“تم نے گریہ کیا تو مجلس تمام ہوگئی”
سوشل میڈیا پر علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کی مجالس کی ویڈیوز شئیر کرنا، اُن کے کہے یادگار جملوں کو اپنی تحاریر میں بطور تبرک استعمال کرنا، اُن کی کتابوں کے حوالے اپنی تحاریر میں دیکر انہیں پڑھنے لائق بنانا اور ہر مخصوصی تاریخ پر کوشش کرنا کہ اس حوالے سے علامہ طالب جوہریؒ کی مجلس کا کوئی حصہ مل جائے تو میری “محنت سوارت ہوجائے”۔ مجھے فخر ہے کہ میں یہ سب علامہ صاحب کی حیات میں کرتا تھا۔
میں سوچتا تھا کہ شاید کسی کو لگتا ہوگا کہ میں علامہ طالب جوہری ؒکی شخصیت کے حوالے سے شخصیت پرستی کا شکار ہوں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ میں اپنے تئیں علامہ طالب جوہریؒ کے ان تمام احسانات اور ان تمام محنتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جن کی بدولت مجھ جیسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے عقائد و نظریات کی نوک پلک ٹھیک ہوئی۔ میرے ذہن میں بچپن میں اپنی والدہ کا مجھ سے کہا ایک جملہ بیٹھ گیا تھا کہ پاکستان میں علامہ طالب جوہریؒ سے بڑا عالم دین اور کوئی نہیں ہے۔ وہ خطاب کرتے ہیں تو لگتا ہے علم کا دریا بہہ رہا ہے۔ بس والدہ کی یہ بات میں نے گرہ میں باندھ لی۔
میں علامہ طالب جوہری کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ آپ نے میرے سخت ترین پردیس میں میرا ساتھ دیا۔ جب میں سعودی عرب کے وہابیت زدہ ماحول میں تنہا چاروں جانب سے وہابیت میں گھرا ہوا تھا تو وہ علامہ طالب جوہری ؒہی تھے جن کی مجلس میں سب سے چھپ کر کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سنتا تھا۔ وہ ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کا دور تھا اور نہ ہی موبائل فونز کا استعمال اتنا عام تھا۔ گھر سے دور پہلا محرم شروع ہوا تو میں نے علامہ طالب جوہریؒ سے دوستی کر لی۔ آج کی مجلس کل صبح ایک ویب سائٹ پر دستیاب ہوتی اور میں بیتابی سے اُس کا انتظار کرتا۔ میں اکیلا بیٹھ کر ان کی مجلس سنتا، فضائیل پر خوش ہوتا اور مصائب پر گریہ کرتا۔ اُن کے پڑھے ہوئے فضائیل کے نکات یاد کرتا، انہیں ذہن نشین کرتا اور انہیں دعا دیتا۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب میرے ایک سُنی دوست نے ایک بار مجھے مجلس سنتے دیکھ لیا تھا اور ضد کرکے اِس وعدے کے ساتھ میرے ساتھ مجلس سُنی تھی کہ وہ کسی سے تذکرہ نہ کرے گا کہ میں شیعہ ہوں۔ مجلس سُنتے ہوئے اُس سُنی دوست کا کہا وہ جملہ آج تک یاد ہے کہ میں نے آج تک کسی عالم کو قران سے اِس طرح دلائل قائم کرتے نہیں دیکھا۔
۔
فہم القران اور شام غریباں کی وجہ سے علامہ طالب جوہری سے ہر شیعہ بلکہ ہر شیعہ سنی کی طرح میرا بھی تعلق تھا لیکن جو تعلق سعودی عرب میں رہنے کے دوران بنا، وہ تعلق نہیں تھا بلکہ عشق تھا۔ ایسا عشق کہ مجھے آج بھی اپنے خلاف ہزار باتیں برداشت ہیں لیکن علامہ صاحب کے خلاف کہی گئی بات میں برداشت نہیں کر پاتا۔ ایسے کتنے ہی لوگ میری نطر میں ہیں جو مجھ سے دشمنی میں علامہ صاحب کو ٹارگٹ کرتے رہے اور آج ان کی رحلت پر تعزیت پیش کرتے نطر آرہے ہیں۔ کیا ان کا دل ان سے پوچھتا نہ ہوگا کہ جو کچھ تم علامہ طالب جوہری کیلئے کہتے رہے، جو بہتان باندھتے رہے، وہ تمہیں یاد بھی ہے یا نہیں؟
۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ عقائد و نظریات کے اعتبار سے میں آج جہاں کہیں بھی پہنچ پایا ہوں، مکمل طور پر پہنچ پایا ہوں یا ابھی ارتقا کا مزید سفر کرنا ہے۔ یہ سب علامہ طالب جوہریؒ کی مجالس اور ان کے ببانگ دہل یا اکثر بین السطور( جسے وہ آف دا ریکارڈ کہا کرتے تھے) جملوں کا مرہون منت ہے۔ میں آپ کو مکمل ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ یہ فقط میرا معاملہ نہیں ہے۔ چار پانچ دہائیوں ہر محیط نسلیں ہیں اس ملک کی جن کی فکری آبیاری علامہ طالب جوہری نے کی ہے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ “میاں ایک بار ہمیں جا لینے دو، پھر دیکھنا سب کو کیسے یاد آئیں گے”۔
آج آپ دیکھ لیجئے کیسے یاد آرہے ہیں علامہ صاحب سب کو۔ مجھے درجنوں میسج ایسے آئے ہیں جن میں اس کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے کہ علامہ صاحب کی رحلت کا سن کر ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم یتیم ہوگئے۔ ایک قریبی دوست کا وائس میسج آیا۔ علامہ طالب جوہریؒ کا ذکر کرتے ہوئے بار بار اُس کی آواز گلے میں اٹک رہی تھی جیسے بہت مشکل سے رونا ضبط کر رہا ہو۔ ایسے کتنے لوگ ہونگے۔
بس یہی تھی علامہ طالب جوہری کی محنت جس نے میری طرح خدا جانے کتنوں کو اپنے عشق میں مبتلا کر دیا۔ اِس عشق کی وجہ کیا تھی؟ اس عشق کی وجہ علامہ طالب جوہریؒ نے خود منبر سے کئی بار بتائی کہ “میں نے اس منبر سے ذکر محمدؐ و آل محمد ؑ کے سوا کبھی کوئی اور ذکر نہ کیا”۔ بس یہ اسی ذکر کی تاثیر تھی کہ آج ہر زبان پر علامہ طالبؒ جوہری کا ذکر ہے۔
۔
علامہ طالب جوہری ؒکے علمی مرتبے پر صاحبان علم و مطالعہ بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ میری اتنی حیثیت نہیں کہ کچھ زیادہ لکھ سکوں لیکن ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ جس شخصیت کے علمی سفر کا آغاز آیت اللہ مولانا محمد مصطفی جوہر ؒ جیسے عارف باللہ کے زیر سایہ ہوا ہو، حق بنتا ہے کہ اِس شخصیت کو شہید باقر الصدر ؒجیسا اُستاد “علامہ” کا لقب دے، اُسے “قرۃ العینی کہے، اُسے سید محسن الحکیم طباطبائی ؒ اور سید ابو القاسم الخوئی ؒ جیسے اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا شرف حاصل ہو۔
آپ کے مشہور اور معروف اساتذہ میں آیت اللہ العظمیٰ السید محسن الحکیم طبا طبائی ، آیت العظمیٰ السید ابوالقاسم الخوئی ، آیت اللہ العظمیٰ السید روح اللہ خمینی ، آیت اللہ العظمیٰ السید باقر الصدر شہید ، حضرت آیت اللہ العظمیٰ السید علی فانی شامل ہیں ۔ آپ کے استاد آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسن بغدادی اور آیت اللہ العظمیٰ السید محمد قاسم رشتی نے آپ کو اجتہاد کا اجازہ مطلقہ عطا فرمایا تھا۔
علامہ طالب جوہری کو اپنے والد گرامی مولانا محمد مصطفی جوہرؒ سے اس درجہ عقیدت تھی کہ اُن کی نام کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ جوہری کا لاحقہ لگایا اور یہ لاحقہ ایسا مقبول ہوا کہ ٹی وی اسکرین ہو یا کوئی کتاب، مضمون یا مجلس کا اشتہار، اس میں لکھے ہوئے یہ تین لفظ “علامہ طالب جوہری” دیکھنے اور پڑھنے والوں کے دلوں پر نقش ہوکر رہ گئے۔ عجیب انفرادیت پائی اِس نام نے۔ ایسی انفرادیت ان ہستیوں کی عطا کے بغیر ممکن ہو ہی نہیں سکتی جن کا ذکر علامہ طالب جوہریؒ تمام عمر بہت خلوص سے کرتے رہے۔ اندازہ کیجئے کہ جب اِس نام میں ایسی جاذبیت ہے تو شخصیت میں کس قدر کشش ہوگی؟ آج اسی کشش کے تذکرے ہر طرف ہیں۔
نجف الاشرف میں دس سالہ قیام کے دوران علامہ طالب جوہری ؒ کے ہم جماعت اور قریبی دوست علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ نے مولانا محمد مصطفی جوہرؒ کی ایصال ثواب کی مجلس پڑھتے ہوئے ذکر کیا تھا کہ اُن کا دل بہت دکھا جب پاکستانی اخبارات میں مولانا محمد مصطفی جوہر ؒ جیسی عظیم ہستی کے انتقال کی خبر یوں شائع ہوئی کہ علامہ طالب جوہری ؒکے والد انتقال کر گئے۔ کیسا ظلم ہے کہ لوگ اس عظیم ہستی اور عارف باللہ سے واقف نہیں اور اُن کا تعارف علامہ طالب جوہری ؒکی نسبت سے کرا رہے ہیں۔ اِس کے بعد علامہ جوادی ؒنے دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ علامہ طالب جوہری ؒبہت محنت کر رہے ہیں اور اُن کی دعا ہے کہ وہ اپنے عظیم والد بزرگوار مولانا محمد مصطفی جوہر ؒکا نام خوب روشن کریں۔
علامہ طالب جوہری ؒ کے دوست علامہ ذیشان حیدر جوادی ؒ کی دعا ایسی پوری ہوئی کہ آج دل کہتا ہے کہ وادی السلام میں مولانا محمد مصطفی جوہر ؒنے اپنے فرزند علامہ طالب جوہری ؒکی پیشانی فخر سے چوم لی ہوگی اور اُن کی پشت پر کھڑے علامہ ذیشان جوادی ؒ نے کہا ہوگا کہ دیکھیے علامہ ہماری دعا کی قبولیت۔ ایک عالم کو روتا ہوا چھوڑ کر آئے ہیں آپ۔ کیا خوب گریہ کروایا آپ نے اور کیسی مجلس تمام کردی۔
۔
بہت کم لوگ آگاہ ہونگے کہ علامہ طالب جوہریؒ نے اپنے والد محترم مولانا مصطفی جوہر ؒ کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی قائم کر رکھا تھا۔ جس کے زیر انتظام مختلف کارخیر انجام دیئے جاتے تھے، علامہ صاحب کی زیر نگرانی مصروف درس و تدریس مدرسہ کا انتظام چلایا جاتا تھا، مستحقین کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ان کی داد رسی کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ علامہ طالب جوہریؒ کی رحلت کے بعد بھی جاری ہے۔خاکسار اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتا تھا کہ ہر ماہ باقاعدگی سے راشن کے تیارتھیلے خاموشی سے مستحق خاندانوں تک پہنچائے جاتے تھے۔ امریکہ میں مقیم علامہ سخاوت حسین سندرالوی نے علامہ طالب جوہریؒ سے جُڑی اپنی قیمتی یاداشتیں بیان کرتے ہوئے ایسے ہی کئی کارخیر کا تذکرہ کیا جن کی تشہیر کبھی نہ کی گئی۔ علامہ سخاوت حسین سندرالوی نے بتایا کہ مومنین کی بچیوں کے جہیز کے انتظام سے لیکر یتیم خانوں کی کفالت تک اور مختلف مدارس کی سرپرستی سے لیکر ضرورتمند مومنین کی مالی امداد تک کتنے ہی کارخیر تھے جو علامہ طالب جوہریؒ کی نگرانی میں بغیر کسی تشہیر کے انجام دیئے جاتے رہے۔ کتنے ہی بیروزگار مومنین ہونگے جو علامہ صاحب کی بدولت برسر روزگار ہوئے۔
میں انصاف سے بتاوں تو یہ سب تفصیل سنتے ہوئے مجھے رہ رہ کر ایک خاص گروہ اور طبقہ فکر کا علامہ طالب جوہریؒ جیسے گوہرِ نایاب کے خلاف کیا جانا والا پراپگنڈہ یاد آتا رہا کہ کس طرح یہ گروہ اِس عظیم انسان کی کردار کشی کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ لیکن ظاہر ہے، جس ذاکرِ امام حسینؑ کو عزت و مرتبہ امام حسینؑ نے عطا کیا ہو، اُس کا کوئی پراپگنڈہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لاکھوں شیعہ اور لاتعداد غیر شیعہ انسانوں کےدل میں موجود علامہ طالب جوہریؒ کیلئے محبت اور احترام اِن کا واضح ثبوت ہے۔
۔
مولانا مصطفی جوہر رح کی شخصیت پر اور آپ کی شاعری سے متعلق کتب بھی مولانا محمد مصطفی جوہرؒ ٹرسٹ کے زیر اہتمام تصنیف اور تدوین کے مراحل سے گزر کر شائع کی گئیں۔ مولانا جوہر ؒ کے کلام کی لازوال کتاب “محراب” بھی ان کتب میں شامل ہے۔ محترم دوست اور بھائی فرحان رضا نے مولانا مصطفی جوہر ؒکی شخصیت پر بہترین تحریری و تحقیقی کام کیا ہے۔
کراچی نیو رضویہ سوسائٹی میں قائم مدرسہ امام حسن العسکریؑ طلاب کو علومِ اہلیبیت علیھم السلام سے روشناس کروانے میں مصروفِ عمل ہے۔ مدرسہ کے مؤسس علامہ طالب جوہریؒ ہیں، جب کہ علامہ طالب جوہریؒ کے ہونہار شاگرد مولانا اسد علی شاکری نجفی مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مدرسے کے احاطے میں ہی علامہ طالب جوہریؒ کی مرقد ہے۔ ایامِ عزا میں اور دیگر مخصوصی تاریخوں میں مدرسے میں مجالس و محافل اور ماتمداری کا سلسہ بھی جاری رہتا ہے۔یعنی جہاں علامہ صاحب کی مرقد ہے، وہاں عزاداری بھی جاری ہے اور تعلیم و تدریس بھی۔ کیسا گہرا اور اٹل تعلق ہے علامہ صاحب کا عزاداری سے اور تعلیم و تدریس سے۔
۔
علامہ طالب جوہری ؒ حکومتوں اور سیاست سے دور رہے لیکن ملت سے بے خبر کبھی نہ رہے۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے لیکر حکومتی وفد تک اور مذہبی رہنماوں سے لیکر سیکیورٹی اداروں کے نمائندوں تک۔ سب اُن سے انچولی بلاک بیس میں موجود ان کے گھر کے ڈرائینگ روم میں آکر ملتے تھے۔ بس ایک بار اس وقت کے گورنر سندھ سے ملنے خود گئے جب وہ سانحہ عباس ٹاون کے متاثرین کی مدد کیلئے کوششیں کر رہے تھے۔ سانحہ عباس ٹاون کے متاثرین کی بحالی اور تباہ حال گھروں کی دوبارہ تعمیر کیلئے علامہ طالب جوہریؒ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ البتہ حسبِ معمول، اُنہوں نے کبھی ان کاوشوں کی تشہیر نہ کی۔
علامہ طالب جوہری ؒکے نشتر پارک کے منبر سے کہے پالیسی جملوں کی گونج کہاں کہاں تک جاتی تھی، کبھی اس کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ خاکسار کو چند بار علامہ صاحب سے ایسے چند واقعات سننے کا اتفاق ہوا جن سے اندازہ ہوا کہ اُن کی نشتر پارک کی مجلس کہاں کہاں سنی جاتی تھی اور اُن کا بین السطور یا ببانگ دہل اعلان کہاں کہاں پہنچتا تھا۔
۔
ضیاء دور وہ واحد دور تھا جس میں انہوں نے ایک سرکاری عہدہ قبول کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے۔ اسی دور میں پی ٹی وی پر ان کا شہرہ آفاق پروگرام فہم القران بھی نشر ہوا۔ اگر آپ غور سے فہم القران کے لیکچر سنیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ سینسر شپ کے اس دور میں علامہ طالب جوہری ؒ کس طرح کئی پرتوں میں چھپا کر مدح آل محمد ؐبیان کر دیا کرتے تھے۔ مجھے اِس بات پر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے بڑوں میں سے کوئی علامہ صاحب کے پاس بار بار التجا کرنے کیوں نہ گیا کہ قبلہ ہم دوبارہ فہم القران سننا چاہتے ہیں۔ شاید ہم نے اس گوہر نایاب کی اُس طرح قدر کی ہی نہیں جس کا یہ حقدار تھا۔ اندازہ تو ان کے بچھڑ جانے کے بعد ہو رہا ہے کہ کیا کھو دیا۔
۔
وہ کتنے ہی مسائل ڈرائینگ روم میں اہنے مخصوص صوفے پر بیٹھ کر حل کروا دیا کرتے تھے۔ میں نے سوشل میڈیا پر جب جب آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا کہ بعض شخصیات منظر عام پر آئے بغیر شر اور برائی کی جڑ کاٹ دیتی ہیں تو میرے ذہن میں دوسرا نام علامہ طالب جوہری ؒکا ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر مجھ سمیت ہزاروں کا دل ڈوبتا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ جو ہماری ڈھارس تھی وہ چلی گئی۔ اب کون ہے جس سے کسی الجھن میں رہنمائی مانگی جائے۔ مخلص قائد بہت ہوں گے لیکن علامہ صاحب تو بس ایک ہی تھے۔ جو بغیر کسی تشہیر و لالچ کے کتنے مسئلے سلجھا دیتے تھے۔ بعض لوگ ان کے خلاف کیسے کیسے تضحیک آمیز جملے بولتے تھے لیکن یہ بندہ خدا کبھی پلٹ کر کسی کو جواب نہ دیتا تھا۔
میں چشم دید گواہ ہوں جب ایک مجلس کے بعد کچھ ایسے لوگوں کو علامہ طالب جوہری ؒ کے ہاتھ چومتے دیکھا جنہیں ان کی پیٹھ پیچھے ان کی برائی کرتے دیکھا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور جب ایک بار موقع ملا تو یہ سوال ان سے پوچھ لیا۔ انہوں نے کمال بے نیازی سے مختصر جواب دیا کہ میاں نہ ہم کسی کو آنے سے روکتے ہیں نہ جانے سے۔
۔
میرا دل خون کے آنسو روتا تھا جب میں بیس پچیس سال کے کسی لڑکے کو سفاکیت کے ساتھ اس گوہر نایاب اور مولا حسین علیہ السلام کے منظور نظر انسان کا ذکر اُن انتہائی تکلیف دہ اور بہتان نما الفاظ کےساتھ کرتا دیکھتا جنہیں دہرانا بھی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ یہ کیسی فکری یتیمی ہے اور کیسی تربیت ہے کہ جس کا احسان مند ہونا چاہئے تھا، یہ بیس پچیس سال کے لڑکے اُس پر جملے کستے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ یہ ناسور جس شخص نے پھیلایا آج شاید وہ بھی پاکستان سے باہر بیٹھا علامہ طالب جوہری ؒ کی رحلت پر خلق خدا، علماء، خطباء، مراجع اور مکتب اہلسنت کی کیفیت دیکھ کر سوچتا ہوگا کہ میں تو آج رسمی تعزیت کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ کیسی ذلت آمیز شکست پائی اُس شخص نے۔ پراپگنڈہ اور کردار کشی ہمیشہ کی طرح ہار گئے۔
۔
علامہ طالب جوہری ؒایک بار اندرون سندھ کے کسی گوٹھ میں مجلس پڑھنے گئے۔ کسی دور دراز گاوں میں یہ ایک زیر تعمیر امام بارگاہ تھی جس کی فقط چار دیواری ہی تعمیر ہوسکی تھی۔ علامہ صاحب نے مجلس پڑھی اور بہت مقبول مجلس ہوئی۔ مجلس کے بعد بانیان مجلس نے ہدیہ دینا چاہا تو علامہ صاحب نے پوچھا کہ یہ امام بارگاہ کی تعمیر کس لیے رکی ہوئی ہے۔ بانیان نے فنڈز کی کمی کا ذکر کیا تو علامہ صاحب نے ہدیہ کی رقم تعمیر میں شامل کرنے کو کہا کہ پہلے امام بارگاہ کی تعمیر مکمل کروائیے، ہم مزید بھی مدد کرینگے۔ وہاں موجود ایک سندھی ضعیف شخص نے اپنے ہاتھوں میں پہنی ہوئی ایک زرد عقیق کی انگوٹھی اُتاری اور علامہ صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ سائیں پھر یہ انگوٹھی آپ رکھیں۔ علامہ طالب جوہری ؒ کے ہاتھ میں زرد رنگ کے بڑے عقیق والی جو انگوٹھی ہمیشہ نظر آئی وہ اسی بوڑھے سندھی بزرگ کی دی ہوئی انگوٹھی تھی۔
۔
بہت عرصہ ہوا ایک بار پنجاب میں علامہ طالب جوہری ؒکو دوران مجلس اطلاع ملی کہ مجلس میں ایک اسیرمذہبی شخصیت کی زوجہ امداد کی اُمید میں باہر دروازے کے پاس موجود ہیں۔ علامہ طالب جوہری ؒ کے پاس اس وقت خمس کی کچھ رقم موجود تھی، انہوں نے فوری طور پر یہ رقم اُن تک پہنچانے کو کہا کہ یہ ان تک پہنچا دیں پھر باقی کراچی پہنچ کر دیکھیں گے۔ یہ واقعہ علامہ صاحب سے خاکسار نے خود سنا تھا اور اُن کی رحلت کے بعد فقط یہ سوچ کر قلمند کر رہا ہوں کہ علامہ صاحب اپنی حیات میں تو کبھی بھی کسی قسم کی تشہیر نہ کیا کرتے تھے لیکن اُن کی حیات کے بعد ہم تو بطور یادگار اُن کے احسانات اور کارہائے خیر کا تذکرہ کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی کتنے واقعات ہونگے۔ مجھے تو بس یہ چند معلوم ہیں اور بہت کچھ وہ ہے جو آف دی ریکارڈ ہے اور شاید وقتا فوقتا سامنے آتا جائے جیسا بہت کچھ ان کی رحلت کے بعد آرہا ہے۔
واضح کرتا چلوں کہ علامہ طالب جوہری ؒ کو نجف الاشرف سے اجازہ اجتہاد ملا تھا۔ ملک بھر اور بیرون ملک سے ان کے کئی ایک مخیر معتقدین ان تک خمس پہنچایا کرتے تھے۔ خمس کی یہ رقم مختلف کار ہاے خیر میں استعمال کی جاتی تھی۔ مولانا محمد مصطفی جوہرؒ ٹرسٹ کے زہر انتظام یہ کار ہاے خیر علامہ صاحب کی رحلت کے بعد بھی انجام دیئے جاتے ہیں۔
۔
علامہ طالب جوہری ؒ کے علمی قد و قامت پر، خطابت کی بے مثل صلاحیت پر اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر بہت گفتگو ہو رہی ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کا اب تک کسی نے ذکر نہ کیا۔ یہ بندہ خدا ایک عارف باللہ اور صاحب کرامت بزرگ تھا۔ اُن کا ظاہری قد بھلے ہی طویل نہ تھا لیکن اُن کے سامنے بڑے بڑے طویل قامت انسان، عالم و فاضل بیٹھ کر ان کے رعب و جلال سے مرعوب نظر آتے تھے۔ وہ شمع محفل ضرور تھے لیکن ان کی سنجیدگی میں موجود جلال بھی کمال تھا۔
جس پہلو کا اب تک ذکر نہ ہو سکا وہ یہ ہے کہ علامہ طالب جوہری ؒایک جید عالم ہونے کے ساتھ ایک مستند عامل بھی تھے۔ اُن کے بتائے ہوئے یا کسی کیلئے انجام دیئے ہوئے عمل کی بدولت کتنوں کی زندگیاں بن گئیں اور نسلیں سنور گئیں۔ دنیا بھر سے لوگ انہیں فون کرکے مختلف مسائل کے حل کیلئے مدد کی درخواست کرتے تھے۔ کوئی استخارہ دیکھنے کی درخواست کرتا تھا اور کوئی دعا کیلئے۔ وہ کسی کو مایوس نہ کرتے تھے۔ اکثر گھر کا فون خود اٹھاتے تھے اور مسئلہ بیان کرنے والے کی بات خود سن کر اُسے جواب دیتے۔ علامہ طالب جوہریؒ کے دیکھے ہوئے استخارے مجالس میں قائم کیے گئے اُن کی استدلال کی طرح محکم ہوتے تھے۔ یوں کہیں کہ ان کے استخارے تیر بہدف ہوتے تھے۔
۔
علامہ طالب جوہری ؒ سے میرے قلبی لگاو کا اندازہ اس تحریر کی طوالت سے لگایا جا سکتا یے۔ ایسی کتنی ہی باتیں ہیں جو لکھنا چاہتا ہوں لیکن قلم کو روک رہا ہوں۔ خاکسار کو چند ایک بار علامہ صاحب کے سامنے منقبت پڑھنے کا شرف ملا۔ وہ فرمائش کرکے “نہ پوچھئے کہ کیا حسینؑ ہے” سنا کرتے تھے اور اِس مصرعے پر ہمیشہ خوب داد دیتے تھے “حسن ؑکا پہلا ہم سفر علیؑ کا دوسرا پسر، امام تیسرا حسینؑ ہے”۔ منقبت سننے کے بعد پیارے خان مرحوم کا ذکر بھی کرتے تھے۔ میں کوئی ماہر سیکھا ہوا منقبت خواں نہیں ہوں لیکن یہ ان کی شخصیت کا بڑا پن تھا کہ مجھ جیسے ناچیز کی بھی ایسے حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ خود پر فخر محسوس ہوتا تھا۔
مجھ حقیر کیلئے ایک اور سعادت جسے میں سرمایہ حیات کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ علامہ صاحب کے آخری ایام میں ان کا بے مثل کلام “استغاثہ” میری آواز میں ریکارڈ شدہ کچھ لمحوں کیلئے اُنہیں سنایا گیا۔ یہ اس عاشق امام زمانہ عج کی امامؑ سے عشق کی انتہا تھی کہ مسلسل بیہوشی اور غنودگی کے باوجود “العجل” کے لفظ پر آنکھیں کھول دیں اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ بندہ ِ خدا ایک صاحب کرامت عارف باللہ تھا۔ بس ہم سے اس کی قدر نہ ہوسکی۔
۔
تحریر کا اختتام کروں گا۔ علامہ طالب جوہری ؒ کے بارے میں ان کی حیات میں جب بھی سوچتا تھا تو بچپن کی عزاداری یاد آتی تھی، اُن کی مجالس یاد آتی تھیں، اپنے گھر میں اُن کی مجلس شام غریباں یا فہم القران سننے کیلئے سب کا اکٹھے بیٹھنا یاد آتا تھا، کراچی میں اُن کی رہائش گاہ یاد آتی تھی۔ لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ ان کی علالت کے آخری دنوں میں علامہ طالب جوہری ؒ کے بارے میں جب جب سوچتا تھا مجھے نجف الاشرف کی گلیاں یاد آتی تھیں۔ میں عالم تخیل میں نجف پہنچ جاتا تھا اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ یہاں علامہ طالب جوہری ؒ نے دس برس گزارے۔ وہ انہی گلیوں سے گزر کر باب مدینہ العلم علیہ السلام کو سلام کرنے جاتے ہونگے۔
مجھے اس احساس کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ سمجھ نہ آئی کہ یہ علامہ طالب جوہری النجفی ؒکی نجف الاشرف سے اٹوٹ محبت کا اثر تھا۔ بقول مولانا اسد علی شاکری، علامہ صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ آج بھی نجف الاشرف کی طالب علی کو یہاں کی بادشاہی پر ترجیح دیتے ہیں۔ علالت کے آخری دنوں میں جب ان کے فرزند مولانا امجد رضا جوہری نے اُن سے کہا تھا کہ علامہ صاحب آپ تو نجف الاشرف چلے جاینگے تو اُنہوں نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔ علامہ طالب جوہری النجفی ؒ تو اب واقعی نجف الاشرف جا چکے ہونگے۔وہ نجف الاشرف جہاں کی طالب علمی کو وہ ہر بادشاہی پر ترجیح دیتے تھے۔
(یہ مضمون 22 جون 2020 علامہ طالب جوہریؒ کی رحلت پر لکھا گیا تھا۔)