جنابِ قاسمؑ ابنِ حسنؑ کی مھندی
مراسم عزاداری میں برصغیر اور عرب میں جناب قاسم علیہ السلام کی مہندی کی زیارت بھی شامل ہے۔ بقول مولانا صادق حسن بر صغیر میں مہندی کی کیا زیارت برامد ہوتی ہوگی جس شان سے یہ نجف و کربلا میں برامد ہوتی ہے اور جید مراجع کرام کے گھروں کے سامنے سے گزرتی ہے، یعنی ان مراجع کی تائید و سرپرستی میں۔
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں نے اکثر بعض لوگوں کو اس پر معترض ہوتے دیکھا ہے۔ بہت سے اہل علم اس کے دفاع میں بھی دلائل دیتے ہیں۔ عقد جناب قاسم علیہ السلام کے بارے میں بھی اہل علم اپنی اپنی آراء دیتے آئے ہیں۔ لیکن جناب قاسم علیہ السلام کی مہندی کے حوالے سے مجھے گزشتہ برس انتقال کر جانے والے مرحوم مولانا منتظر عباس نقوی کا استدلال بہت زیادہ پسند آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس بحث میں پڑتا ہی نہیں کہ مہندی ہوئی تھی یا نہیں۔ میں تو اس رسم عزاداری کو ایک عزادار کے دل کی حسرت قرار دیتا ہوں جسے وہ انتہائی غمزدہ دل کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم فقط کربلا میں پیش آنے والے واقعات کی یادگار نہیں مناتے بلکہ ہم ان حسرتوں کی یاد بھی مناتے ہیں جو پوری نہ ہو سکیں۔ کربلا میں مولا حسین علیہ السلام کا جسد مطھر بے گور و کفن تھا، تابوت نہ اٹھ سکا تھا۔ اس لیے آج ہم شبیہ تابوت امام حسین علیہ السلام اٹھاتے ہیں۔ یہ بتانے کیلئے کہ مولا ع ہم اس وقت نہ تھے، اس لیے آج یہ شبیہ اٹھا کر اپنی حسرت پوری کرتے ہیں۔ بس اسی طرح جناب قاسم علیہ السلام کی مہندی کی زیارت برآمد ہوتی ہے۔ یہ ایک حسرت کی یادگار ہے۔ آج اس یادگار سے لوگ توسل کرتے ہیں، اپنی حسرتوں کی تکمیل اور حاجات کی قبولیت کیلئے۔
اس حسرت کی یادگار نے شعراء اور نوحہ خوانوں کو جناب قاسم ابن حسن علیہ السلام کے مصائب کے باب میں ایسے ایسے لازوال کلام لکھنے کا راستہ دکھایا جنہیں سنتے ہوئے ہر صاحب دل اور زندہ ضمیر انسان کا قلب مضطرب ہوجاتا ہے۔ حسرت کی یہ یادگار اس قدر اثر انگیز ہے کہ میں نے فقط شیعہ نوحہ خواں نہیں بلکہ مرحوم منظور الکونین جیسے بے مثل نعت خواں کو بھی ایک بار پنجابی زبان میں جناب قاسم علیہ السلام کی مہندی پر لکھا کلام پڑھتے سنا۔ انسان کے دل پر سنگدلی اور سفاکیت کی ناصبی مہر نہ لگی ہو تو وہ کربلا سے جڑی حسرتوں کی ان یادگاروں سے جڑ کر اپنے قلب کو آنسووں سے نرم کرتا رہتا ہے۔
۔
نوُر پابند ِ سِن و سال نہیں ہوسکتا
ذکرِ قاسِمؑ کبھی پامال نہیں ہوسکتا