تذکرہِ اہل بیتؑ

صفین میں امام علیؑ نے ایک گیارہ سال کے کم سن کے چہرے پر نقاب ڈال کر میدان میں سات سورماوں کا مقابلہ کرنے بھیجا، یہ ساتوں اس کم سن کی تلوار سے جہنم واصل ہوئے۔ یہ دیکھ کر ایک باغی نے سوال پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس کم سن نے جواب دیا کہ مجھے قمر بنی ہاشمؑ کہتے ہیں۔ پوچھنے والے نے تعجب سے سوال پوچھا کہ قمر بنی ہاشمؑ تو حسنؑ اور حسینؑ ہیں، تم کون ہو؟ جس پر اس کم سن نے جواب دیا کہ حسنؑ اور حسینؑ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں اور میں علیؑ کا بیٹا۔ حسنؑ اور حسینؑ آنکھیں ہیں اور میں ہاتھ ہوں۔ اور ہاتھ کا کام آنکھوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔

جنگ صفین کے یہ کم سن، مولا ابوالفضل العباسؑ تھے۔

جن کی صفین کی ہیبت کربلا تک باقی رہی۔ بس فرق اتنا ہے کہ صفین میں جنگ کی اجازت ملی تھی اور کربلا میں صرف پانی لانے کی۔ صفین میں بھی مقابل آنے والے شام کے باغی تھے اور کربلا میں بھی ایک بار پھر یہی باغی مقابل آئے۔ صفین میں امام علیؑ سے جنگ کرکے اور عمار بن یاسرؑ جیسے صحابیوں سمیت بدری صحابہ کو قتل کرکے بنص حدیثِ رسولؑ باغی کہلائے۔ جبکہ کربلا میں خانوادہ رسالت کو قتل کرکے رہتی دنیا تک کیلئے ملعون قرار پائے۔ صفین کے بعد ان باغیوں پر اجتہادی خطاء کا غلاف ڈالا گیا تھا، امام حسینؑ نے کربلا میں یہ غلاف چاک کر ڈالا۔
۔
صفین میں گیارہ سالہ کم سن مولا ابوالفضلؑ نے باغیوں کے سامنے خود کو علیؑ کا بیٹا اور حسنینؑ کو محمدؐ کا بیٹا کہہ کر آنے والے وقتوں کے تمام باغیوں کیلئے پیغام دیدیا تھا کہ ہمارے مقابل آنے والا محمدؐ اور علیؑ، دونوں کا دشمن ہے اور جو ان دونوں کا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے۔ آج چودہ سو برس گزرنے کے بعد جب ہم کربلا کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں صفین کا ذکر بھی ضرور کرنا چاہئے کیوں کہ صفین کربلا کا پیش لفظ ہے، صلح حسنؑ اس کا مقدمہ اور کربلا مکمل کتاب یعنی مضمونِ کتاب۔
۔
علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ سرکار ابوالفضل علیہ السلام کی ذات اقدس کا تعارف کرواتے ہوئے بیان کرتے تھے کہ جناب عباس علیہ السلام کے حسن اور خوبصورتی کی وجہ سے آپکو قمر بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔ آپکا قد لمبا اور بازو دراز تھے۔ جب گھوڑے پر سوار ہو کر پاؤں رکابوں میں رکھتے تو آپکے زانو گھوڑے کی گردن تک پہنچ جاتے۔
جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے علیؑ، ویسے حسینؑ کے لئے عباسؑ۔
۔
ایامِ شہادت امام علیؑ میں آپ اکثر کوفہ کے اُن یتیم بچوں کا ذکر سنتے ہیں جو امام علیؑ کو اپنا باپ کہتے ہیں۔ جن کی نسبت سے امام علیؑ کو ابوالایتام کہا جاتا ہے۔ یہ بچے شبِ ضربت اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں دودھ کے پیالے لیکر امام علیؑ کے گھر کے باہر جمع ہوگئے تھے، جب انہیں خبر ملی تھی کہ طبیب نے امام علیؑ کو بکری کا دودھ پلانے کا نسخہ تجویز کیا ہے۔ میں اس منظر کا موازنہ کربلا کے اُس منظر سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں جب قافلہ حسینیؑ میں موجود چھوٹے چھوٹے بچے اپنے مشکیزے لیے عباس علمدارؑ کے سامنے اِس اُمید میں کھڑے تھے کہ وہ اُن کیلئے نہر سے پانی لاینگے۔ یہ بچے جانتے تھے کہ یہ ابوالیتام کا بیٹا عباسؑ ہے، اِن باپ بیٹے سے بچوں کو ہمیشہ بہت اُمیدیں رہیں۔ مجھے ان دونوں مناظر میں عجیب مماثلت محسوس ہوتی ہے، انتہائی رقت آمیز مماثلت۔ بس فرق اتنا ہے کوفہ کے بچے یتیم تھے اور کربلا کے بچے یتیم ہونے والے تھے۔

ہر برس روزِ عاشور کربلا میں قبیلہ بنی طویریج کے لوگوں کا ہجوم، حرم مولا عباسؑ سے بھاگتے ہوئے حرم امام حسینؑ کی طرف جاتا ہے۔ ان سب کی زبانوں پر “عباسؑ جیب الماء لسکینہؑ” کے الفاظ ہوتے ہیں، یعنی “اے عباسؑ، اُٹھو سکینہؑ کیلئے پانی لاو”۔ یہ اس قبیلے کی قدیمی رسم ہے جس میں اب ان کے ساتھ ہر خطے کا عزادار شامل ہوجاتا ہے۔ آپ کوفہ کے یتیم بچوں، کربلا کے پیاسے بچوں اور مولا حسینؑ کی پیاسی سکینہؑ کو ذہن میں رکھ کر کچھ دیر کیلئے بنی طویریج کی اس رسم کے بارے میں سوچیں، آپ کو محسوس ہوگا جیسے آپ بھی ان کے ساتھ حرم مولا عباسؑ سے بھاگتے ہوئے حرم امام حسینؑ تک جانا چاہتے ہیں اور پکار پکار کرکہنا چاہتے ہیں:

“عباسؑ جیب الماء لسکینہؑ۔ ” (مولا عباسؑ سکینہؑ کیلئے پانی لایئے)”
۔
کوفہ ہی کا وہ منظر بھی بار بار ذہن میں آتا ہے جب وقتِ رخصت امام علیؑ نے سب بچوں کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا۔ بی بی اُم البنینؑ نے بے قرار ہوکر پوچھا تھا کہ آپؑ نے سب بچوں کا ہاتھ حسنؑ کے ہاتھ میں دے دیا لیکن میرے عباسؑ کا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں نہ دیا۔ جس پر امام علیؑ نے امام حسینؑ اور مولا عباسؑ کو بلاکر، امام حسینؑ کا ہاتھ مولا عباسؑ کے ہاتھوں میں دیدیا تھا۔ صفین میں خود کو حسنینؑ کی حفاطت کرنے والے ہاتھ کہہ کر اپنا تعارف کروانے کا شاید یہی مطلب تھا کہ ایک ہاتھ سے حسینؑ کی حفاظت کروں گا اور دوسرے سے حسنؑ کی، جن کے ہاتھ میں سب بہن بھائیوں کا ہاتھ دیا گیا تھا۔

افسوس کہ یہ ارمان پورا نہ ہوسکا۔ جب بڑے بھائی حسنؑ کے جنازے پر تیر برس رہے تھے اور مولا عباسؑ نے میان سے تلوار نکال کر آگے بڑھنا چاہا تو امام حسینؑ نے یہہ کہہ کر روک دیا کہ صبر کرو اور مولا عباسؑ فقط یہ کہہ کر خاموش ہوگئے:

“یہ میرے بھائی کا جنازہ ہے”۔

کربلا میں جنگ کی اجازت مانگی تو یہاں بھی امام حسینؑ نے صبر کرنے کی تلقین کی اور اذنِ جہاد نہ ملا۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ یہ فاتح بدر و اُحد، خیبر و خندق، صفین و جمل و نہروان کا بیٹا عباسؑ تھا، جس نے گیارہ برس کی عمر میں صفین کے میدان میں یہ بتا دیا تھا کہ اذنِ جہاد اگر ملے تو یہ اپنے باپ کی طرح اکیلا اپنی ذات میں ایک لشکر کہلاتا ہے۔

اسی صبر کی وجہ سے مولا عباسؑ کو زیارت میں “مجاہد” اور “صابر” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولا عباس علیہ السلام کی شجاعت و وفا کے تذکرے تو ہر زبان پر ہوتے ہی ہیں لیکن مولا عباس علیہ السلام کے صبر کو جب بھی یاد کرتا ہوں مجھے ضریح ابوالفضل العباس علیہ السلام سے لپٹ رونے والا وہ بوڑھا پنجابی شخص ہمیشہ یاد آجاتا ہے جس نے اس ایک جملے میں جناب عباس علیہ السلام کے مکمل مصائب بیان کردیئے تھے:

“میرا مرشد عباسؑ، چپ چاپ دنیا توں چلا گیا۔ “
۔
آٹھ محرم مولا غازی عباسؑ کی شہادت سے منسوب ہے۔ پانی لانے کی اجازت مانگنے پر جب امام حسینؑ نے جنابِ عباسؑ سے کہا تھا کہ وہ علمدارِ لشکر ہیں تو مولا عباسؑ نے دائیں اور بائیں دیکھنے کے بعد ایک بار حسرت سے پوچھا تھا کہ آقا، وہ لشکر کہاں ہے جس کا میں علمدار ہوں؟

صاحبِ علمِ لدنی، امام حسینؑ جانتے تھے کہ اب اُس بھائی کی قربانی دینے کا وقت آگیا ہے جس نے تمام عمر اُنہیں بھائی نہیں بلکہ سیدی اور آقا کہہ کر مخاطب کیا تھا، سوائے اُس وقتِ آخر کے جب زانوئے مولا حسینؑ پر سر رکھ کر مولا عباسؑ نے پہلی بار اُنہیں بھائی کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کا تاریخی جملہ ہے کہ ” جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلیے علی علیہ السلام، ویسے ہی حسین علیہ السلام کیلیے ابوالفضل العباس علیہ السلام ۔ “۔ یہ جملہ کہنے کے بعد وہ کہا کرتے تھے کہ یہ اتنا بڑا جملہ ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
۔
کربلا میں ابوالفضل العباسؑ کے دو اور بھائی عبداللہ بن علیؑ اور عثمان بن علیؑ بھی شہید ہوئے، جو بی بی اُم البنین سلام اللہ علیھا اور مولا علیؑ کی اولاد تھے۔ یہ دونوں گنجِ شہیداں میں مدفون ہیں۔ مولا عباسؑ کو اُن کے بھائیوں کا پرسہ ضرور دیجئے گا۔ عثمان بن علیؑ کا نام زیارتِ ناحیہ میں کچھ یوں موجود ہے السَّلَامُ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ أَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ سَمِی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ لَعَنَ اللَّهُ رَامِیهُ بِالسَّهْمِ خَوْلِی بْنَ یزِیدَ الْأَصْبَحِی الْأَیادِی وَ الْأَبَانِی الدَّارِمِی۔
اس جملے میں موجود ایک نام عثمان بن مظعونؓ کا بھی ہے۔ یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علیؑ کے قریبی ساتھی تھے۔ زیارت ناحیہ کے اس جملے کے مطابق، امام علیؑ نے اپنے بیٹے کا نام اپنے اس قریبی دوست اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عثمان بن مظعونؓ کی نسبت سے رکھا تھا۔
۔
ہمارا سلام ہو قمرِ بنی ہاشمؑ پر کہ جو ٹوٹی ہوئی آس اور گرے ہوئے حوصلے اپنے علم کے پھریرے کی ہوا اور خوشبو سے جوڑ دیتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ ہر برس آٹھ محرم کو ہر عزادار کی اُمید اور آس ٹوٹ جاتی ہے، جو جانتے ہیں کہ ہر عزادار کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال ہر سال آتا ہے کہ کاش عباسؑ کو اذنِ جہاد ملا ہوتا، جو جانتے ہیں کہ ہر محرم کی ٨ تاریخ کو ہر عزادار کے دل کی آواز یہی ہوتی ہے:

“کاش عباسؑ نہ مارے جاتے”

یا عباسؑ، یا حسینؑ