سات محرم کی تاریخ کو عموما حضرت قاسمؑ ابنِ حسن المجتبیؑ کی شہادت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جنابِ قاسمؑ کے مصائب میں بار بار امام حسنؑ کا ذکر آتا ہے، تعویزِ حسنؑ کا ذکر آتا ہے، تعویز میں لکھی امام حسنؑ کی عبارت کا ذکر آتا ہے، امام حسینؑ کے جنابِ قاسمؑ سے پوچھے جانے والے سوال “موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟” اور جنابِ قاسمؑ کے جواب “شہد سے زیادہ میٹھی ہے” کا ذکر آتا ہے۔ یہاں تک کے سننے والوں کو جنابِ قاسمؑ کے مصائب میں امام حسنؑ کے مصائب کیلئے مخصوص مظلومیت کی جھلک نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ چچا، بھتیجے اور باپ کے ذکر پر مشتمل جنابِ قاسمؑ کے مصائب کا یہ حصہ، اپنے اندر عجیب انفرادیت رکھتا ہے، ایسی انفرادیت جو کچھ لمحوں کیلئے سننے والوں کو یہ محسوس کروا دے کہ جیسے امام حسن مجتبی علیہ السلام بھی کربلا میں موجود تھے۔
۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام نے صفین، نہروان و جمل میں قلب لشکر سنبھالا تھا لیکن انہی امام حسن علیہ السلام کو ایسے حالات درپیش آئے کہ آپ نے تلوار میان میں رکھ کر قلم کے ذریعے وہ قرارداد لکھی جو چھپے ہوئے مجرموں کو باندھ کر کربلا تک لے آئی۔ یہ لوگ ایک ایک کرکے، قدم بقدم اس عہدنامے سے پھرتے رہے یہاں تک کہ ان کے قدم کربلا تک پہنچ گئے جہاں امام حسین علیہ السلام نے ان کے چہرے ہمیشہ کیلئے کھول کر رکھ دئے۔ وہی کربلا جہاں چھپے ہوئے چہرے ہمیشہ کیلئے بینقاب ہوئے۔ صلح امام حسن علیہ السلام کے وقت امام حسن علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میں یہ صلح نہ کرتا تو یہ لوگ(اہل شام) آل محمد علیھم السلام کے کسی چاہنے والے کو زندہ نہ رہنے دیتے اور سب کو قتل کردیتے۔
۔
صفین، نہروان و جمل میں تلوار کے جوہر دکھانے والے امام حسن علیہ السلام نے قلم کا ایک جہاد صلح حسنؑ کی صورت کیا اور دوسرا جہاد اس تعویز حسنؑ کی صورت جو قاسم علیہ السلام نے روز عاشور بار بار اذن جہاد نہ ملنے پر اپنے چچا امام حسین علیہ السلام کو دکھایا تھا۔ صلح حسن علیہ السلام اور تعویز حسنؑ، امام حسن علیہ السلام کے قلمی جہاد کے دو عظیم نمونے ہیں۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کربلا کے اس بیابان میں، چاروں طرف سے دشمن سے گھرے ہوئے، ذبح عظیم کے عظیم الوھی مقصد کی تکمیل کے وقت جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے بڑے بھائی امام حسن مجتبیؑ کا لکھا یہ تعویز پڑھا ہوگا تو انہیں کیا کیا کچھ یاد نہ آیا ہوگا؟ بڑے بھائی کے ساتھ گزرے بچپن کے دن جب اپنے ناناؐ کی گود میں بیٹھ کر کھیلا کرتے تھے، مدینہ میں اپنے بابا علی مرتضیؑ اور والدہ سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ گزرے بچپن کے دن، کوفہ کا وہ وقت جب امام علیؑ نے وقتِ آخر سب بچوں کو بلا کر ان کا ہاتھ امام حسنؑ کے ہاتھ میں دیا تھا اور امام حسینؑ کا مولا غازی عباس علیہ السلام کے ہاتھوں میں۔ یاد تو امام حسینؑ کو اپنے بھائی کا جنازہ اور اس پر برسنے والے تیر بھی آئے ہونگے۔ چھوٹے بھائی تھے، کربلا میں بڑے بھائی کے بیٹے کو دیکھ کر بڑے بھائی کی کس قدر یاد آئی ہوگی۔ یاد تو اپنے بڑے بھائی کا وہ جملہ بھی آیا ہوگا:
” لا یوم کیومک یا ابا عبداللہؑ”
(کوئی دن تمہارے دن(عاشور) جیسا نہ ہوگا، اے ابا عبداللہ ؑ)
مجالس میں سنا ہے کہ جب جناب قاسم علیہ السلام اپنے بابا حسن مجتبی علیہ السلام کا لکھا خط اپنے چچا حسین علیہ السلام کے پاس لائے تھے تو خط پڑھنے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے ایک نظر اپنے بھائی کے بیٹے پر ڈالی تھی اور پھر چچا بھتیجے ایک دوسرے سے لپٹ کر اس قدر روئے تھے کہ دونوں کو غش آگیا تھا۔ گزشتہ روز علامہ امجد رضا جوہری سے مصائب جناب قاسم علیہ السلام سنتے ہوئے یہ روایت سننے کا اتفاق ہوا کہ خیام میں پانی تو موجود نہ تھا لہذا سیدہ زینب سلام اللہ علیھا بھائی حسین علیہ السلام کے سرہانے بیٹھی تھیں اور مولا عباس علیہ السلام جناب قاسم ابن حسن علیہ السلام کے سرہانے۔ دونوں نے اس شدت سے گریہ فرمایا تھا کہ آنسو مولا حسین علیہ السلام اور شہزادہ قاسم علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر گرے تھے اور وہ غشی سے بیدار ہوئے تھے۔
۔
بقول مولانا صادق حسن، ان کے اُستاد اور علامہ طالب جوہریؒ کے والد مولانا محمد مصطفی جوہرؒ کہا کرتے تھے کہ کربلا کے ہر شہید نے مصائب میں امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا، سب شہید ہوئے، سب بھوکے پیاسے رہے، سب نے تیر، تلوار پتھر برداشت کیے لیکن ایک ایسی مصیبت ہے جس میں حسینؑ کا ساتھ صرف قاسمؑ نے دیا۔ اور وہ مصیبت ہے بدن کا پامال ہونا۔ ہمارے وقت کے امام، ہمارے آقا و مولا امام زمانہ صلوات اللہ علیہ زیارت ناحیہ میں جناب قاسم ابن حسن علیہ السلام کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا سلام ہو اس شہید پر جس کی دائیں طرف کی پسلیاں بائیں طرف اور بائیں طرف کی پسلیاں دائیں طرف ہوگئیں۔
۔
علی اکبر علیہ السلام کے آخری سلام کہتے ہوئے گھوڑے سے گرنے پر امام حسینؑ کہنیوں کے بل اکبرؑ تک پہنچے تھے لیکن قاسمؑ کے پکارنے پر امام حسینؑ عقاب کی سی تیزی سے میدان کی طرف بڑھے تھے، اتنی تیزی سے وہ کسی اور کیلئے نہ بڑھے۔ یقینا اپنے بڑے بھائی کی یاد آئی ہوگی، یہ سوچتے ہوئے قاسمؑ کی طرف بڑھے ہونگے کہ یہ میرے بڑے بھائی کا بیٹا ہے۔ اس بھائی کا بیٹا جو میرا بھی امام تھا، جسے دنیا نے کریم اہلیبیتؑ کے نام سے یاد کیا، جسے میرے ناناؐ نے سورہ کوثر کی تفسیر قرار دیا۔
۔
مسلمانوں نے اِسی حسنؑ کے بیٹے کو کربلا میں قتل کرڈالا۔ جانتے ہیں کون سے مسلمان؟ وہی مسلمان جن کیلئے امام حسن علیہ السلام نے کہا تھا کہ اگر میں یہ صلح نہ کرتا تو یہ لوگ (اہل شام) آل محمد علیھم السلام کے ہر چاہنے والے کو قتل کردیتے۔ کربلا میں یہی اہل شام بینقاب ہوئے، اہل کوفہ نہیں۔ حسن المجتبی علیہ السلام کے لخت جگر کے لاشے کو انہوں نے ہی پامال کیا جنہوں نے مولا حسن علیہ السلام کا جگر زہر دیکر ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔
الوداع گل پیراہن
قاسم ع تشنہ دہن