کاش وہ دو تحاریر آج موجود ہوتیں از نور درویش
آپ نے کئی بار مختلف ویب سائٹس یا سوشل میڈیا کی بدولت کسی اسلامی ملک کے میوزیم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک سے لکھے ہوئے اُن محفوظ شدہ خطوط کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو لکھے۔ ہر شخص انتہائی جذبیت کے عالم میں ان خطوط کی زیارت کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ الفاظ رحمت للعالمینؐ کے دستِ مبارک سے لکھے گئے، وہ کیسے لمحات ہونگے جب اس کاغذ یا چمڑے کے ٹکڑے پر قرآن ناطق نے قلم سے یہ الفاظ لکھے ہونگے، کتنی بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دست مبارک اس ٹکڑے سے مس ہوا ہوگا۔ میں نے کئی عاشقان رسولؐ کو ان خطوط کو دیکھ کر یہ کہتے بھی دیکھا کہ یہ محفوظ شدہ خط ان سب کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو مسلمان ہوکر یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ ذات جو مصداق ” وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى ” ہے اسے معاذاللہ لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا تھا۔
مختصرا” یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک سے لکھی یہ تحاریر دیکھ کر ہر عاشق رسول ؐ جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ اِن تحاریر کو مس کرنا تو ممکن نہ ہو سکے گا لیکن کبھی اسے موقع مل سکے کہ وہ اس شیلف کو بوسہ دے سکے جس کے اندر یہ تحاریر محفوظ ہیں۔
۔
ایسا ہی کچھ میں بھی سوچتا ہوں اور خواہش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ عاشقان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جذبیت کا مشاہدہ بھی کرتا ہوں جو اِن تحاریر و تبرکات کو دیکھ کر جذبات سے مغلوب ہوئے جاتے ہیں۔ لیکن اسی دوران مجھے دو اور تحاریر کا خیال بھی آجاتا ہے ۔ ایک وہ جو لکھنے نہ دی گئی اور ایک وہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی لاڈلی دختر سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کو لکھ کر دی۔ میں جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مختلف حکمرانوں کو لکھے گئے محفوظ شدہ خطوط کی زیارت کرتا ہوں تو دل جذبات سے مغلوب بھی ہوتا ہے اور کہیں دل میں ایک کانٹا سا چبھتا بھی محسوس ہوتا ہے کہ دختر رسولؐ نے بھی تو اپنے بابا ؐ کے ہاتھ سے لکھی سند کو کتنے ارمان اور پیار سے سنبھال کر رکھا ہوگا کہ کبھی ضرورت ہوگی تو بطور سند اُمت کو دکھاؤں گی۔ سوچتا ہوں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک سے لکھے کچھ خطوط آج تک محفوظ ہیں تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹی کیلیے لکھی گئی یہ تحریر بھی کسی میوزیم میں محفوظ ہوتی۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر یہ تحریر بھی محفوظ ہوتی تو کیا تمام عاشقان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس تحریر کو دیکھ کر بھی جذبات سے مغلوب ہوجاتے؟ کیا اس شیلف کو بوسہ لینے کی خواہش کرتے جہاں یہ تحریر محفوظ ہوتی؟ کیا کوئی ایسا بھی ہوتا جو اس تحریر کو رسول کریم ؐ کی تحریر ماننے سے انکار کر دیتا؟
۔
دنیا بھر کے عاشقان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنے آقا ؐ کے دست مبارک سے لکھی محفوظ شدہ تحاریر کیلئے وارفتگی دیکھ کر مجھے رشک محسوس ہوتا ہے لیکن پھر فورا” ہی مجھے یہ خیال بھی آجاتا ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی بدبخت اِن محفوظ شدہ مبارک تحاریر کو نقصان پہچانے کی کوشش کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ یقینا” کوئی بھی عاشق رسول ؐ یہ برداشت نہ کر سکے گا۔
لیکن پھر اِس سے زیادہ کچھ اور سوچنے کی ہمت نہیں ہوتی اور ہاتھ جوڑ کر بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں کھڑا ہوجاتا ہوں اور بی بی سلام اللہ علیھا کے نوحے “صبت علی مصائب” کو یاد کرکے سوالات کا سلسلہ منقطع کر دیتا ہوں کیونکہ سوالات کا سلسلہ چلتے چلتے چودہ سو برس پہلے تک پہنچ جاتا ہے اور اِس خواہش یا حسرت پر آکر رک جاتا ہے کہ کیا اچھا ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک سے مختلف حکمرانوں کو لکھے گئے خطوط کی طرح دو اور تحاریر بھی آج کسی میوزیم میں محفوظ ہوتیں۔ ایک وہ جو رسولؐ خدا نے اپنی دختر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کیلئے لکھی لیکن محفوظ نہ رہ سکی اور ایک وہ جو دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل اُمت کیلئے لکھنا چاہتے تھے ۔ افسوس کہ ہم عاشقان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان دو قیمتی متبرک اور اہم تحاریر کی زیارت سے محروم رہ گئے۔