عباسی آمر مامون الرشید کا ارادہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی اُم الفضل کا نکاح امام محمد تقی الجواد علیہ السلام سے کرے۔ مقصد یہ تھا کہ اِس عقد کے بعد جو اولاد (بیٹا) ہو اُسے یہ علویوں اور عباسیوں کا اثاثہ قرار دیکر اپنی سیاست اور حکومت کو مزید پختہ کر سکے۔ لیکن ایک ارادہ پروردگارِ عالم کا بھی تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اُم الفضل جیسی بد باطن عورت کے بطن سے حجت خدا کی اولاد پیدا ہوتی۔ لہذا یہ عورت بے اولاد رہی۔ جبکہ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی دوسری زوجہ جنابِ سمانہ سلام اللہ علیھا صاحبِ اولاد ہوئیں۔ آپؑ امام علی نقی الھادیؑ کی والدہ گرامی تھیں، گویا آپؑ اور امام محمد تقی الجوادؑ کے ذرئعے ہی سلسلہ امامت آگے بڑھا۔ جنابِ سمانہؑ کا مدفن سامرا میں ہے۔
یہ واقعہ میں نے جب بھی سنا تو مجھے بے اختیار اُم المومنین جنابِ خدیجہ الکبری سلام اللہ علیھا کی ذات اقدس کا خیال آیا۔ یہ ملیکہ العرب جنابِ خدیجہ سلام اللہ علیھا ہی تھیں جنہیں پروردگار عالم نےاپنی حجت اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے منتخب کیا۔ جن کے وسیلے سے پیغمبر اکرمؐ کو سیدہ سلام اللہ علیھا کی صورت کوثر کی خوش خبری اور دشمنوں کے بے نسل و ابتر رہ جانے کی خبر ملی۔ وہ خوش خبری اور وہ خبر جس کا تذکرہ پروردگار عالم نے سورہ کوثر میں کیا۔
بے شک حجتِ خدا کا تسلسل مومن و مطھر نفوس کے ذرئعے آگے بڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مکتبِ اہلیبیتؑ کے ماننے والے فخر سے اپنا عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ حجتِ خدا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین بھی مومن تھے اور وہ پاک ہستیاں بھی مومن جن کی آغوش میں آپؐ نے پرورش پائی، یعنی جناب عبدالمطلب علیہ السلام سرکار ابو طالب علیہ السلام اور جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا۔ پروردگارِ عالم کو گوارہ نہیں کہ اُس کی بے عیب حجتوں کے مطھر سلسلے میں کوئی عیب دار شامل ہو۔ چاہے مامون الرشید کی بیٹی اُم الفضل ملعونہ ہو یا کوئی بھی عیب دار۔
۔
امام محمد بن علیؑ جنہیں الجواد بھی کہا جاتا ہے اور التقیؑ بھی۔ امام تقی الجوادؑ کی عمر فقط نو برس تھی جب آپ کے والد امام علی رضاؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو تقی اُس تقوے کی وجہ سے کہا جاتا ہے جو اہلیبیتؑ کا خاصہ ہے، آپ کو الجواد اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ غریبوں کے مددگار تھے، مسکین کی دارسی کرتے تھے، مہمان نواز تھے۔ آپؑ سخیوں کے گھرانے کے وارث ہیں۔ آپ تقی الجوادؑ ہیں۔ محبان اہل بیت علیھم السلام امام الجواد علیہ السلام کو باب المراد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ نے نو برس کی عمر میں اپنے علم وحلم سے علماء و فقہا سمیت حاکم وقت مامون الرشید کو بھی حیران کردیا تھا۔
محبان اہل بیت علیھم السلام آج بھی اپنے گھروں کو “الجواد” کے نام سے نسبت دیکر باب المراد سے اپنی مودت کا اظہار کرتے ہیں۔ امام الجواد علیہ السلام کے اپنے چاہنے والوں کیلئے عطا کردہ تحفے “حرز جواد” کو انگشتری میں پہن کر خود کو امام الجواد علیہ السلام کی حفاظت کے حصار میں تصور کرتے ہیں۔ وہ حرز الجواد جو امام الجواد علیہ السلام کے پاس اپنی جدہ سیدہ سلام اللہ علیھا کی نشانی تھا۔ جس کیلئے امام الجواد علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ ملک الموت کے علاوہ ہر شے سے محفوظ رکھتا ہے۔
۔
آپ کی عمر فقط پچیس برس تھی جب عباسی آمر معتصم باللہ نے آپ کو شہید کیا۔ ٢٩ ذوالقعدہ آپ کی شہادت کی تاریخ ہے۔ آپؑ اپنے دادا امام موسی الکاظمؑ کے ساتھ بغداد کے قریب کاظمین میں مدفون ہیں۔ یہ دونوں امام “کاظمین الغیط” یعنی اپنے غصے پر قابو رکھنے کیلئے معروف تھے۔ اسی نسبت سے اس جگہ کو کاظمین کہا جاتا ہے۔ صحن کاظمین ہو یا لفظ کاظمین، ان دونوں میں ہی محبانِ اہلیبیتؑ کیلئے راحت، سکون اور عافیت ہے۔
اُس امام کی جود و سخا کا عالم کیا ہوگا جس کے وجودِ مطھر کو مغیث الشیعت والزوار امام رضا علیہ السلام اپنے شیعوں کیلئے بہت بابرکت قرار دیں۔ باب المراد امام تقی الجواد کی ذات اقدس پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام، جن کا اِسم مبارک اور وجود مطھر چاہنے والوں کیلئے باعث خیر و برکت ہے۔