جون بن حوی از نور درویش
لاہور بی بی پاکدامن کے عقبی علاقے میں سید تجمل عباس صاحب کا گھر تھا جسے علیؑ مسکن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ایک راستہ ریلوے ہیڈ کوارٹر کے اندر سے ایک تنگ سی گلی سے بھی یہاں نکلتا تھا۔ تجمل عباس صاحب سرگودھا کے کمشنر ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے لاتعداد قابل شیعوں کی طرح وہ بھی شہید کردئے گئے تھے۔
یہاں محرم کے عشرہ اولی میں شام کے وقت مرحوم پروفیسر سجاد رضوی مجلس پڑھا کرتے تھے۔ اس کے فورا بعد گلستان زہراؑ ایبٹ روڈ میں مجلس کا آغاز ہوتا تھا اور علی مسکن سے بہت سے لوگ گلستان زہراؑ چلے جایا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب ماہرِ تعلیم تھے، عربی و فارسی پر عبور حاصل تھا اور غالبا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے چئیرمین بھی رہے تھے۔ اُن کی مجلس ایک لیکچر کی مانند ہوا کرتی تھی۔ بے انتہا دھیمے لہجے میں شستہ اُردو میں بات کیا کرتے تھے۔ میری عمر اتنی زیادہ نہ تھی کہ اُن کے دقیق نکات سمجھ پاتا، اس لئے اپنے دادا مرحوم یا والد صاحب کے ہمراہ بس اس لالچ میں علی مسکن جایا کرتا تھا کہ مجلس کے بعد وہاں بیکری کے بہت ہی لذیذ بسکٹ، کیک بمعہ سبز چائے بطور تبرک ملا کرتے تھے۔ مجلس کے بعد لوگ وہیں گھر کے لان مں بیٹھ کر چائے اور بسکٹ کھایا کرتے تھے۔
میری بدقسمتی کہ میں اتنا بڑا نہیں تھا کہ پروفیسر صاحب کی مجالس سے زیادہ استفادہ کرسکتا البتہ تبرک کی لالچ میں اکثر وہاں ضرور جایا کرتا تھا۔ بس اسی لالچ کی وجہ سے پروفیسر صاحب کی پڑھی ہوئی چند مجالس میرے شعور میں ہمیشہ کیلئے بیٹھ گئیں۔ ان میں سے ایک مجلس وہب کلبی کے بارے میں تھی اور ایک مجلس کربلا کے منور و معطر شہید، جون بن حویؑ کے بارے میں۔
میری بڑی بہن بھی اکثر علی مسکن جایا کرتی تھی اور اکثر میری والدہ کو بتایا کرتی تھی کہ پروفیسر سجاد رضوی مصائب بھی یوں بیان کرتے ہیں جیسے لیکچر دے رہے ہوں اور ایسے ہی اُنہیں سنتے ہوئے بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ جونؑ کی مجلس میں میں نے پہلی بار اپنے اطراف پر غور کیا تو واقعی سننے والوں کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔
جونؑ کے مصائب میں نے سب سے پہلے پروفیسر سجاد رضوی سے سنے۔ مجھے مکمل مجلس تو یاد نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ میں نے اُن کی مجلس پہلی بار اُسی دن غور سے سنی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انہوں نے وہ منظر بیان کیا تھا جب جون کا سر تھا امام حسین علیہ السلام کا زانو تھا۔
آج جب جب جونؑ کے مصائب سنتا ہوں تو پروفیسر سجار رضوی ضرور یاد آتے ہیں۔
۔
کورس کی کتابوں میں ہم نے ہجرتِ حبشہ کا تذکرہ پڑھ رکھا ہے، مکہ میں مسلمانوں پر بڑھتی سختیوں کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے ایک گروپ کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا اور وہاں کے مسیحی حکمران نجاشی کے نام ایک پیغام بھی بھیجا تھا۔ حبشہ دو بار ہجرت کی گئی تھی۔ تاریخ کے مطابق پہلے تو ہجرت کرنے والوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تھی اور پھر بعد ازاں حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) میں نجاشی کو مہاجرین سے متعلق بہکانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ کوششیں کرنے والا عمر بن العاص تھا۔ البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے مقرر کردہ مہاجرین کے سرپرست جنابِ جعفر طیار بن ابوطالبؑ اور نجاشی کے مکالمے کے بعد نہ صرف نجاشی نے مہاجرین کو حبشہ میں سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی بلکہ اُنہیں کشادہ دلی کے ساتھ خوش آمید بھی کہا۔ ایک مسیحی حکمران کا مسلمان مہاجرین پر یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہئے، اگرچہ نجاشی بعد ازاں مسلمان ہوگیا تھا۔
۔
یہ اسی ہجرت کا نتیجہ تھا کہ افریقہ میں اسلام متعارف ہوا اور پھیلا۔ جون بن حویؑ کا تعلق بھی اسی خطے سے تھا جنہوں نے اسلام قبول کیا اور پھر بعد ازاں مدینہ آگئے۔ یہاں سے جونؑ کے مناقب کا آغاز ہوتا ہے۔
چونکہ اُس دور میں غلاموں کی خرید و فروخت رائج تھی لہذا جونؑ کو مدینہ آنے پر فضل بن عباس نے خریدا اور پھر امام علیؑ نے جونؑ کو اُن سے خرید لیا۔ امام علیؑ یقینا آگاہ تھے کہ جونؑ کوئی عام انسان نہیں ہے، وہ جونؑ کے قلب کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے اُنہوں نے میثمِ تمارؑ کے قلب کو دیکھا تھا۔
بعد ازاں امام علیؑ نے جونؑ کو ابوذر غفاریؑ کے سپرد کردیا اور تاریخ کے مطابق یہاں سے جونؑ اور ابوذر غفاریؑ کی بہترین دوستی کا آغاز ہوا۔ امام علیؑ کے ساتھ گزرے وقت کی وجہ سے امام حسنؑ و امام حسینؑ کے ساتھ تو جونؑ کی قلبی وابستگی پہلے ہی قائم ہوچکی تھی، ابوذر غفاریؑ کا ساتھ ملنے پر محمد و آل محمدؑ سے وابستگی مزید مضبوط ہوتی چلی گئی۔ وہ ابوذر غفاریؑ کہ جن کے تقوے کو موازنہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عیسیؑ کے تقوے سے کیا۔
۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ واقعہ کربلا کا ہی اعجاز ہے جو ہم قاتلین امام حسینؑ کے ساتھ ساتھ دشمنانِ آلِ محمدؑ سے بھی کھل کر اظہارِ بیزاری کرسکتے ہیں وگرنہ واقعہ کربلا سے پہلے کی تاریخِ اسلام میں کہیں مصلحت کے پہرے ہیں اور کہیں جبر کے۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ امام حسینؑ نے کربلا میں چھپے ہوئے کرداروں کو بے نقاب کیا۔ آج چہار جانب بکھرے ہوئے ناصبیوں کو دیکھتا ہوں تو دل سے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام ہمیں ایک پیمانہ دے گئے، مظلوم سے محبت اور ظالم سے اظہار برائت کرنے کا۔
یہ سب مجھے ابوذر غفاریؑ کا نام لکھتے ہوئے یاد آگیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس عظیم المرتبت صحابی رسول ص نے کیسا ظلم سہا اور کس عالم میں دنیا سے رخصت ہوا۔ ہم شیعہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم شہید ربذہ ابو ذر غفاری رض جیسے جلیل القدر اصحاب رسول ص کے نوکر ہیں اور ان کے دشمنوں اور قاتلوں سے اظہار برات کرتے ہیں۔
۔
جونؑ اور ابوذر غفاریؑ کو ایک ساتھ جلاطن کرکے شام بھیجا گیا تھا، اس کی وجہ تاریخ میں درج ہے۔ کہتے ہیں کہ شام میں بھی ان دونوں نے مل کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا تھا، اختیارات و وسائل کے غلط استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں وہاں سے بھی جلا وطن کرکے جنوبی لبنان کے علاقے جبل الآمل بھیج دیا گیا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ابوذر غفاریؑ نے جون بن حوی کے ساتھ مل کر علومِ آلِ محمدؑ کی ایسی تبلیغ کی آنے والے زمانوں میں اس علاقے سے وہ جید علماء نکلے جن کے ناموں کے ساتھ اس علاقے کی نسبت سے لگا “الآملی” کا لفظ اپنا تعارف خود ہر دور میں کرواتا رہا۔ جیسے کہ علامہ حُر االآملیؒ ۔ یہ علاقہ اب بھی محبانِ آلِ محمدؑ کا مرکز ہے۔
۔
ابوذرؑ و جونؑ کو یہاں سے بھی جلاوطن کیا گیا اور مکہ و مدینہ کے درمیان صحرا میں بغیر پانی و خوراک کے چھوڑ دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں صحابی رسول ص تھے۔ ابوذرغفاریؑ اسی صحرا میں شہید ہوگئے، جن کی تدفین خبر ملنے پر امام علیؑ نے کی جبکہ جونؑ بن حویؑ زندہ رہے۔
۔
اس کے بعد جونؑ کا اگلا تذکرہ اُس وقت ملتا ہے جب امام حسینؑ کوفہ جانے کیلئے مدینہ چھوڑ رہے تھے۔ جونؑ کی عمر ستر برس ہوچکی ہے، کمر جھک چکی ہے لیکن وہ امام حسینؑ کے حضور پیش ہوکر اُن کے ساتھ کوفہ جانے کی درخواست کرتے ہیں۔ امام حسینؑ نے جواب دیا کہ جونؑ تم نے پہلے ہی آلِ محمدؑ کی بہت خدمت کرلی ہے، اب خود کو تکلیف مت دو۔ یہ وہ مقام تھا جہاں جونؑ نے وہ جملہ کہا کہ جسے سن کر امام حسینؑ نے آگے بڑھ کر اُن کی پیشانی کا بوسہ لیا اور سینے سے لگا لیا۔ جونؑ نے بس اتنا کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے اس لئے نہیں لیجانا چاہتے کیوں کہ میں سیاہ فام ہوں۔
۔
جونؑ قافلہ حسینیؑ کہ ہمراہ کوفہ کی بجائے کربلا پہنچ گئے تھے اور پھر وہ رات آئی جب امام حسینؑ نے چراغ بجھا کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو جانا چاہتا ہے، وہ جاسکتا ہے۔ تمہاری جنت کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ جب چراغ دوبارہ جلایا گیا تو امامؑ نے ہر ساتھی کو اپنی جگہ پر پایا، جیسے وہ شہادت کیلئے مکمل آمادہ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ امامؑ نے فرمایا تھا کہ جیسے ناصرین مجھے ملے، ویسے کسی اور کو نہ ملے۔
جونؑ کو جنگ کرنے کی اجازت ملی اور اس ضعیف العمری میں، اِس صحابی رسولؑ نے ، امام علیؑ کے غلام اور ابوذر غفاریؑ کے بہترین دوست نے 25 یزیدیوں کو جہنم واصل کیا۔ جنگ شروع کرنے سے پہلے جونؑ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے چند اشعار بھی پڑھے تھے جن میں لشکر یزید کو لشکر کفار کہہ کر مخطاب کیا تھا اور للکار کر کہا تھا کہ کیا تم اس سیاہ فام شخص کی تلوار کا اثر دیکھنا چاہتے ہو؟
بلاخر جونؑ بھی گھوڑے سے زمین پر آئے اور اپنی اُس خواہش کے مطابق شہید ہوئے کہ یا ابا عبداللہؑ، میں چاہتا ہوں کہ میرا خون بھی آپ کے خونِ اطہر کے ساتھ شامل ہوجائے۔ امام حسینؑ جونؑ کے پاس پہنچے، جون کا سر اپنے زانو پر رکھا اور جونؑ کا چہرہ تھام کر یہ تاریخی دعا کی:
“اَللّهُمَّ بَیِّض وَجهَهُ وَ طَیِّب ریحَهُ وَ احشُرهُ مَعَ الأبرارِ وَ عَرِّف بَینَهُ و بَینَ مُحمدٍ و آلِ مُحمدٍ”
پروردگار…اس کا چہرہ منور کردے اور ان کی بو کو خوشبو میں بدل دے، انہیں نیکوکاروں کیساتھ محشور فرما اورانہیں محمد وآل محمد کے درمیان باحیثیت بنادے۔
اکبر ع کا جہاں سر ہے وہیں جون کا سر ہے
شبیر ع کا زانو ہے مساوات کی دنیا
جون بن حویؑ ضریحؑ امام حسینؑ کے قریب گنجِ شہیداں میں مدفون ہیں۔ اُن کا نام زیارت ناحیہ میں ابوذر غفاریؑ کے ساتھ بالکل اُسی طرح آیا ہے جیسے اُن کا ساتھ ابوذرغفاریؑ کے ساتھ رہا۔
” اَلسَّلَامُ عَلَى جَوْنٍ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ”
حُر بن یزید الریاحیؑ کی طرح جون بن حویؑ جیسا کردار ایک بار پھر کربلا کے طاقتور جذباتی، باطنی اور روحانی پہلو کا اظہار کرتا نظر آتا ہے جو کربلا کو چند ظاہری پہلووں میں پرکھنے والے بدقستموں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ یہ کربلا نہ حادثہ ہے، نہ سیاسی مسئلہ، نہ دو خاندانوں کی جنگ اور نہ اقتدار کی جنگ۔ یہ امام حسینؑ کا سجایا ہوا وہ معیارِ حق و باطل ہے کہ جس کا ہر کردار امام حسینؑ نے اس سلیقے سے تیار کیا ہے کہ وہ آنے والے ہر دور میں انسانی دلوں کو پوری قوت سے اپیل کرتا رہے گا۔ یقین نہ ہو تو غور کر لیجئے، کون کون کہہ رہا ہے کہ “ہمارے ہیں حسینؑ”۔
۔
وہ کیسا منظر ہوگا جب مدینہ چھوڑنے سے قبل ایک ٧٠ سالہ ضعیف سیاہ فام شخص نے امام حسین علیہ السلام سے درخواست کی ہوگی کہ وہ بھی ان کے ہمراہ کوفہ جانا چاہتا ہے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے اس شخص سے کہا ہوگا کہ آپ نے اہلیبیت علیھم السلام کی بہت خدمت کرلی اب آرام کیجئے۔ جب اس سیاہ فام شخص نے بھرائی آواز میں کہا ہوگا کہ جانتا ہوں آپ مجھے کیوں اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے، اس لیے کہ میں سیاہ فام ہوں۔ اور جب امام حسین علیہ السلام نے آگے بڑھ کر اس ستر سالہ شخص کی پیشانی کا بوسہ لیکر اسے سینے سے لگایا ہوگا۔ میرا دل کہتا ہے کہ دیکھنے والوں کو حسینؑ کے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بلال رض کی یاد آگئی ہوگی۔
۔
آپ جون بن حویؑ کی عظمت دیکھیے۔ حبشہ میں مسلمان ہوئے، ہجرت کرکے رسولِ خداؐ کی خدمت میں مدینہ آئے، امام علیؑ کے ساتھ رہے اور ابوذرؑ کی ہمراہی میں شام اور جبل الامل سے ہوتے ہوئے ساٹھ ھجری میں دوبارہ امام حسینؑ کے سامنے اس انداز سے آکھڑے ہوئے کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ میرا آقا ابوذرؑ تو شہید ہوچکے، میں یقینا اسی لیے زندہ ہوں کہ آپ کے ساتھ شہید ہوسکوں۔
یہ ستر سالہ بوڑھا جب گھوڑے سے گرا تھا تو اپنے سر کو امام حسینؑ کے زانو پر پایا تھا۔ وہ جونؑ جس نے مدینہ میں امام حسینؑ سے شکوہ کیا تھا کہ شاید آپ مجھے اس لیے نہیں لے جانا چاہتے تھے کہ میں سیاہ فام ہوں، میرے پسینے سے بدبو آتی ہے، اُسی جونؑ نے اپنا سر زانوئے حسینؑ پر پایا۔ خدا جانے یہ منطر دیکھ کر بھی کسی کو حسینؑ کے نانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بلال رض یاد آئے ہونگے یا نہیں؟
۔
ضریح امام حسینؑ کے بالکل سامنے، گنج شہیداںؑ میں مدفوں جون بن حویؑ، حُر بن یزید الریاحیؑ کی طرح کربلا کا وہ منفرد و لازوال کردار ہے جو کربلا کو حادثہ اور اقتدار کی جنگ کہنے والے ناصبیوں کو تاحشر جواب دیتا رہے گا کہ یہ حق و باطل کا وہ آفاقی معرکہ ہے جس میں اپنا نام شامل کروانے کیلئے میں نے حبشہ سے کربلا ہجرت کی۔
۔
جون بن حویؑ سے میرا پہلا تعارف مرحوم پروفیسر سجاد رضوی نے اُس مجلس میں کروایا جس میں میں ہمیشہ تبرک کی لالچ میں جاتا تھا۔ آج اتنے برس گزرنے کے بعد میں کوئی بڑا دعوی تو نہیں کرتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں علی مسکن کے تبرک کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ آج اتنے برس گزرنے کے بعد جونؑ کی بارگاہ میں یہ تحریر ہدیہ کرسکوں۔ یہ وہ اصل تبرک تھا جو دراصل علی مسکن سے مجھے ملا۔
پروردگار پروفیسر سجاد رضوی اور شہید تجمل عباس کے درجات بلند فرمائے۔