تذکرہِ اہل بیتؑ

ذبحِ عظیم کی تشریح، امام علی ابنِ موسی الرضاؑ کی لسانِ مبارک سے

اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔ (107 ۔ الصافات)

“عیون اخبار الرضاؑ ” میں موجود حدیث کے مطابق، امام علی ابن موسی الرضاؑ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے جناب ابراہیمؑ اور اللہ کے درمیان وحی کی صورت ہونے والے مکالمے کا ذکر فرمایا ہے۔ امامؑ بیان فرماتے ہیں کہ جب جنابِ اسماعیلؑ کی جگہ اللہ نے ایک دنبے کو قربانی کیلئے ظاہر کیا تو جناب ابراہیمؑ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش مجھے اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ قربان کرنے کا حکم نہ ملا ہوتا۔ تاکہ میرے دل میں اُس باپ کے احساسات پیدا ہوتے جس نے اپنا سب سے پیارا بیٹا راہِ خدا میں قربان کیا ہوتا۔ مجھے اپنے بیٹے کے مصائب برداشت کرنے پر اللہ کی طرف سے اس صبر پر عظیم ثواب عطا کیا جاتا۔

جس پر اللہ نے جناب ابراہیمؑ پر وحی فرمائی کہ آپ کے نزدیک میری سب سے محبوب مخلوق کون ہے؟ جنابِ ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ پروردگار تو نے ابتک کوئی ایسی مخلوق خلق نہیں فرمائی جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ محبوب ہو۔ اللہ نے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا آپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے آپ سے؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے، جنابِ ابراہیمؑ نے جواب دیا۔ کیا آپ اپنے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے سے، اللہ نے پھر سوال پوچھا؟ یقینا میں محمد مصظفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتا ہوں، جناب ابراہیمؑ نے جواب دیا۔

کیا آپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے کا ظلم و ستم کے باعث سر تن سے جدا ہونے پر زیادہ غم کرینگے یا میری اطاعت میں اپنے بیٹے کو ذبح کرکے؟ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے کا دشمنوں کے ہاتھوں سر تن سے جدا ہونے پر زیادہ غم کروں گا، ابراہیمؑ نے جواب دیا۔

۔

دوبارہ وحی الہی نازل ہوئی اور جناب ابراہیمؑ سے کہا گیا کہ لوگوں کا ایک گروہ جو خود کو اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتا ہوگا، محمد ص کے بیٹے کو ذبح کرے گا۔ یہ لوگ میرے غضب کے حقدار قرار پاینگے۔ یہ سُن کر جنابِ ابراہیمؑ شدت غم سے گریہ کرنے لگے۔ جس پر اللہ نے وحی کی اور انہیں مطلع کیا کہ حسینؑ کے غم میں آپ کے اس گریہ کو میں نے، آپ کے اُس غم کے عوض قبول کرلیا جو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آپ کو ہوتا۔ پس، مصائب پر صبر کرنے کے صلے میں، میں آپ کو کثیر ثواب عطا کروں گا۔

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اللہ کے اس قول “و فدیناهم بذبح عظیم” کا مطلب ہے یعنی ہم نے ذبح عظیم اور عظیم قربانی کو اسمعیلؑ کی قربانی کا فدیہ اور عوض قراردیا۔

۔

پروردگار عالم کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے قرآن صامت کو قرآن ناطق ہستیوں سے سمجھنے والوں کے درمیان پیدا کیا۔ وہ ہستیاں جو راسخون فی العلم ہیں۔ ورنہ ہم بھی کربلا میں پائے تکمیل تک پہنچنے والی ذبح عظیم کی ملکوتی حقیقت سے وابستہ ہونے کے بجائے کربلا کو اقتدار کی جنگ، سیاسی جھگڑا یا نعوذ باللہ دو شہزادوں کی جنگ قرار دیکر خود کو صاحب علم لدنی حجتِ خدا منصوص من اللہ،  امام حسین علیہ السلام سے بڑا مفکر اور مدبر ثابت کر رہے ہوتے۔ (نعوذ باللہ)