ہارون الرشید “تھا” امام موسی کاظمؑ “ہیں”
گزشتہ برس میں نے لکھا کہ عباسی آمر ہارون الرشید “تھا” اور امامِ اہل بیتؑ حجتِ خدا امام موسی ابنِ جعفر الکاظمؑ ” ہیں ” تو کسی کو کہتے سنا کہ یہ غلط بات ہے، ہارون الرشید تو بہت بڑا مسلم حکمران گزرا ہے، وہ تو ہیرو تھا اور وہ تاریخ و نصاب کی کتابوں میں زندہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی ایک جلیل القدر شخصیت ہے۔
مجھے قطعاً اختلاف نہیں ہے کیوں کہ المیہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی جلیل القدر شخصیتوں میں ہارون الرشید جیسے آمروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر آپ غور کریں تو ہارون الرشید کو ہیرو کہنے والا گروہ وہی گروہ ہوگا جو حجاج بن یوسف کو ہیرو مانتا ہے، جو بنو اُمیہ کے آمروں کے قصیدے پڑھتا ہے اور جس کے پاس کسی مسلمان حاکم کی فضیلت بیان کرنے کا واحد معیار یہ ہے کہ اُس حاکم نے کتنے رقبے فتح کیے۔ اسلامِ محمدیؐ میں اور اسلامِ حکومتی یعنی ملوکیت زدہ اسلام میں یہی فرق ہے کہ اسلامِ محمدیؐ کا شعار قلوب فتح کرنا ہے اور ملوکیت زدہ اسلام کا ہدف رقبے فتح کرنا۔
۔
کس قدر عجیب اور تکلیف دہ بات ہے کہ جس آمر نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتویں وارث امام موسی کاظمؑ کو سخت اور طویل ترین قید میں رکھا اور عالمِ مظلومیت میں شہید کیا، وہ آمر مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے نزدیک ایک جلیل القدر شخصیت ہے جبکہ موسیؑ ابن جعفرؑ ابن محمد باقرؑ ابن علیؑ ابنِ حسینؑ ابن علیؑ و فاطمہؑ بنتِ رسول کریمؐ کا نام بھی انہیں معلوم نہ ہوگا۔ اور اگر معلوم بھی ہوا تو حسبِ معمول ہم “بھی” اُنہیں مانتے ہیں کہہ کر “حقِ مودتِ قربی” ادا کر دیا جائے گا۔
مجھے امام موسی الکاظمؑ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکتر تیجانی سماوی کی کتاب “ثم اھدیت” کا خیال ہر بار آتا ہے۔ جب وہ اپنے شیعہ عراقی دوست کے ہمراہ انتہائی عقیدت کے ساتھ بغداد گئے تھے تاکہ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضری کی اپنی بہت بڑئ تمنا پوری کرسکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ وہ کس قدر خوش نصیب ہیں کہ انہیں عبدالقادر جیلانی کی زیارت نصیب ہوگئی۔ اسی دوست کے ہمراہ جب وہ کاظمین آئے تھے تو روتے ہوئے لوگوں کو جم غفیر دیکھ کر تعجب کیا تھا کہ خدا جانے یہاں کون دفن ہے۔ دوست سے استفسار کرنے پر بتایا گیا کہ یہاں موسی ابنِ جعفر کاظمؑ دفن ہیں تو ایک سائیڈ پر کھڑے ہوکر سوچنے لگے کہ معلوم نہیں یہ ہستی کون ہیں، کیا میں فاتحہ پڑھوں یا رہنے دوں۔ بلاخر اُن کے عراقی دوست نے اُنہیں اُن کی کی کم علمی کا احساس دلاتے ہوئے بتایا تھا کہ کس قدر عجیب بات ہے کہ جس شخصیت اور رسولِ کریمؐ کے درمیان چھ صدیوں کا فاصلہ ہے، آپ کو اُس شخصیت کا نام معلوم ہے، آپ اُس شخصیت سے بے انتہا عقیدت بھی رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ آپ کو موسی کاظمؑ کا نام معلوم نہیں جن کے اور اُن کے جد رسول اللہؐ کے درمیان فقط دو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ جو رسولِ کریمؐ کی ساتویں نسل سے ہیں۔
۔
ہارون الرشید جیسے آمروں کو ہیرو کہنے والے مسلمانوں کا بھی کیا قصور جب نصاب کی کتابوں میں ان لوگوں کو ہیرو اور جلیل القدر شخصیت کے طور پر پینٹ کیا جاتا رہا۔ جب حجاج بن یوسف ہیرو کہلا سکتا ہے تو ہارون الرشید کو ہیرو کہنے پر حیرت کیسی؟ البتہ کسی بھی محبِ اہل بیتؑ کا معیار حق و باطل بہت سادہ سا ہے۔ جو اہل بیتؑ کے ساتھ ہے وہ حق پر ہے اور جو اُن کا دشمن ہے وہ ابتر ہے، باطل ہے اور قابلِ لعن ہے۔ جس طرح خانوادہ رسالتؐ پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا یزید ملعون ہے، اُسی طرح ہر وہ حکمران قابلِ لعن ہے جس نے اہل بیتؑ پر ظلم کیے۔
۔
یزید تخت و تاج کا مالک تھا، ہزاروں لاکھوں کی فوج رکھتا تھا۔ امام حسینؑ کے ساتھ چند نفوس زکیہ تھے۔ آج چودہ سو برس بعد یزید ملعون کا نام ایسی گالی بن چکا کہ اُس کا دفاع کرنے والا کوئی ناصبی بھی اپنے بچے کا نام یزید رکھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ یزید کا محل کیا ہوا، بادشاہت کہاں گئی اور اُس کی قبر کہاں ہے۔ ان سوالوں کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ حکومتی اور ملوکیت زدہ اسلام کا انجام ہے۔ دوسری طرف کربلا ہے جسے دلربائے قلوب امام حسینؑ نے سجایا ہے۔ جس سرزمین پر لشکر یزید ملعون نے خانوادہ رسالتؐ کو عالمِ تنہائی میں پیاسا شہید کیا تھا، آج اُسی سرزمین پر عشاقِ امام حسینؑ کرہ ارض کا سب سے بڑا انسانی اجتماع تشکیل دیتے ہیں۔ یہ قلوب فتح کرنے والے اسلامِ محمدیؐ کی جھلک ہے۔
بغداد کے اطراف میں ہارون الرشید کے محلات کے اثار بھی ہونگے۔ سوائے ویرانی کے آج وہاں کچھ نہ ملے گا۔ یہ ملوکیت زدہ اسلام کا انجام ہے۔ دوسری طرف کاظمین ہے۔ یہاں وہ ہستی مدفون ہے جسے چودہ برس سخت ترین قید میں رکھنے کے بعد شہید کردیا گیا۔ جس کے جنازے کو چند مزدروں نے اُٹھایا اور دریا کے پل پر رکھ دیا۔ آج اسی پل پر سے لاکھوں عشاق گزر کر روضہ امام موسی ابن جعفر الکاظمؑ پر جاتے ہیں۔ انتظام قدرت دیکھئے کہ پروردگار نے اس مقام ہی نہیں بلکہ لفظ “کاظمین” میں ہی محبانِ اہل بیتؑ کیلئے سکون، اطمینان اور سرور کا سامان کردیا۔ یہ اسلامِ محمدیؐ ہے۔
۔
اِسی لئے میں نے لکھا کہ موسی ابنِ جعفر الکاظمؑ “ہیں” اور ہارون الرشید “تھا”۔
شہادتِ امام موسی کاظمؑ کے حوالے سے یہ مضمون بھی پڑھئے: