عزاداری

ایک بار میں نے مولانا پروفیسر ذوالفقار حسین نقوی اعلی اللہ مقامہ کے بارے میں ایک تحریر لکھی تھی جس میں اُن کے اندازِ بیاں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُن کی خاصیت اُن کی آواز اور مصائب بیان کرنے کا انداز ہے۔ ایامِ عزا کی شروع کی تاریخوں میں وہ عموما حبیب ابنِ مُظاہرؑ کے مصائب پڑھتے تھے۔ میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں کہ لوگ یہ مصائب سن کر ایسے رویا کرتے تھے جیسے اپنے کسی قریبی دوست کو تصور کر کے رورہے ہوں۔ مولانا جتنی بار اپنی بھرائی ہوئی آواز میں امام حسینؑ اور حبیبؑ کا نام ایک ساتھ لیتے، مجمع اُتنی بار ایک سی شدت سے گریہ کرتا۔
۔
کراچی کا ایک معروف نوحہ خوان ہے، سید عرفان حیدر۔ کچھ برس پہلے اُس نے حبیب ابنِ مُظاہرؑ کے حال کا ایک نوحہ پڑھا تھا۔ اِس نوحے کی خاصیت اِس کی شاعری میں موجود کسی گہرے دوست کیلئے استعمال ہونے والا لہجہ اور اُس لہجے سے میل کھاتی ہوئی نوحے کی طرز تھی۔ نوحے کے پہلے دو مصرعے سُن کر ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ کسی ایسے شخص کا تذکرہ ہے جو امام حسینؑ کا بہت گہرا دوست ہے۔
۔
“میرے حبیبؑ اے میرے دوست، اے میری آنکھوں کے چین
حبیبؑ تم پر، سلامِ حسینؑ ”
۔
حبیبؑ ابنِ مظاہر الاسدیؑ کوئی عام شخصیت نہ تھے۔ وہ جنگ صفین، جمل و نہروان میں امام علیؑ کی فرنٹ لائین کے سپاہی تھے۔ اِس فرنٹ لائین میں مسلم بن عوسجہؑ الاسدی، مالک اشترؑ، عمار بن یاسرؑ، مقدادؑ، میثم تمارؑ، مسلم ابن عقیلؑ اور امام حسنؑ و حسینؑ موجود رہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کربلا میں امام حسینؑ نے قلبِ لشکر ابوالفضل العباسؑ کے سپرد کیا اور دائیاں حصہ مسلم ابن عوسجہؑ کے حوالے کیا۔ کسی نے سوال پوچھا کہ مولاؑ، لشکر کا بایاں حصہ کون سنبھالے گا تو جواب دیا کہ میں نے خط بھیج دیا ہے، وہ آتا ہی ہوگا۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ مولا حسینؑ کے دوست حبیب ابن مظاہر تھے۔
۔
علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب حدیثِ کربلا میں کوفہ سے امام حسینؑ کو لکھے جانے والے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے چند خطوط کے متن بھی نقل کیے ہیں۔ ان میں سے چند خطوط کے متن پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خط لکھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو یزید کی آمریت اور اُس سے نجات حاصل کرنے کیلئے امام حسینؑ کی حمایت میں اُن کا ساتھ دینے پر آمادہ تھے، اسے سیاسی حمایتی کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ ایک خط حبیب ابن مظاہرؑ کا بھی تھا جس کے آغاز سے ہی یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کسی ایسے محبِ اہلیبیتؑ کا خط ہے جو امام حسینؑ کو بطور امامؑ کوفہ آنے کی دعوت دے رہا ہے۔
اور پھر ایک خط امام حسینؑ نے کربلا سے حبیب ابن مظاہر کر بھجوایا جس میں حبیبؑ کو فقیہ کہہ کر مخاطب کیا، دشمنوں میں گھر جانے کا ذکر کیا اور کربلا پہنچنے کا پیغام دیا۔ کوفہ کی ناکہ بندی کے باعث حبیبؑ نے کوفہ سے نکلنے کیلئے رات کے وقت کا انتخاب کیا اپنے غلام کو تاکید کی کہ وہ فلاں جگہ گھوڑے کے ہمراہ موجود رہے۔ مصائب کے تذکرے میں ملتا ہے کہ جب رات کے وقت حبیبؑ اُس جگہ پہنچے تو غلام کو گھوڑے سے یہ کہتے سنا کہ تم پریشان مت ہو، اگر حبیبؑ نہ آسکے تو میں کربلا جاوں گا اور نواسہ رسولؑ کی نصرت کروں گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حبیبؑ اور اُن کا غلام، دونوں کربلا پہنچ گئے تھے۔ کچھ روایتوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ حبیبؑ امام حسینؑ کی اجازت سے اپنے قبیلہ بنی اسد کے لوگوں کے پاس گئے تھے تاکہ مزید لوگ نصرت کیلئے کربلا لاسکیں۔ تقریبا سترہ یا اس سے زیادہ لوگ اُن کے ساتھ کربلا پہنچے تھے لیکن عمر ابن سعد ملعون نے اُنہیں لشکر میں شامل نہ ہونے دیا اور یہ واپس کوفہ چلے گئے۔
۔
حبیب ابن مظاہر پر دو سلام ایسے بھیجے گئے ہیں جن کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہئے۔ ایک سلام وہ جو سیدہ زینبؑ نے حبیبؑ کے کربلا پہنچنے پر فضہ کے ذرئعے بھجوایا۔ یہ وہ سلام تھا جسے سُن کر حبیبؑ روتے ہوئے زمینِ کربلا پر بیٹھ گئےتھے اور ریت اپنے چہرے پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ بنتِ علیؑ اور مجھے سلام؟ اور ایک سلام وہ جو زیارتِ ناحیہ میں امامِ زمانہؑ نے “اسلام علیک یا حبیب ابن مظاہرؑ” کہہ کر بھیجا۔ پھر ایک سلام وہ بھی تھا جو “علیک مِنی سلام” کہہ کر حبیبؑ نے امام حسینؑ پر اُس وقت بھیجا جب وہ گھوڑے سے نیچے گرے۔ مجالس میں سنتا آیا ہوں کہ امام حسینؑ نے اپنے دوست کے دنیا سے رخصت ہونے پر اُس کے سرہانے بیٹھ کر کچھ ایسے الفاظ میں اُسے یاد کیا تھا”
” تم سے خدا راضی ہو اے حبیبؑ، تم ایک رات میں مکمل قران کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ “
ایک سلام کا تذکرہ اور بھی ملتا ہے۔ جب شہیدانِ کربلا کے سر کوفہ لیجائے گئے تو حبیب ابن مُظاہرؑ کے بیٹے نے اپنے باپ کا سر پہچان کر اپنی والدہ کو خبر دی۔ یہ خبر سُن کر حبیبؑ کی زوجہ نے اپنا رُخ مدینے کی طرف کیا اور کہا
“اسلام علیک یا فاطمہ الزہراؑ”۔
۔
واقعہ کربلا کے بعد تیرہ محرم کو تمام شہداء کی تدفین امام سجادؑ نے کروائی تھی، کس شہید کو کہاں دفن کیا جائے، اس کا تعین بھی اُنہوں نے ہی کیا تھا۔ مولا ابوالفضل العباسؑ کی قبرِ مطہر اور امام حسینؑ کی قبرِ مطہر کے درمیان فاصلہ بالکل اتنا ہی ہے جتنا صفا اور مروہ کے درمیان۔ جملہ شہیدانِ کربلا امام حسینؑ کی ضریح کے بالکل سامنے گنجِ شہیداں میں مدفون ہیں۔ لیکن حبیب ابن مظاہرؑ وہ واحد شہید ہیں جن کی قبر امام سجادؑ نے الگ بنوائی۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی ضریح اور قتل گاہِ امام حسینؑ کے درمیان میں واقع ہے۔ ہر زائر جب زیارتِ امام حسینؑ کیلئے آتا ہے اور جب زیارت کرکے واپس جاتا ہے، دونوں بار حبیبؑ کی ضریح کی زیارت بھی کرکے جاتا ہے۔ اُس حبیبؑ کی زیارت جو مولا حسینؑ کے بہترین حبیب تھے۔
۔
حبیب ابن مظاہرؑ کی ضریح کی قربت میں بہت سکون ملتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ وہاں کچھ دیر بیٹھے رہیں۔ میں بھی وہاں کافی دیر بیٹھا رہا تھا۔ نظر بار بار ضریح پر لکھے ہوئے نام “حبیب ابنِ مُظاہر الاسدیؑ” پر پڑتی جاتی تھی۔ عجیب کشش تھی اس نام میں اور اُس جگہ میں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اُن کی ضریح کے سامنے موجود دروازے پر جس کا نام لکھ دیا جائے، اُسے جلد ہی کربلا کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ شاید میں نے بھی کچھ نام لکھے تھے۔ جو لوگ عاشورہ پر کربلا میں ہوں، وہ میرا نام ضرور لکھ دیں۔
۔
“حبیبؑ تم پر سلامِ حسینؑ”