مسلم ابن عوسجہ اسدی | نور درویشؔ
معرکہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے ہر کردار ایک موتی کی طرح چنا۔ موتیوں کی اس لڑی میں موجود ہر موتی اپنے اندر جذبات کا سمندر رکھتا ہے اور مولا حسین علیہ السلام کی کرامت یہ ہے کہ ہر موتی سے وابستہ جذباتیت اپنے اندر بھرپور انفرادیت رکھتی ہے۔ ہر کردار ضمیر انسانی کو الگ انداز سے اپیل کرتا ہے۔ ششماہے علی اصغر علیہ السلام سے لیکر ہمشکل پیغمبر علی اکبر علیہ السلام تک، حر علیہ السلام سے لیکر جون و وہب تک اور حبیب ابن مظاہر سے لیکر مسلم ابن عوسجہ تک۔
مسلم ابن عوسجہ الاسدی بھی ایسا ہی ایک کردار ہے۔ مسلم ابن عوسجہ کو ابو حجل کی کنیت سے بھی پکارا جاتا ہے مگر جو نام ان کا زباں زد عام ہے وہ مسلم ابن عوسجہ ہے۔ شہدائے کربلا میں مسلم ابن عوسجہ، سفیر حسین جناب مسلم ابن عقیل علیہ السلام کے ہم نام ہیں۔ لہذا وہ شیعہ جو اپنی اولاد کا نام اس عظیم شہید کی نسبت سے رکھنا چاہتے ہیں وہ انہیں “عوسجہ” کا نام دے دیتے ہیں۔ خود میرے جاننے والوں عوسجہ نام کے کئی احباب موجود ہیں۔ مسلم ابن عوسجہ الاسدی اہل کوفہ تھے اور اہل بیت علیھم السلام کے وفادار تھے۔ کوفہ میں آپ اپنی شرافت، سخاوت، شجاعت اور مروت کی وجہ سے معروف تھے۔ کوفہ کو بیوفائی کا استعارہ قرار دیکر بنو امیہ کے جرائم کی پردہ پوشی کرنے والوں کو مسلم ابن عوسجہ جیسے اولیائے کوفہ کا ذکر بھی کرنا چاہیے جن کا نام ذبح عظیم کی آفاقی و ملکوتی حقیقت میں شامل ہوا۔
۔
حبیب ابن مظاہر کی طرح مسلم ابن عوسجہ کا تعلق بھی قبیلہ بنی اسد سے تھا۔ اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کرچکے تھے، یعنی وہ صحابی رسول ص تھے اور انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ وہ اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے والد گرامی امیر المومنین علیہ السلام کے قریبی اصحاب میں سے تھے اور مختلف معرکوں میں امیر المومنین علیہ السلام کی قیادت میں صف اول میں لڑے تھے۔ سفیر حسین جناب مسلم ابن عقیل علیہ السلام نے کوفہ میں ابتدائی ایام میں مسلم ابن عوسجہ کے گھر پر ہی قیام کیا تھا اور اسی گھر میں لوگ جناب مسلم ابن عقیل علیہ السلام سے ملنے اور ان کی بیعت کرنے آتے تھے۔
یہاں تک کہ 61 ہجری میں وہ وقت آیا تھا جب مسلم ابن عوسجہ میدان کربلا میں اپنے آقا امام حسین علیہ السلام پر یہ کہتے ہوئے قربان ہوگئے تھے:
“یا ابا عبد اللہ، کیا آپ ہمیں اپنی بیعت سے آزاد کر رہے ہیں؟ بارگاہ الہی میں ہم اپنے اس حق کی ادائیگی کے بارے میں کیا جواب دیں گے؟ ہم آپ کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے، کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ یہاں تک کہ میں اپنا نیزہ دشمنوں کے سینوں میں پیوست نہ کر دوں اور اس قدر شمشیر نہ چلا لوں کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ حتی کہ ہاتھ میں ہتھیار نہ ہونے کی صورت میں، میں دشمنوں پر پتھروں سے حملہ آور ہو جاوں گا۔
خدا کی قسم ! آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ خدا کے سامنے یہ ثابت نہ کردوں کہ میں نے آپ کے بارے میں حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاسداری کی ہے ۔
اللہ کی قسم ! اگر میں یہ جان لوں کہ میں قتل ہو جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر مجھے جلا کر خاکستر کردیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے گا تو پھر بھی میں کسی صورت میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا۔ یہاں تک کہ آپ کی نصرت میں شہادت کے درجے پر فائز ہو جاؤں۔ جب مجھے ایک بار زندگی ملی ہے تو میں کیوں نہ ایسا کروں؟ اس کے بعد ہمیشہ کیلئے خوشبختی اور کرامت ہے۔ “
یہ جملے مسلم ابن عوسجہ نے اس وقت کہے تھے جب شب عاشور امام حسین علیہ السلام نے چراغ بجھا دیا تھا اور اپنے ساتھیوں کو بیعت سے یہ کہتے ہوئے آزاد کردیا تھا کہ جسے جانا ہو وہ جا سکتا ہے، اس کی جنت کی ضمانت ہم دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہاشمیوں کے بعد جو شخص سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام محبت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسلم ابن عوسجہ الاسدی تھے۔
۔
جب جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام نے نے ہانی بن عروہ کی ابن زیاد ملعون کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد اپنے ساتھیوں کو منظم کیا تھا تو مذجح اور بنی اسد کی سالاری مسلم بن عوسجہ کے حوالے کی تھی۔ قیام جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کے دوران اور شہادت کے بعد جب کوفہ سخت ترین ناکہ بندی اور مارشل لاء کی لپیٹ میں تھا، ہزاروں لوگ اور سرکردہ شخصیات گرفتار کی جا چکی تھیں تو مسلم بن عوسجہ کچھ عرصہ کیلئے مخفی ہوگئے تھے اور بعد ازاں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ کربلا پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
بعض روایات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسلم بن عوسجہ کے اہل خانہ بھی کربلا میں موجود تھے ۔مورخین کے بقول خلف بن مسلم بن عوسجہ آپکا ہی بیٹا تھا جو اپنے والد کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوا۔تاریخ میں مذکور ہے کہ ایک جوان حضرت امام حسین ؑعلیہ السلام کی حمایت میں خیمہ سے باہر آیا تو اس کی والدہ بھی اس کے پیچھے آئیں۔ یہ نوجوان مسلم بن عوسجہ کا ہی بیٹا تھا۔
۔
مسلم ابن عوسجہ کا شمار کربلا کے اولین شہداء میں کیا جاتا ہے۔کربلا میں مبارزے کے دوران پڑھے گئے مسلم ابن عوسجہ کے یہ اشعار ان کی شجاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیھم السلام سے ان کی وفاداری اور محبت کا بھی ثبوت ہیں:
إن تسألوا عنی فإنی ذو لَبَد
و ان بیتی فی ذری بنی اسد
فمن بغانی حائد عن الرشد
و کافر بدین جبار صمد
” اگر میرے بارے میں سوال کرتے ہو تو میں وہی صاحب شجاعت شیر ہوں اور بنی اسد میرا قبیلہ ہے ۔جو بھی مجھ پہ ستم کرے گا وہ حق سے روگردان ہے اس نے خدائے بے نیاز سے کفر کیا ہے ۔”
روز عاشور مسلم ابن عوسجہ سے متعلق ایک اور واقعے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اصحاب امام حسین علیہ السلام نے خیام کی حفاطت کے پیش نظر خیام کی پشت پر ایک خندق کھود کر اس میں آگ روشن کردی تھی۔ شمر ملعون نے یہ آگ دیکھی تو امام حسین علیہ السلام کی شان میں جسارت کرتا ہوا بولا کہ کیا قیامت سے پہلے ہی آگ روشن کر لی گئی؟ امام حسین علیہ السلام نے شمر ملعون کی آواز پہچانتے ہوئے سورہ مریم کی سترویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے چرواہے کے بیٹے، تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے۔
کہتے ہیں مسلم بن عوسجہ نے اس وقت امام حسین علیہ السلام سے درخواست کی تھی کہ شمر ملعون ان کے نشانے پر ہے لہذا انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اسے تیر کا وار کرکے جہنم واصل کردیں۔ جس پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور فرزند امیر المومنین علیہ السلام کا جواب تھا:
“میں جنگ میں پہل نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت مارو۔ “
۔
روز عاشور جب مسلم ابن عوسجہ خون میں غلطان ہوکر گھوڑے سے زمین پر آئے تو امام حسین علیہ السلام اپنے دوست حبیب ابن مظاہر کے ہمراہ ان کے سرہانے پہنچے اور فرمایا اے مسلم، خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے سورہ احزاب کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:
“ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا، پھر ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے اور بعض منتظر ہیں اور عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ “
حبیب ابن مظاہر کا تعلق مسلم ابن عوسجہ کے قبیلے بنی اسد سے تھا۔ حبیب نے مسلم ابن عوسجہ کو مخاطب کرتے ہوئے غم سے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ اے مسلم تمہارا رخصت ہونا میرے لیے بہت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ اے مسلم، اگر تمہاری رخصت کا وقت اتنا قریب نہ ہوتا، تو میں خواہش کرتا کہ تم مجھے وصیت کرو تاکہ میں حق دینی اور رشتے داری ادا کر پاتا۔ یہ وہ مقام تھا جب مسلم ابن عوسجہ نے امام حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کیا اور کہا:
” اے حبیب، میں تمہیں امام حسین ؑعلیہ السلام کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے، تم مولا حسین علیہ السلام کا دفاع کرنا اور جب تک قتل نہ ہوجاو، ان کی مدد و حمایت سے پیچھے مت ہٹنا۔ “
حبیب کا جواب تھا:
” اے مسلم، میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں گا۔ “
واقعہ کربلا گواہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے حبیب نے مسلم ابن عوسجہ کی وصیت کو پورا کیا اور ایسا پورا کیا کہ آج تک امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ چھوڑا۔ حبیب ابن مظاہر کی ضریح ایسی جگہ بنی کہ جیسے حرم امام حسین علیہ السلام کا مجاور ہو۔
۔
تحریر کے آغاز میں، میں نے کربلا کے ہر کردار میں موجزن جذبات کی انفرادیت کا ذکر کیا۔ مسلم ابن عوسجہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ انفرادیت مجھے اس منظر میں دکھائی دی جب وقت رخصت امام حسین علیہ السلام اور حبیب ابن مظاہر ان کے سرہانے بیٹھے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کا مسلم ابن عوسجہ کیلئے آیت قرآن کی تلاوت کرنا، حبیب ابن مظاہر کا جنت کی بشارت دینا اور مسلم ابن عوسجہ کا حبیب کو وصیت کرنا۔ اس مختصر سے منظر میں وہ سب کچھ ہے جو ایک زندہ ضمیر کو اپیل کر سکے اور اسے باور کروا سکے کہ کربلا آسمانی حقیقتوں سے مزین وہ حقیقت ہے جو بیک وقت دلیل اور جذبات، دونوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
سوچتا ہوں کہ مسلم ابن عوسجہ کو شب عاشور کا وقت یاد آیا ہوگا جب انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی جانب سے بیعت اٹھانے اور چراغ بجھانے کے بعد ابا عبداللہ علیہ السلام سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلیے یہ عزم دہرایا تھا کہ وہ ستر بار قتل ہوں اور زندہ کیے جائیں، تب بھی امام حسین علیہ السلام سے جدا نہ ہونگے۔ خیال آتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اس باوفا ساتھی نے سوچا ہوگا کہ اگر دوبارہ زندگی مل جائے تو ایک بار پھر اپنے آقا و مولا پر قربان ہو جاوں گا۔