علامہ طالب جوہریؒ، ایک عاشقِ امامِؑ زمانہ از نور درویش
علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ نے کئی مجالس وجود اور ظہور امام مھدی ؑ کے موضوع پر پڑھیں۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک انتہائی قیمتی کتاب “علامات ظہور مھدی ؑ” بھی لکھی۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار میں علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک ایسے شخص کا ذکر چل نکلا جو منکر وجود امام مھدی ؑ تھا۔ چونکہ میرے لیے اس وقت یہ ایک “انکشاف” تھا اس لیے میں نے سوچا کہ علامہ صاحب سے اس بارے میں سوال پوچھ لیتا ہوں۔ علامہ صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا اس نے کوئی نئی بات کی ہے ورنہ جو وہ پہلے کہتا تھا اس کے جواب تو دیئے جا چکے۔ کچھ نیا کہا ہو تو ذرا ڈھونڈ کر ہمیں بتانا، دیکھتے ہیں اب کیا کہہ رہا ہے۔
ایک بار ایک ٹی وی پروگرام ظہور امام مھدیؑ کے عنوان پر نشر ہوا جس میں شیعہ اور سنی نقطہ نظر بیان کیا گیا۔ البتہ محسوس ہوا کہ شیعہ نقطہ نظر اس انداز سے پیش نہ کیا جا سکا جیسا بیان کیے جانے کا حق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ صاحب یہ دیکھ کر بے انتہا بے چین ہوگئے تھے کہ کسی طرح ممکن ہو اور وہ شیعہ موقف مکمل طور پر بیان کرنے کا کوئی راستہ پیدا کر سکیں۔ اس دوران مختلف علماء اور اپنے طالب علموں کے فون آئے جن سے وہ اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ مجھے اس روز اندازہ ہوا کہ علامہ صاحب مکتب اہل بیت علیھم السلام اور خصوصا ذات مطھر امام صاحب العصر ؑسے کس قدر جذباتی وابستگی رکھتے تھے کہ انہیں گوارا نہ تھا کہ اس موضوع پر کوئی ایک بھی پہلو تشنہ نہ رہ جائے کسی سوال کا جواب ادھورا نہ نہ رہ جائے اور کوئی ایسا اعتراض باقی نہ رہ جائے جس کا رد پیش نہ کیا گیا ہو۔
۔
ایک مجلس میں ان کے کہے ایک جملے کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ کتب احادیث (شیعہ سنی) میں ظہور امام مھدی ؑکی تائید میں روایات اس قدر کثرت سے موجود ہیں کہ یہ حقانیت مکتب آل محمد علیھم السلام کیلئے کافی ہیں۔ علامہ صاحب کو تواتر سے سننے والے واقف ہونگے کہ علامہ صاحب تقریبا ہر عشرہ مجالس میں فضائل محمد و آل محمد علیھم السلام بیان کرتے ہوئے چند قرانی، عقلی، منطقی اور علمی استدلال وجود و ظہور امام مھدی ؑ کے بارے میں بھی ضرور قائم کیا کرتے تھے۔ گویا شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ولایت امیر المومنین علیہ السلام، فضائل اہل بیت علیھم السلام اور ایمان و شان ابو طالب علیہ السلام کے ساتھ جو موضوع ہمیشہ ان کی خطابت کا حصہ رہا وہ وجود و ظہور امام مھدی ؑ کا موضوع تھا۔
۔
یہاں مجھے دوبارہ علامہ طالب جوہریؒ کا قائم کردہ ایک استدلال یاد آتا ہے جو اُنہوں نے “فلسفہِ استغفار” سمجھاتے ہوئے سورہ نصر میں ہونے والے استغفار کے تذکرے پر گفتگو کرتے ہوئے قائم کیا تھا۔ اُنہوں نے سوال پوچھا تھا کہ پروردگار اپنے محبوبؐ سے فتح مل جانے کے بعد جس استغفار کا تقاضا کر رہا ہے، آخر اس استغفار کا مفہوم ہے کیا؟ کیا یہ وہی استغفار ہےجو ہم جیسے گناہگار کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو مقامِ عصمت پر فائز رسولِ کریمؐ سے نعوذ باللہ گناہ تو کیا کسی ترک اولی کا تصور بھی ناممکن ہے تو پھر اس استغفار کا مطلب کیا ہے؟
اس کے بعد اُنہوں نے مولا علیؑ کا مشہور واقعہ بیان کیا تھا جب ایک مجلس میں کچھ لوگ مختلف حاجتیں لیکر امیر المومنینؑ کے پاس آئے تھے۔ کوئی گناہگار تھا، بخشش کا طریقہ پوچھنے آیا تھا، کسی کا لگایا ہوا باغ سوکھ گیا تھا اور وہ اِس کا علاج پوچھنے آیا تھا، کوئی بے اولاد تھا اور اولاد کیلئے دعا کروانے آیا تھا، کسی نے اپنے علاقے میں نہر کھودی تھی جو سوکھ گئی تھی اور وہ اس کا حل پوچھنے آیا تھا۔ اِن سب سائلین کو مولائے کائناتؑ نے ایک ہی جواب دیا تھا کہ جاو اور استغفار کرو۔ مجلس میں موجود احباب نے حیران ہوکر پوچھا تھا کہ یا علیؑ، آپ نے ان سب سائلین کو ایک ہی جواب کیوں دیدیا؟ جس پر مولائے کائناتؑ نے قران حکیم میں موجود اُن آیات کی تلاوت فرمائی تھی جس میں اللہ استغفار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتلا رہا ہے کہ استٖغفار کرو تاکہ گناہ بخشے جائیں، اولاد، باغ اور نہریں عطا ہوں۔ جواب سن کر احباب نے کہا تھا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ آیت ہم نے آج ہی سنی۔
اِس آیت اور واقعے کی روشنی میں علامہ طالب جوہریؒ نے یہ استدلال قائم کیا کہ استغفار فقط گناہوں کی بخشش کیلئے نہیں بلکہ نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے بھی کیا جائے۔ اب جتنا بڑا انسان ہوگا، اُتنا ہی مرتبہ اُس کے استغفار کا ہوگا۔ یہاں علامہ طالب جوہریؒ نے ایک دلیل قائم کی کہ تاریخ انسانی میں جتنی بھی قوموں پر جن جن برائیوں کی وجہ سے عذاب آئے، آج وہ تمام برائیاں مسلمانوں میں موجود ہیں۔ تو کیا وجہ ہے جو عذاب نہیں آتا؟ آیاتِ قرانی کے وسیلے سے دلیل قایم کرنے کیلئے معروف علامہ طالب جوہریؒ نے یہاں ایک اور آیہ مبارکہ پیش کی جس میں پروردگار یہ بیان کر رہا تھا کہ جب تک اُمت میں رسولِ کریمؐ (ظاہرا”) موجود ہونگے، اُس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسری صورت یہ کہ اُمت استغفار کرتی رہے، تو بھی عذاب نہیں آئے گا۔ اب کسی میں اتنی جرات ہے کہ وہ یہ دعوی کر سکے کہ اُس کے استغفار کی وجہ سے نعمتوں کا تسلسل قائم ہے اور اُسی کے استغفار کی وجہ سے عذاب نہیں آتا؟ کوئی یہ دعوی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ تو کوئی ذات موجود ہے جو اُس محمد مصطفیؐ کی وارث ہے کہ جس کے استغفار کی بدولت نعمتوں کا تسلسل قائم و دائم ہے اور جس کے استغفار کی بدولت عذاب نہیں آتا۔
یعنی فلسفہ استغفار سے شروع ہونے والے نکتےکا اختتام وجود مطھر امام مھدی صلوات اللہ علیہ پر ایک بے مثل قرانی اور عقلی استدلال پر ہوا۔
۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عناصر کی جانب سے بار بار تضحیک آمیز انداز میں شیعوں کے عقیدہ غیبت و ظہور امام مھدی ؑاور وجود مطھر امام مھدیؑ سوال اٹھائے جاتے ہیں اور اعتراض کیے جاتے ہیں۔ لیکن سوائے چند ایک مثالوں کے ہمارے منبر سے نہ ان اعتراضات کا علمی رد کیا جاتا ہے اور نہ ہی تضحیک آمیز انداز اختیار کرنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے۔ میرے ذہن میں چند ایک ایسے نام موجود ہیں جن کا خاص موضوع ہی “معرفت امام زمانہ صلوات اللہ علیہ ” رہا ہے لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان شخصیات نے آج تک وجود و ظہور امام مھدی ؑکے عنوان پر کبھی قرانی، منطقی اور عقلی دلائل کو اپنے خطاب کا حصہ نہ بنایا۔ بلکہ ان کا تمام تقاریر کا مرکزی محور سامعین کے دلوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہی رہا کہ وہ اپنے امام ؑوقت سے کس قدر غافل ہیں، کس طرح ان کی غفلت کی وجہ سے ظہور امام ؑمیں تاخیر ہو رہی ہے اور ظہور کیلئے زمین ہموار کرنے کیلئے انہیں کیا کرنا چاہئے۔ یہ شخصیات اکثر اپنی بات واضح کرنے کیلئے مختلف فرضی حکایات کا سہارا بھی لیتی نظر آتی ہیں۔ مجھے ان شخصیات کے موضوع سے قطعا اختلاف نہیں لیکن یہ سوال ذہن میں ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر معرفت امام زمانہ ؑ ان کا خاص موضوع ہے تو کیا یہ حق نہیں بنتا کہ یہ وجود و ظہور امام مھدی ؑپر علمی و منطقی دلائل کو بھی اپنی تقاریر کا حصہ بنائیں؟
امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی ذات اقدس سے محبت رکھنے کا دعوی کرنے والے اور مولا ؑ کی معرفت کے حصول کی طلب رکھنے والے ہر شیعہ کا یہی طرز عمل ہونا چاہئے کہ جب کبھی بھی کوئی وجود و ظہور امام العصر صلوات اللہ علیہ پر سوال اٹھائے تو وہ بے چین ہوکر اس کا علمی جواب دینے کی کوشش کرے۔ میں امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کے ایک عاشق علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کی بے چینی کا عینی شاہد ہوں۔
۔
علامہ صاحب جب پہلی بار نشتر پارک میں رونق افروز منبر ہوئے تھے تو مجلس کے بعد انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ خطاب کیلئے تیار ہوئے تھے تو اپنے کاندھے پر ایک دست مبارک کو محسوس کیا تھا کہ جیسے کوئی ذات اقدس انہیں حوصلہ دیتے ہوئے کہہ رہی ہو کہ جاو اور جو چاہو پڑھو۔ علامہ صاحب سوال پوچھنے والوں کو بتاتے تھے کہ انہیں محسوس ہوا تھا کہ جیسے یہ دست مبارک امام صاحب العصر صلوات اللہ علیہ کا ہو۔