تذکرہِ اہل بیتؑ

گزشتہ سال ۲۸ رجب سنہ ساٹھ ہجری کو مدینہ سے شروع ہونے والے سفرِ حسینؑ کو تصور کرتے ہوئے اپنے کچھ جذبات لکھنے کی کوشش کی۔ سلسلہ مکہ میں آکر کر رُکا تھا جہاں امام حسینؑ شعبان کے آغاز میں پہنچ گئے تھے اور ذی الحجہ کے آغاز تک وہیں موجود رہے تھے۔

آج یہ سفر مکہ سے دوبارہ شروع ہوا۔ میں نے سوچا کہ ساٹھ ہجری میں مکہ کا کیا ماحول ہوگا؟ لوگ عید کی تیاری کر رہے ہونگے؟ قربانی کے جانور تیار کیے جارہے ہونگے؟ امام حسینؑ بھی تو ہر برس حج پر قربانی کے جانور ساتھ لایا کرتے تھے؟ کیا ساٹھ ہجری میں بھی لائے ہونگے؟ کہتے ہیں کسی نے سوال پوچھ لیا تھا کہ آقاؑ اس بار آپ کے ذبیحے نظر نہیں آرہے؟ جواب میں امام حسینؑ نے عباس علمدارؑ، قاسمؑ اور علی اکبرؑ کو صدا دے کر بلا لیا تھا، یہ بتانے کیلئے کہ اس بار کربلا میں ذبحِ عظیم انجام دی جائے گی۔ میری اولاد، میرا بھائی، میرے اعوان و انصار ذبح ہونگے یہاں تک کہ عصرِ عاشور میرے خون سے وہ ذبحِ عظیم انجام تک پہنچے گی جس کا ذکر قران نے کیا، میرے جد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا۔
۔
آٹھ ذی الحجہ امام حسینؑ نے اپنے قافلے سمیت مکہ چھوڑ دیا تھا، سوچتا ہوں ساٹھ ہجری میں اس وقت خدا جانے قافلہ کہاں پہنچا ہوگا؟ میں نےسوچا کہ کیا مکہ میں موجود حاجیوں نے یہ سوچا ہوگا کہ نواسہ رسول ؑ  کہاں جارہا ہے؟ اگر کوفہ جارہا ہے تو کیوں جارہا ہے؟ کوئی پیچھے تو بھاگتا ہوا آیا ہوگا نواسہ رسولؑ سے ملنے؟ زیارت کرنے، دست بوسی کرنے؟ آخر وارثِ مکہ، مکہ چھوڑ کر جارہا تھا۔ شاید کوئی نہیں آیا ہوگا، احرام پننے کے بعد کوئی مکہ کی حدود سے باہر کیسے جاسکتا ہے؟ کوئی اپنا حج کیسے ترک کر سکتا ہے؟ سوائے اِن کربلا والوں کے جو حج چھوڑ کر چلے تھے، کربلا بسانے جسے آنے والے زمانوں نے کعبہ القلوب کے نام سے یاد کرنا تھا۔
۔
ساٹھ ہجری کی شب ۹ ذی الحجہ کو قافلہ حسینیؑ مکہ کی حدود سے بہت دور جاچکا ہوگا، شاید کسی مقام پر رات بسر کرنے کیلئے قیام کیا ہوگا۔ شبِ عرفہ ہے، ہر طرف سے دعا و مناجات کی صدائیں آتی ہونگیں۔ بالکل شبِ عاشور میں خیامِ حسینیؑ سے آنے والی تلاوتِ قران کی اُن آوازوں کی طرح جنہیں تشبیہ دیتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ جیسے شہد کی مکھیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

شاید یہ قافلہ صبح دوبارہ روانہ ہوا ہوگا اور پھر کسی مقام پر دوبارہ رکا ہوگا۔ یہ ۹ ذی الحجہ ساٹھ ہجری کا دن ہوگا۔ امام حسینؑ کو مکہ کس قدر یاد آیا ہوگا؟ میدان عرفات کی وہ ساعتیں یاد آتی ہونگی جب مولا حسینؑ نے اپنے اصحاب کے ہمراہ کھڑے ہوکر وہ دعائے عرفہ پڑھی تھی جسے ہم دعائے عرفہ امام حسینؑ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ عصر کا وقت تھا جب امام حسینؑ نے میدانِ عرفات میں قبلہ رخ کھڑے ہوکر، گریہ کرتے ہوئے یہ دعا پڑھی تھی۔ خود بھی گریہ کرتے جاتے تھے اور اصحاب بھی روتے جاتے تھے۔ حمد و ثناء اور خدا سے راز و نیاز پر مبنی امام حسینؑ کا یہ کلام، :کلام الامام، امام الکلام” کی بولتی تصویر ہے۔

ساٹھ ہجری ۹ ذی الحجہ کو معلوم نہیں امام حسینؑ اور اُن کے اصحاب نے دعائے عرفہ کہاں پڑھی ہوگی؟ جہاں بھی پڑھی ہوگی، وقت تو عصر کا ہی ہوگا؟ امام حسینؑ کے ہمراہ مولا غازی عباسؑ، علی اکبرؑ، قاسمؑ، عون و محمدؑ اور مولا زین العابدینؑ بھی کھڑے ہوئے ہونگے۔ امام حسینؑ کا عصر کے وقت سے بھی کیسا گہرا تعلق ہے؟ وہ وارث ِرسولؐ ہیں ، قرانِ ناطق ہیں، حجتِ خدا ہیں۔ اُنہیں ۹ ذی الحجہ ساٹھ ہجری عصر کے وقت، اکسٹھ ہجری دس محرم کا وقتِ عصر تو یاد آیا ہوگا؟ خدا سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے کا وقت، ذبح عظیم کی تکمیل کا وقت۔ وہ عصر کی نماز اور وہ آخری سجدہ بھی یاد آیا ہوگا۔

دعائے عرفہ امام حسینؑ کا ذکر کیا ہے تو یہ ذکر بھی کردیا جائے کہ ایک دعائے عرفہ امام زین العابدینؑ کی بھی ہے۔ امام سجادؑ تو ۹ ذی الحجہ کو دونوں دعائے عرفہ پڑھتے ہونگے؟ واقعہ کربلا کے بعد دعائے عرفہ زین العابدینؑ پڑھتے ہوئے خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے روتے ہونگے اور دعائے عرفہ امام حسینؑ پڑھتے ہوئے کبھی خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے روتے ہونگے اور کبھی اپنے بابا حسینؑ کو یاد کرکے روتے ہونگے۔
۔
امام سجادؑ کے بیٹے چار سالہ محمد بن علیؑ جنہیں تاریخ نے باقر العلومؑ کے نام سے یاد کیا، وہ بھی تو اس سفر میں موجود تھے۔ مدینہ سے مکہ، مکہ سے کربلا، کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام اور شام سے واپس مدینہ۔ سب کچھ ہی تو اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھتے آئے تھے۔ کیا اب بھی آپ جاننا چاہیں گے کہ اُنہوں نے اپنی وصیت میں اپنے فرزند امام جعفر صادقؑ کو یہ تاکید کیوں کہ کہ ہر برس حج کے موقع پر منی و عرفات میں مجلسِ حسینؑ منعقد کرنا؟ امام محمد باقرؑ نے اپنے جد امام حسینؑ کو حج ترک کرکے مکہ چھوڑتے ہوئے دیکھا تھا، پس انہوں نے آنے والے زمانوں کیلئے، ہر محبِ اہلیبیتؑ کیلئے دوران حج ذکرِ حسینؑ کرنے کا مکمل انتظام کردیا۔
۔
۹ ذی الحجہ کا دن گزر گیا ہوگا اور قافلہ حسینیؑ نے شاید کہیں قیام کیا ہوگا یا سفر جاری رکھا ہوگا۔ اگلا روز عید الاضحی کا تھا۔ قافلہ حسینیؑ نے نمازِ عید امام حسینؑ کی اقتداء میں ادا کی ہوگی۔ دعائے قنوت میں امام حسینؑ نے شاید یہ جملہ بھی تلاوت کیا ہوگا “بِحَقِّ ھٰذَا الیَومِ الَّذِی جَعَلتَہ لِلمُسلِمِینَ عِیداً” یعنی “آُس دن کے صدقے جسے تو نے مسلمانوں کیلئے عید کا دن قرار دیا”

مکہ اور مدینہ میں بھی عید منائی گئی ہوگی اور کوفہ میں بھی۔ لیکن کتنا فرق ہوگا ساٹھ ہجری کی عید الضحی میں جو مکہ و مدینہ میں منائی گئی ہوگی اور جو کوفہ میں؟ کیا مکہ و مدینہ میں کسی کو معلوم بھی ہوگا کہ کوفہ میں مسلم بن عقیلؑ شہید کیے جاچکے؟ ساٹھ ہزار کوفی بشمول امام علیؑ کے قریبی صحابیوں کے قید ہوچکے؟ ابن زیاد نامی یزیدی گورنر کوفہ میں مارشل لاء لگا چکا؟ کوفہ کی مکمل ناکہ بندی ہوچکی؟ کیا مکہ و مدینہ کے لوگوں نے روزِ عید سوچا ہوگا کہ نواسہ رسول ص اس وقت کہاں ہے؟ اہلِ مدینہ تو سوچتے ہونگے کہ حسینؑ حج کرنے گئے ہیں، لیکن مکہ والے کیا سوچتے ہونگے؟ کیا وہ کچھ سوچتے بھی ہونگے؟
۔
ساٹھ ہجری میں عید کا دن بھی گزر گیا ہوگا اور سفرِ حسینؑ جاری رہا ہوگا۔ کربلا اور امام حسینؑ کے درمیان بس بیس دن رہ گئے ہیں۔ حُر کی قسمت پلٹنے کو ہے، خیمہ حسینیؑ میں انصار حسیینیؑ کی موجودگی میں وہ چراغ گُل ہونے کو ہے جس کی لو رہتی دنیا تک روشن رے گی۔ اکسٹھ ہجری کی کربلا تیار ہونے کو ہے، ہم بھی ۱۴۴۵ ہجری میں یادِ کربلا منانے کو بیقرار بیٹھے ہیں۔

اٹھائیس رجب ساٹھ ہجری کو شروع ہونے والا سفرِ حسینؑ سینہ در سینہ، نسل در نسل سفر کرتا ہوا ۱۴۴۵ ہجری میں داخل ہونے کو ہے۔