دس محرم سے لیکر تیرہ محرم تک امام حسینؑ، آپ کی اولاد، بھائی، اعوان و انصار کے اجسامِ مطہر زمینِ کربلا پر بے گور و کفن بکھرے ہوئے تھے۔ تیرہ محرم کو قبیلہ بنی اسد کی خواتین بیلچے لیکر یہاں پہنچیں اور پھر مرد تاکہ شہداء کی تدفین کر سکیں۔ لیکن اِن میں سے کوئی بھی نہ جانتا تھا کہ کون سا جسم، کس شہید کا ہے، چونکہ کسی بھی جسم پر اُس کا سر موجود نہ تھا۔ اس موقع پر امام علی بن حسینؑ کی اعجازِ امامت سے میدانِ کربلا میں آمد ہوتی ہے اور وہ قبیلہ بنی اسد کے ان لوگوں کی تدفین کیلئے رہنمائی کرتے ہیں۔
۔
شہدائے کربلا میں اکثریت اہلِ کوفہ کی تھی جن میں سرفہرست نام حبیب ابنِ مظاہرؑ اور مسلم ابن عوسجہؑ کا تھا۔ یہ دونوں قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے، امام علیؑ کے باوفا اصحاب تھے، دونوں صفین، جمل اور نہروان میں امام علیؑ کے لشکر میں موجود تھے۔ کوئی “صحابہ دے نوکروں” کو یاد دلادے کہ اِن اصحابِ رسولؐ کے سربریدہ جسم، بے گوروکفن کربلا کے میدان میں پڑے تھے۔ قتل کرنے والے وہی تھے جنہوں نے صفین میں عمار بن یاسرؑ کو قتل کیا تھا۔ مسلم بن عوسجہ الاسدیؑ کا جواں بیٹا بھی اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہوا تھا۔
۔
امام زین العابدینؑ نے سب سے پہلی قبر حبیب ابن مظاہر الاسدیؑ کی بنوائی۔ یہ امام حسینؑ کے اِس بہترین دوست اور باوفا ساتھی کی عظمت کی دلیل ہے کہ امامِ وقت، اس کی قبر دیگر شہداء سے الگ بنوا رہا ہے۔ آج حرمِ امام حسینؑ میں حبیب ابنِ مظاہرؑ کی قبرِ مطہر، امام حسینؑ کے روضہ مبارک کی مجاور نظر آتی ہے۔ کربلا آنے کے خواہشمند اپنا نام لکھ کر حبیب ابنِ مظاہرؑ کی ضریح میں ڈلوانا چاہتے ہیں۔
گنج شہیداں میں ایک قبر میں ھاشمیوں کو دفن کیا گیا اور ایک قبر میں امام حسینؑ کے دیگر اعوان و انصار کو۔ امام حسینؑ کی تدفین، امام زین العابدینؑ نے اپنے ہاتھوں سے کی۔ بعض مجالس میں سنا ہے کہ تعویذِ قبر بند کرنے کے بعد اُس پر یہ عبارت لکھ دی تھی:
“یہ حسین ابن علیؑ کی قبر ہے، جسے لوگوں نے وطن سے دور پیاسا قتل کیا۔”
روایات میں موجود ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے بابا ع کے سربریدہ جسم مطھر کو سینے سے لگایا تھا، حلقوم مبارک کا بوسہ لیا تھا اور شدت سے گریہ فرمائے ہوئے یہ کہا تھا:
“بابا ؑ آپ کے بعد یہ دنیا اندھیری ہے۔ “
۔
امام حسینؑ کے جسمِ مطھر کی تدفین کی بعد امام سجادؑ نے مولا ابوالفضل العباسؑ کی تدفین انجام دی۔ کہتے ہیں کہ مولا عباسؑ دراز قامت تھے۔ گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو زانو گھوڑے کی گردن تک پہنچتے تھے لیکن آپ کی قبر اس قدر چھوٹی تھی جیسے کسی بچے کی قبر ہوتی ہے۔ مجھ میں وجہ لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ اُس عباس علمدارؑ کی قبر تھی جس کا نام جب جب امام زین العابدینؑ کے سامنے لیا جاتا، وہ تعظیم میں کھڑے ہوجایا کرتے۔ اس قبر کا امام حسینؑ کی قبر سے اتنا ہی فاصلہ ہے جنا صفا اور مروہ کا درمیانی فاصلہ۔
۔
تیرہ محرم اکسٹھ ھجری میں میدانِ کربلا میں ہوئی اس تدفین کی یاد قبیلہ بنی اسد کے مرد خواتین آج بھی ہر سال تیرہ محرم کو مناتے ہیں۔ گریہ و ماتم کرتے ہوئے قبیلہ بنی اسد کے لوگوں کا اژدہام جلوس کی صورت بین الحرمین میں داخل ہوتا ہے اور اُس دن کی یاد دلاتا ہے جب ان کے اجداد نے کربلا میں امام حسینؑ، مولا عباسؑ اور جمیع شہدائے کربلاؑ کے اجسام مطھر کی تدفین کی تھی۔
صدام حسین نے اس جلوس پر سنہ 1975 میں پابندی عائد کردی تھی جو اُس کے جابرانہ عہد کے خاتمے کے بعد سنہ 2004 میں دوبارہ اُسی انداز سے برآمد ہونا شروع ہوا، جیسے ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ میں جب جب اس بارے میں سنتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو ایک سوال ضرور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آیا صدام حسین نے بنی اسد کے جلوس پر پابندی اس لیے عائد کی تھی کہ یہ شیعہ ہیں، یا اس وجہ سے عائد کی تھی انہوں نے نواسہ رسولؐ اور شہدائے کربلا کے بے گوروکفن لاشوں کو دفنایا تھا؟ یا اس لیے کہ یہ لوگ اُس قبیلے کے وارث ہیں جو اکسٹھ ھجری میں ہوئے اُس ظلم کا شاہد ہے؟
۔
کربلا کی ایک تاریخ وہ ہے جو ہم تک کتابوں کے ذرئعے پہنچی، یہ بھی یاد رہے کہ بہت سی کتب ضائع ہوچکیں۔ کوئی سفاک دل دشمن اہل بیت علیھم السلام کتب میں درج اس تاریخ کو جھٹلا کر لشکر شام کی سفاکیت پر پردہ ڈال سکتا ہے لیکن ایک تاریخ وہ بھی ہے جو سینہ در سینہ ہم تک پہنچی۔ ناصبیت زدہ اذہان مقتل حسینؑ کی کتابوں کو تو جھٹلا سکتے ہیں لیکن اُس قبیلے کے وارثوں کو کیسے جھٹلائیں گے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اُن سربریدہ لاشوں کو دفنایا، سبطِ رسول اللہؐ کو خاک و خون میں نہایا ہوا پایا اور اُن پاک و مطھر اجسام سے تازہ خون بہتے ہوئے دیکھا؟
۔
ہر برس تیرہ محرم کو بنی اسد کے لوگوں کے آنسووں سے تر چہروں پر کرب کے آثار دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے سینوں میں تیرہ محرم اکسٹھ ھجری کا دن آج تک زندہ ہے۔ یہ لوگ گریہ کرتے ہوئے اپنے قبیلے کے فخر حبیب ابن مظاہر الاسدیؑ کو بھی یاد کرتے ہونگے اور مسلم ابن عوسجہؑ اور اُن کے بیٹے کو بھی۔ انہیں یقینا مسلم ابن عوسجہؑ کا یہ عارفانہ شعر بھی یاد آتا ہوگا جو انہوں نے کربلا میں پڑھا تھا:
” اگر میرے بارے میں سوال کرتے ہو تو میں وہی صاحب شجاعت شیر ہوں اور بنی اسد میرا قبیلہ ہے۔
جو بھی مجھ پر ستم کرے گا، وہ حق سے روگردان ہے، اس نے خدائے بے نیاز سے کفر کیا ہے۔ “
۔
لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں لیکن اپنے آباو اجداد کے قابلِ ذکر اور قابل فخر تخصصات کو یاد رکھتے ہیں۔ سینہ در سینہ اپنے خاندان کی تاریخ کو منتقل کرتے جاتے ہیں۔ راجپوت اپنے اجداد کے کارناموں کا یاد رکھتے ہیں۔ مغل اپنے اجداد کو یاد رکھتے ہیں۔ اسی طرح قبیلہ بنی اسد کے لوگ کربلا میں ہوئے ظلم کے عینی شاہد ہیں۔ یہ صدیوں سے تیرہ محرم کو اُن سربریدہ جسموں کی تدفین کی یاد مناتے آئے ہیں جنہیں ان کے آباواجداد نے امام زین العابدینؑ کی زیرِ نگرانی دفن کیا تھا۔
بدبخت ناصبی اور نام نہاد لبرل و ملحد، کُتبِ مقتل کو جھٹلا دیں، چاہیں تو واقعہ کربلا کو ہی جھٹلا دیں لیکن قبیلہ بنی اسد کے ان ہزاروں لوگوں کو کیسے جھٹلائیں گے جن کے بزرگوں نے سبطِ پیغمبرؐ کا سربریدہ جسم دیکھا۔ ہر عصر عاشور، سرخ ہوجانے والی کربلا کی اُس خاک کو کیسے جھٹلاینگے جہاں امام حسینؑ کا مطھر خون گرا؟
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے۔۔!