متفرق موضوعات

سرکار ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کرنا عام بات نہیں ہے بلکہ غور کریں تو ایسا کرنے والے بغض مولا علی علیہ السلام میں اندھا ہوکر دراصل بدترین توہین رسالت ص کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کیا یہ بات سمجھنا عقلی و منطقی بنیاد پر اتنی مشکل ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بنص قرآن جناب موسی علیہ السلام کی پرورش کا انتظام تو پروردگار ایک مومنہ کے وسیلے سے کرتا ہے لیکن نبیوں کے سردار اور اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش کیلئے نعوذ باللہ ایک کافر کو منتخب کر لیتا ہے؟
۔
افسوس کہ محسن اسلام جناب ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کو مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں میں اس قدر “عام” بات بنا کر راسخ کر دیا گیا کہ وہ اس تکفیر کے ذریعے نعوذ باللہ “عدل الہی” کی مثال پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس پہلو کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی کہ جس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر عمل اور ہر قول وحی الہی ہے، اگر وہی نبی ص اپنے چچا سے بچھڑنے پر پورے سال کو عام الحزن قرار دے رہا ہے تو کیا یہ عمل بھی وحی الہی کے تابع نہیں قرار پائے گا؟ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس سراپا ظلم کو عدل الہی سے تعبیر کرکے اس ہستی کی اہانت کی جاتی ہے جس نے اپنا پورا کنبہ خدا کے رسول ص اور اس ص کے دین پر قربان کر دیا۔ کاش مسلمانوں نے ایمان ابو طالب علیہ السلام پر شک کرنے جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے کے بجائے احسان ابو طالب علیہ السلام کا پاس رکھ لیا ہوتا۔
۔
میں آپ کو مکمل یقین سے بتا سکتا ہوں کہ ہم شیعوں کو آج تک اپنی تکفیر پر غصہ نہ آیا۔ ہم نے تو ان فتووں کی پرواہ ہی نہیں کی بلکہ ہم تو عشق مولا علی علیہ السلام میں کفر، رفض، شرک اور بدعتی کے فتووں کو بطور تمغہ سینے پر سجاتے آئے۔ لیکن تکفیر جناب ابو طالب علیہ السلام ہمارے دلوں کو تڑپا دیتی یے اور روح کو زخمی کر دیتی ہے۔ یہ تکلیف ہمیں اس کرب کی یاد دلا دیتی ہے جس سے ہمارے آقا و مولا علی علیہ السلام گزرے جب لوگ آتے جاتے سرکار ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کرکے مولائے کائنات علیہ السلام کو دانستہ اذیت دیتے تھے۔
۔
میں نے جناب ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کرنے والے مختلف ملاوں کے چہروں کے تاثرات کا بغور مشاہدہ کیا یے۔ ان کے چہروں پر عجیب مکروہ مسکراہٹ ہوتی ہے جب یہ امویوں کی گھڑی ہوئی روایتیں سنا کر جناب ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر کرتے ہیں۔ مجھے ان کے چہرے دیکھ کر چودہ سو برس پہلے کے وہ لوگ یاد آجاتے ہیں جو امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے آپ کے والد گرامی کی تکفیر کیا کرتے تھے۔ یقینا ایسا کرتے ہوئے ان کے چہروں پر بھی ویسی ہی مکروہ مسکراہٹ ہوتی ہوگی جیسی ان ملاوں کے چہروں پر ہوتی ہے۔

یہ ملا بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جناب ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر اور ان کی اہانت شیعوں کو بالخصوص اور ہر مخلص محب اہلیبیت علیھم السلام کو بالعموم بہت تکلیف دے گی، اس لیے یہ بار بار تکفیر کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے کرتے ہیں کہ اس تکفیر کو بار بار دہرا کر اس قدر “عام بات” بنا دیا گیا ہے کہ سننے والے کبھی یہ غور کر ہی نہیں پاینگے کہ تکفیر ابو طالب علیہ السلام دراصل توہین رسالت ص بھی ہے اور توہین خدا بھی۔
۔
اگرچہ میرے الفاظ کی پہنچ اتنی نہیں ہے اور نہ ہی میں اس قابل ہوں کہ اپنے مکتب کے ذمہ داران سے کچھ عرض کر سکوں لیکن اتمام حجت کیلئے یہ کہنا چاہوں گا کہ آج سے آپ سب ہر فورم پر یہ بتانا شروع کریں کہ تکفیر جناب ابو طالب علیہ السلام “عام بات” نہیں ہے۔ بلکہ یہ قبیح ترین جسارتوں میں سے ایک ہے۔ ہم آج تک دوسروں کے مقدسات کے احترام کیلئے ان کی دھونس، زبردستی اور بسا اوقات بدمعاشی و بدزبانی سن کر دفاعی پوزیشن اختیار کرتے آئے۔ اب تواتر کے ساتھ ان لوگوں کو تکفیر جناب ابو طالب علیہ السلام سے ہونے والی ہماری دل آزاری کے بارے میں بتایا جائے اور باور کروایا جائے کہ اگر تمہارے نزدیک توہین سرکار ابو طالب علیہ السلام “عام بات” ہے تو ایسی کچھ عام باتیں جب ہم کریں تو سیخ پا ہوکر توہین و گستاخی کے فتوے مت صادر کرو، مغلطات مت اگلو۔
۔
خطیب اکبر مولانا مرزا اطہر صاحب اعلی اللہ مقامہ کا یادگار جملہ ہے کہ “بغض علی ابن ابی طالب علیہ السلام کھا گیا امت مسلمہ کو۔”
یہ بغض علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تو ہے کہ جس کے ایمان کے صدقے سے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگتا تھیں، “امت مسلمہ” نے اس کی توہین و تکفیر کو “عام بات” بنا ڈالا۔

آج زندگی میں پہلی بار میں نے بارگاہ سرکار ابو طالب علیہ السلام میں بہت دکھے ہوئے دل کے ساتھ یہ الفاظ لکھے ہیں۔ لکھتے ہوئے بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ میرے مولا امیر المومنین علیہ السلام کو کس قدر کرب محسوس ہوتا ہوگا جب لوگ آپ کے مومن والد کی اہانت کرتے ہونگے۔ اسی تکلیف کو یاد کرتے ہوئے یہ سب لکھ دیا، دعا ہے کہ پروردگار ہمارے آقا و مولا علیہ السلام کے صبر کے صدقے ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو شرف قبولیت بخشے گا اور یہ وہاں تک پہنچ جاینگے جہاں پہنچنے چاہیئے۔