تذکرہِ اہل بیتؑ

یہ ائمہ اہلیبیتؑ کے مصائب کا ایک دردناک پہلو ہے کہ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ یا تو اُن کے نام سے بھی واقف نہیں اور مزید ستم یہ کہ اُن کے قاتلوں کو ہیرو اور متقی انسان سمجھتا ہے۔ اسلامِ محمدیؑ کے رکھوالے کبھی صلحِ امام حسنؑ کی صورت سامنے آئے، کبھی کربلا میں حق و باطل کے درمیان ابدی لکیر وضع کرتے نظر آئے، ایسی لکیر جو قیامت تک کیلئے معیار حقِ قرار پائی۔ کبھی امام زین العابدینؑ کی صورت دربارِ یزید میں ملوکیت زدہ اسلام اور حقیقی محمدی اسلام کا تذکرہ کرنے کے بعد ۳۵ برس تک مدینہ میں اسی اسلام کو سہارا دیتے نظر آئے، کبھی امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام باقرین کے نام سے یاد کیے جانے والے دور میں علومِ محمد و الِ محمدؑ کی بنیاد اور عمارت کو مضبوط کرتے نظر آئے، کبھی اسیر بغدادؑ کہلانے والے اپنے دور کے آمر کو بار بار قید خانہ بدلنے پر مجبور کرتے رہے کیوں کہ ہر قید خانے کا پہریدار اُن کی سیرت سے متاثر ہوکر “مولائی” بن جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلامِ محمدیؑ کا سلسلہ امامِ ہشتم امام علی ابنِ موسی الرضاؑ تک پہنچ گیا۔
۔
اپنے والد امام موسی الکاظمؑ کی شہادت کے وقت امام علی رضاؑ کی عمر ۳۵ برس تھی۔ یہ ۳۵ برس مدینہ میں اس عالم میں گزرے تھے کہ آپ کے والد امام موسی کاظمؑ ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں قید کاٹ رہے تھے۔ یہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کا دور تھا۔ ہارون کا اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنے بیٹوں مامون اور امین کی رقابت کی وجہ سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا حل اُس نے یہ نکالا کہ بغداد کے اطراف میں موجود تمام عرب علاقوں کی حکومت امین کے حوالے کردی اور خراسان ایران وغیرہ کی حکومت مامون کو دے دی۔ البتہ ہارون کی موت کےبعد ہی ان دونوں سوتیلے بھائیوں میں خونریز جنگ ہوئی جس کی نتیجے میں امین قتل ہوا اور تمام حکومت پر مامون الرشید قابض ہوگیا۔
۔
اس کے بعد کن حالات میں مامون الرشید نے امام رضاؑ کو مدینہ چھوڑ کر خراسان آنے پر مجبور کیا اور وہاں پہنچنے کے بعد کیا حالات رہے، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ خراسان پہنچنے کے بعد مامون نے جب امام رضا علیہ السلام کی بظاہر تکریم کی تھی اور انہیں اپنا ولی عہد بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو یہاں امام رضا علیہ السلام اور مامون کے درمیان ایک مشہور مکالمہ ہوا تھا جس میں امام رضا علیہ السلام نے مامون کی پیشکش کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر تجھے حکومت خدا نے دی ہے تو یہ تجھے زیب نہیں دیتا کہ تو اپنی مرضی سے کسی کو ولی عہد بنائے اور اگر یہ اختیار تجھے خدا نے دیا ہی نہیں تو تو کون ہوتا ہے کسی کو یہ منصب دے؟ (مفہوم)
۔
کہاں مدینہ اور کہاں خراسان، یہی غریب الوطنی تھی جس کی وجہ سے اس امام کو غریب الغرباء کہا جاتا ہے۔ امام رضاؑ نے خود بیان فرمایا ہے کہ وہ غریب الغرباء کیوں ہیں۔ ائمہؑ اہلیبیتؑ میں مدینہ میں جنت البقیع میں موجود چار ائمہؑ کے علاوہ سب امام غریب الوطن یعنی مدینہ سے دور ہیں۔ امام علیؑ، امام حسینؑ، امام موسی الکاظمؑ، امام تقی الجوادؑ، امام علی نقی الھادیؑ اور امام حسن العسکریؑ، یہ تمام ائمہؑ غریب الوطن ہیں۔ لیکن ایک اکیلے امام علی رضاؑ ہیں جو غریب الغرباء ہیں۔ ہر امام کے ساتھ کوئی نہ کوئی مدفون ہے، کوئی اکیلا نہیں ہے۔ صرف مولا رضاؑ ہیں جو مشہد میں اکیلے ہیں، ” ایھا المدفون بارض طوس”۔ آج کا مشہد نہیں بلکہ بارہ صدیاں قبل کا وہ خطہِ طوس تھا، جو مدینہ سے بہت دور تھا۔ اس مدینہ سے دور جس سے امام علی رضا علیہ السلام بہت محبت کرتے تھے۔
۔
مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر امام رضاؑ نے وہ تاریخی حدیث بیان کی تھی جسے حدیثِ زریں یا حدیث سلسلہ الذھب کہا جاتا ہے۔ حدیثِ زریں حدیث قدسی ہے اور اسے حدیث زریں اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ رسولِ کریمؐ تک، اس حدیث کے تمام راوی معصومؑ ہیں اور اس کا سلسلہ پروردگارِ عالم تک پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نیشاپور کے مقام پر بیس ہزار لوگوں نے اس حدیث کو تحریر کیا تھا۔

حدیث زریں کے مطابق پروردگار عالم نے فرمایا کہ کلمہ “لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ” میرا مضبوط قلعہ ہے اور جو بھی اس قلعے میں داخل ہوا وہ عذاب سے محفوظ رہے گا۔ جب امام رضا علیہ السلام کی سواری رخصت ہونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ البتہ کچھ شرائط کے ساتھ اور میں ان شرائط میں سے ہوں۔ علماء کے مطابق اس جملے سے مراد عقیدہ امامت ہے۔ گویا اس حدیث زریں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ولایت و امامت پر عقیدے اور اس کے ذکر کے بغیر توحید دراصل ابلیسی توحید ہے۔
اسی سفر کے دوران قُم کے مقام پر آپ نے دس روز تک مجلسِ حسینؑ کا انعقاد کیا۔ یہ جو آج ہم عشرہ محرم کا انعقاد کرتے ہیں یہ سنت امام رضا علیہ السلام ہی تو ہے۔
۔
امام رضاؑ کی شہادت کی مجالس میں دعبل خزاعی کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ دعبل خزاعیؓ، امام رضاؑ کے صحابی اور شاعرِ اہلیبیتؑ تھے۔ ان کا ایک مرثیہ جو انہوں نے روزِ عاشور امام رضاؑ کے حکم پر پڑھا، آج بھی امام رضاؑ کی شہادت کی مجالس میں علماء و ذاکرین اکثر پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ امام رضاؑ نے دعبل خزاعیؓ کو امام حسینؑ کا مرثیہ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ

“اے دعبل چونکہ آج یوم عاشور ہے اور یہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج وغم کا دن ہے لہذا تم میرے جد مظلومؑ کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعرپڑھو۔ اے دعبل، جوشخص ہماری مصیبت پر روئے یا رلائے، اس کا اجرخدا دیتا ہے۔ اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں تر ہو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہوگا۔ اے دعبل جوشخص ہمارے جدؑ کے غم میں روئے گا، خدا اُس کے گناہ بخش دے گا۔”
۔
یہ فرمانے کے بعد امام رضاؑ نے پردہ حائل کیا اور مستورات کو پردے کی دوسری جانب بیٹھنے کا حکم دینے کے بعد دعبل سے مرثیہ پڑھنے کو کہا۔ دعبل خزاعیؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میرا دل بھر آیا، آنکھیں آنسووں سے تر ہوگئیں اور اس عالم میں میں نے مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔ روایات کے مطابق، امام رضاؑ کی ہمشیر، سیدہ معصومہ قُمؑ یہ مرثیہ سُن کر اس قدر روئیں کہ آپ کو غش آگیا۔

یہ وہی مرثیہ ہے جس کے ایک شعر میں اپنے والد امام موسی کاظمؑ کے تذکرے کے بعد امام رضاؑ نے دعبل سے فرمایا تھا کہ کیا یہاں پر دو اشعار کا اضافہ میں بھی کر دوں تاکہ یہ مرثیہ مکمل ہوجائے؟ اور ان دو اشعار میں امام رضاؑ نے طوس میں ایک غریبِ طوسؑ کی تنہا قبر کا ذکر کیا تھا اور دعبل کے استفسار پر بتایا تھا کہ یہ قبر کسی اور کی نہیں بلکہ خود امام رضاؑ کی ہوگی۔ جسے عنقریب شیعوں اور زائرین کیلئے ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔
۔
ذکرِ امام حسینؑ اور فرشِ عزا بچھانے کے اس اجتماعی انداز کو ہی مجلس کا نام دیا گیا اور یہ سلسلہ امام رضاؑ کے دور میں مدینہ سے شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔

علامہ سید علی نقوی (نقن صاحب) لکھتے ہیں کہ اب امام رضاؑ کو تبلیغِ حق کے لیے نام حسینؑ کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگیا تھا۔ جس کی بنیاد اس سے پہلے امام محمد باقرؑ اورامام جعفرصادقؑ قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضرہوتے تھے جو بحیثیت امام بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ البتہ اب امام رضاؑ کو زیادہ وسیع حلقہ اثر میسر آیا۔
یہی وجہ ہے کہ امام رضاؑ کے دور کو شیعت کے پھیلاو کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔
۔
میرا نہیں خیال کہ یہاں اُس طبقے کو دعوتِ فکر دینے کی ضرورت ہے جس نے کچھ عرصہ سے غمِ حسینؑ کے بارے میں ایسا تاثر دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جیسے یہ کوئی سعی لاحاصل ہے۔ یہاں بات بات پر ڈاکٹر شریعتی کی سرخ و سیاہ شیعت کے حوالے دینے والوں کیلئے بھی مقامِ فکر ہے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو مطمئن کریں کہ امام رضاؑ اور دیگر ائمہؑ غمِ حسینؑ کے ذکر کو جاری و ساری رکھنے کیلئے کس طرح تاکید کیا کرتے تھے، کیا آپ کے افکار اس سے متصادم نہیں؟
۔
باجماعت نماز ہو یا کوئی مجلسِ عزا، اختتام پذیر ہونے پر زیارت پڑھی جاتی ہے۔ زیارتِ امام حسینؑ، زیارتِ امام زمانؑ اور ایک زیارت امام علی ابنِ موسی الرضاؑ کی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ “اسلام و علیک یا غریب الغرباء” سنتے ہی سب کے سر احساسِ شکرگزاری سے جھک جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ امام رضاؑ کی زیارت خصوصیت سے کیوں پڑھی جاتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے مجھے مجالس کے ذرئعے یہ معلوم ہوتا گیا کہ اس غمِ حسینؑ اور ان مجالس کے فروغ کیلئے جو بنیاد امام رضاؑ نے رکھی، آج ہر مجلس حسینؑ کے بعد اُن کی زیارت پڑھ کر یہ شیعہ دراصل اُن کی بارگاہ میں شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ امام رضاؑ کی زیارت کا ہر جملہ اپنے اندر بے پناہ انفرادیت اور کشش رکھتا ہے اور یہ انفرادیت و اُنسیت ایک زائر مشہد میں روضہ امام رضاؑ میں محسوس کرتا ہے۔ جیسے “امام ضامنؑ” کی عملی تفسیر آپ کے سامنے موجود ہو۔
۔
شہادت امام رضاؑ پر اس تحریر کا اختتام امام رضاؑ کی زبانِ مطہر سے ادا ہوئے اُن مصرعوں پر کرتا ہوں جو آپؑ نے دعبل خزاعیؑ کے مرثیے کو مکمل کرنے کیلئے کہے:
۔
و قبر بطوس یا لھا من مصیبة ۔۔۔۔۔۔۔ توقد فی الاحشاء بالحرقات
الی الحشرحتی یبعث اللہ قائماً ۔۔۔۔۔۔۔ یفرج عنا الھم و امکربات

” اور ایک قبر طوس میں ہے۔ افسوس ہے اس قبر والے کی مصیبت پر کہ جسکی موت کے سانحہ کی آگ جسم کے رگ و پا اور اعضاء میں شعلہ زن رہیگی, روزِ محشر تک۔ مگر یہ کہ خدائے متعال اس قائمؑ کو مبعوث فرمائے گا جو ظالموں کے ظلم و ستم پر فتح و ظفر حاصل کر کے ہمارے رنج و غم کو کسی حد تک کم کرنے اور سکون کا باعث بننے کا سامان کرے گا۔ “

“اسلام و علیک یا سلطانِ عرب والعجم، یا علی ابنِ موسی