تذکرہِ اہل بیتؑ

پانچ یا چھ محرم کا دن عموما شہادتِ علی اکبرؑ سے منسوب ہوتا ہے۔ مولا حسینؑ کا وہ بیٹا جو صورت و سیرت میں شبیہ پیغمبرؑ تھا۔ امام حسینؑ کا جب اپنے نانا کی زیارت کا دل چاہتا تھا تو وہ علی اکبرؑ کا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔ فرحت عباس شاہ نے اسی مناسبت سے ایک شعر بھی کہا ہے:

“اُنہوں نے پھر بھی محمدؐ سمجھ کے مارا اُسے
اگرچہ اُن کو پتا تھا، پسر حسینؑ کا ہے

مولا ابوالفضل العباس علیہ السلام اگرچہ عمر میں جناب علی اکبر علیہ السلام سے بڑے تھے لیکن جب کبھی بھی وہ علی اکبر علیہ السلام کے ہمراہ چلتے تو سر جھکا کر چند قدم پیچھے چلتے۔ ایک بار علی اکبر علیہ السلام نے دریافت کر لیا کہ چچا آپ ہمیشہ سے مجھ سے چند قدم پیچھے کیوں چلتے ہیں؟ جس پر سرکار ابوالفضل العباس علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس لیے کیوں کہ تم ہمشکل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔
۔
جناب علی اکبرؑ صورت میں ہمشکلِ پیغمرؑ تھے تو اخلاق و گفتار میں بھی اپنے جد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شبیہ تھے۔ کہتے ہیں کہ علی اکبرؑ اپنی والدہ اُمِ لیلیؑ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کھانا تیار کرتے ہوئے گھر کی چمنی کو کھلا رہنے دیا کیجئے تاکہ وہاں سے دھواں باہر جائے اور کھانے کی خوشبو کی وجہ سے اگر آس پاس کوئی بھوکا موجود ہو تو وہ ہمارے گھر کھانا کھانے بطور مہمان آجائے۔

بعض روایتوں کے مطابق علی اکبرؑ کی عمر ۱۸ برس جبکہ بعض مقاتل اُن کی عمر ۲۵ برس بتاتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اُنہیں علی الاکبرؑ کہا گیا اور امام زین العابدینؑ کو علی الاوسط۔ یہی وجہ ہے کہ جب واقعہ کربلا کے بعد ابن زیاد نے امام سجادؑ سے اُن کا نام پوچھا اور آپ نے جواب میں علی بن حسینؑ بتایا تو اُس ملعون نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ علیؑ بن حسینؑ کو تو ہم قتل کرچکے۔ پس، امام سجادؑ نے جواب دیتے ہوئے کہا وہ میرا بھائی علی اکبرؑ تھا۔ سوچتا ہوں کہ کس دل سے امام سجادؑ نے ان سوالوں کے جواب دئے ہونگے؟ امام سجاد علیہ السلام کو سید الصابرینؑ اسی لیے تو کہا جاتا ہے۔

بہرحال، ہمارے ہاں عموما جنابِ علی اکبرؑ کی عمر ۱۸ برس ہی بتائی جاتی ہے اور یہی ہم بچپن سے مجالس میں سنتے آئے۔
۔
علی اکبرؑ کی والدہ جنابِ اُم لیلیؑ طاائف کے ثقفی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ابی مرّہ کی بیٹی تھیں۔ اُن کے دادا عروہ بن مسعود وہ شخص تھے جنہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرب کے چار شیوخ میں سے ایک شیخ قرار دیا تھا۔ عروہ بن مسعود صلح حدیبہ میں شامل قابلِ ذکر عرب اکابرین میں شامل تھے۔ یہ وہی عروہ بن مسعود تھے جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کے بعد اپنے قبیلے والوں کو بتایا تھا کہ میں نے فارس، افریقہ اور روم تک کے حکمرانوں سے ملاقات کی ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا رہنما اب تک نہیں دیکھا جس کے ماننے والے لوگ اُس کا اس قدر احترام کرتے ہیں کہ ادب میں اُس کے چہرے کی جانب بھی نہیں دیکھتے۔ یہاں تک کہ وہ وضو کرتا ہے تو یہ اُس کے وضو کا پانی اکٹھا کرتے ہیں۔ بعد ازاں عروہ بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن وہ جیسے ہی اپنے قبیلے میں واپس پہنچے اور اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اُن کے قبیلے والوں نے اُنہیں پتھروں سے حملہ کرکے شہید کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عروہ بن مسعود کا موازنہ حضرت عیسیؑ پر جان قربان کرنے والے حبیب النجار سے کیا تھا۔ وہی حبیب النجار جس کا تذکرہ سورہ یسین میں موجود ہے۔
۔
جناب اُم لیلیؑ کے والد ابی مرہّ انہی عروہ بن مسعود کے بیٹے تھے، جنہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کے اسلام قبول کرنے سے قبل عرب کے چار اہم شیوخ میں سے ایک اور اسلام قبول کرنے کے بعد حبیب النجار سے تشبیہ دی تھی۔ یہ جنابِ اُم لیلیؑ کے والد کا تعارف تھا۔

جبکہ جناب اُمِ لیلیؑ کی والدہ کا نام میمونہ تھا اور وہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ عموما نام کی وجہ سے یہ مغالطہ پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ امیرِ شام کے باپ ابو سفیان کی بیٹی تھیں جو کہ درست نہیں۔ میمونہ کے والد ابو سفیان دراصل حارث کے بیٹے تھے جو کہ عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔ یعنی جناب اُم لیلیؑ کی والدہ کا مکمل نام میمونہ بنت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علی اکبرؑ میدانِ کربلا میں اپنے جد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنی والدہ اُم لیلی کے جد عروہ بن مسعود الثقفیؑ کے نمائندہ بن کر آئے۔
۔
یہ اُس علی اکبرؑ کا تذکرہ ہے جس نے اپنے والد حسینؑ ابن علیؑ سے پوچھا تھا کہ “بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اگر ہم حق پر ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ موت ہم پر آئے یا ہم موت پر آ جائیں”۔

معروف بزرگ سوز خواں جناب اشرف عباس مرحوم مجلس شامِ غریباں میں مرحوم مولانا سید حسن امداد کا لازوال کلام “کربلا ہو چکی تیار، تقدم ولدی” پڑھا کرتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے اکثر علماء، مصائب علی اکبرؑ پڑھتے ہوئے “تقدم ولدی” کہہ کر خود بھی رو دیتے ہیں۔ دراصل یہ تقدم ولدی وہ بوڑھا باپ علی اکبرؑ کو کہہ رہا ہے جو بعد ازاں علی اکبرؑ کو لڑتا دیکھ کر “مھلا مھلا” کہتا ہوا اُسے میدان سے واپس بلائے گا تاکہ ایک بار اُسے دیکھ سکے۔ تقدم ولدی، یعنی بیٹا آگے بڑھو، کہنے والا بوڑھا باپ وہی ہوگا جو بعد میں کہنیوں کے بل چلتا ہوا اپنے جوان بیٹے تک پہنچے گا۔ تقدم ولدی وہی باپ کہہ رہا ہے جو بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے یہ تاکید بھی کررہا تھا کہ جب تک موقع ملے، پلٹ کر مجھے دیکھتے رہنا۔

امام بارگاہ عطیہ اہلیبیت علیھم السلام میں مولانا ذوالفقار حسین نقوی اعلی اللہ مقامہ جناب علی اکبر علیہ السلام کے قیامت خیز مصائب کا آغاز اس جملے سے کرتے تھے:

“آج جوانوں کے رونے کا دن ہے۔ “
۔
علی اکبرؑ کربلا کے جذباتی، روحانی اور باطنی پہلو کا شباب ہیں۔ امام حسینؑ نے کربلا کے اس کردار کو بہت اہتمام سے تیار کیا ہے۔ مائیں علی اکبرؑ کا سہرا یاد کرکے روتی ہیں، بہنیں صغریؑ کا خط یاد کرکے روتی ہیں، بوڑھے باپ علی اکبرؑ کے مصائب سن کر اپنے جوان بیٹوں کو تصور کرکے روتے ہیں، بدقسمتی سے اگر جوان بیٹا چل بسا ہو تو بیٹے کو یاد کرتے ہوئے کم اور “ہائے ہائے علی اکبرؑ” کہہ کر زیادہ روتے ہیں اور جوان پورا سال انتظار کرتے ہیں کہ صبحِ عاشور وہ اذانِ علی اکبرؑ سنیں، تاکہ دھاڑیں مار کر رو سکیں۔
۔
“ہائے گُلِ گلزار علی اکبرمؑ”