے سید و سردارو! میں آپؑ کی تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ نہ ہی آپ کی مدح و ثناء کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہوں۔ نہ ہی آپ کی قدر و منزلت کی شان بیان کر سکتا ہوں۔ اس لیے کہ آپ شریف لوگوں کا نور ہیں۔ نیک لوگوں کے ہادی ہیں۔ خداوند جبار کی حجتیں ہیں۔ اللہ نے آپ سے آغاز کیا ہے اور آپ پر ہی ختم کرے گا۔ “
۔
زیارت جامعہ در حقیقت “عقیدہ امامت” کے مختلف پہلؤوں کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے، ائمہؑ اہلیبیتؑ کے اعلی و ارفع مراتب کا تذکرہ کرتی ہے۔ یہ ایک زائر کو دور یا نزدیک سے، ائمہؑ اہلیبیتؑ کی زیارت کا شرف عطا کرتی ہے۔ ایک محب اہلیبیتؑ کے دل میں ائمہؑ اہلیبیتؑ بالخصوص امام وقتؑ کی مودت کو گرماتی ہے۔ اُسے یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے، اُس کا امامؑ اُس کے ساتھ ہے۔
یہاں ایک پہلو قابلِ غور ہے کہ امام علی نقی الھادیؑ نے اس زیارت کو پڑھنے سے پہلے سو بار تکبیر یعنی “اللہ اکبر” پڑھنے کی تاکید کی ہے تاکہ زیارت پڑھنے والا ائمہؑ اہلیبیتؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔ یہاں وسیلے کے مفہوم کے حوالے سے بھی ایک لطیف اور خوبصورت نکتہ موجود ہے جو ہمیں ایک امام کے اختیارات و منزلت سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرواتا ہے کہ یہ ائمہؑ اہلیبیتؑ اُسی خالقِ ابدی کی مخلوق ہیں جو اس کل کائنات کا خالق ہے۔ یہ مفہوم سمجھ لیں تو ” الھم ارزقنا شفاعۃ الحسینؑ یوم الورود” بھی سمجھ آجائے گا، یا علیؑ مدد بھی اور یا رسول اللہ مدد بھی۔
۔
اپنے والد امام تقی الجوادؑ کی شہادت کے وقت امام علی نقی الھادئ کی عمر فقط چھ برس تھی۔ امام علی نقیؑ کا دورِ امامت 34 برس پر محیط ہے۔ اپنے والد امام تقی الجوادؑ کی شہادت کے بعد تقریبا 13 برس تک آپ مدینہ میں رہے۔ یہ معتصم عباسی اور پھر وثیق باللہ کا دور تھا۔ اس کے بعد متوکل عباسی کا دور شروع ہوا جس کی اہلیبیتؑ سے دشمنی کسی تفصیل کی محتاج نہیں۔ متوکل کو اس کے بیٹے منتصر باللہ نے قتل کیا۔ اس نے چھ ماہ حکومت کی اور پھر یہ بھی مر گیا۔
متوکل کے دور میں امام علی نقیؑ کبھی مدینہ میں قیام پذیر رہے اور کبھی متوکل آپ کو بغداد بلاتا رہا۔ عباسی آمر معتز باللہ نے حکومت سنبھالنے کے بعد امام علی نقیؑ کو سامرا میں نظر بند کردیا۔ سامرا میں آج بھی اس تاریک زندان کے آثار موجود ہیں جہاں امام نقی علیہ السلام کو قید رکھا گیا جسے “سجن امام الھادئ ” یعنی امام نقی علیہ السلام کے قید خانے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں آپ اپنی شہادت تک مقیم رہے۔ جن کے دل محبت اہلیبیت علیھم السلام سے لبریز ہوں وہ سامرا میں فقط اس سائین بورڈ کو پڑھ کر اشکبار ہوجاتے ہیں جس پر لکھا ہوا ہے کہ “سجن امام الھادئ” اس جانب ہے۔ کہتے ہیں زندان کیا تھا، ایک تاریک کنواں تھا۔ بہت ممکن ہے کہ سامرا کے اس زندان کو دیکھ کر بہت سوں کو شام کا ایک تاریک زندان یاد آتا ہو۔
۔
امام علی نقی الھادئ اور آپ کے فرزند امام حسن العکسری علیہ السلام کی سامرا میں عباسی آمروں کے ہاتھوں مسلسل، سخت اور طویل نظر بندی صاحبان فہم و فکر کو بار بار یہ دعوت فکر دیتی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یہ عباسی آمر اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ ان ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کو مسلسل نظر بند رکھ کر ان پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ کیا ان ائمہ علیھم السلام نے ان حکمرانوں کے خلاف کوئی خفیہ لشکر تشکیل دے رکھا تھا؟ کیا ان حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ امام علی نقی الھادئ یا امام حسن العکسری علیہ السلام ان کے خلاف لشکر کشی کر دینگے؟ یقینا ایسا کچھ نہ تھا۔ لہذا اس بے چینی، تجسس اور خوف کی وجہ صرف اور صرف اس آخری حجت خدا عج کی ذات تھی جس کا تذکرہ ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کے جد اور مسلمانوں کے آخری نبی ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین میں کثرت سے ملتا تھا۔ لہذا یہ عباسی حکمران وہی کچھ کر رہے تھے جو کبھی فرعون نے موسی علیہ السلام کو دنیا میں آنے سے روکنے کیلیے کیا تھا۔ گویا ہر دور کے فرعون کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے، حجت خدا سے دشمنی۔
۔
امام علی نقی الھادئ کو عباسی آمر متعز باللہ نے زہر دے کر شہید کروایا۔ آپ کو سامرا میں آپکے فرزند امام حسن العسکریؑ نے تنہا قبر میں اتارا تھا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 40 برس تھی۔
سوچتا ہوں کہ اپنے بابا کو تنہا قبر مین اتارتے ہوئے امام حسن العسکری علیہ السلام نے اپنے جد مولا ابا عبداللہ حسین علیہ السلام کو بھی یاد کیا ہوگا جن کے سر بریدہ جسم مطھر کو امام سید سجاد علیہ السلام نے گریہ کرتے ہوئے تنہا قبر میں اتارا تھا اور ایک بار اپنے بابا کے حلقوم مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
“بابا آپ کے بعد یہ دنیا تاریک ہے۔”
۔
3 رجب، یوم شہادت امام علی نقی الھادیؑ پر بارگاہ امام زمانہ عج، امام حسن العکسری علیہ السلام اور اہلیبیت علیھم السلام میں پرسہ و تعزیت۔