عزاداری

جب جناب عبداللہ ابن جعفر طیارؑ نے امیر المومنین علیہ السلام سے شہزادی زینب سلام اللہ علیھا سے عقد کی درخواست کی تھی تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہمیں منظور ہے، بس ایک شرط ہے کہ تم وعدہ کرو کہ کبھی میرا حسینؑ سفر پر جائے تو تم زینبؑ کو اس کے ساتھ جانے سے روکو گے نہیں۔ جناب عبداللہ ابن جعفر طیارؑ نے امیر المومنین علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اور ساٹھ ہجری رجب کے مہینے میں اس وعدے کو پورا کیا۔

جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ مدینہ سے سفر کرکے مکہ آنے اور پھر مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہونے میں ایک انتہائی اہم پہلو پوشیدہ ہے جو دوبارہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ واقعہ کربلا نہ ہی کوئی حادثہ تھا، نہ ہی اقتدار کی جنگ اور نہ ہی کسی سیاسی چپقلش کے نتیجے میں رونما ہونے والا سانحہ۔ بلکہ امام حسین علیہ السلام کا اپنی بہن سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو خصوصیت کے ساتھ اپنے ہمراہ لیکر جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کسی اہم ترین مقصد کی تکمیل کی جانب پیش قدمی تھی۔ ذبح عظیم کے آفاقی مقصد و قرآنی اعلان کی جانب پیش قدمی جس میں سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو ایک کلیدی اور اہم ترین کردار ادا کرنا تھا۔
۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے دونوں فرزند عونؑ اور محمدؑ مدینہ سے روانگی کے وقت قافلے کے ہمراہ نہیں تھے بلکہ مدینہ میں اپنے والد جناب عبداللہ ابن جعفر طیارؑ کے پاس ہی موجود تھے۔ جناب عبداللہ ابن جعفر طیارؑ کے امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ سفر نہ کرنے کی جو اہم ترین وجہ بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے انہیں خود مدینہ میں رہنے اور مدینہ میں رہ جانے والے خاندان بنی ہاشم کے افراد کی نگہبانی کا فرض سونپا تھا۔ دوسری وجہ ان کی علالت بتائی جاتی ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ فاطمہ صغری سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور ان کے مدینہ میں رہ جانے کے حوالے سے علامہ سید علی نقی نقویؒ( نقن صاحب) کا استدلال بھی نقل کرتا چلوں۔ ان کا استدلال تھا کہ جناب ام البنین سلام اللہ علیھا جیسی ہستی کا قافلہ حسینی کے ساتھ نہ جانا اور بالخصوص سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے ہمراہ مدینہ سے نہ جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ مدینہ میں امام حسین علیہ السلام کی ایک علیل دختر یعنی فاطمہ صغری سلام اللہ علیھا موجود تھیں، جن کی نگہداشت کیلئے ام البنین سلام اللہ علیھا نے مدینہ میں قیام کیا۔
۔
قافلہ حسینی جب ذی الحجہ میں مکہ سے روانہ ہوا تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک مقام پر جناب عبداللہ ابن جعفر طیارؑ اپنے فرزندان عونؑ اور محمدؑ کے ہمراہ قافلہ تک پہنچے اور پہلے امام حسین علیہ السلام سے اور پھر جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا سے ملاقات کی۔ مولانا کمیل مھدوی مصائب عون و محمد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے شوہر کو دیکھ کر کہا کہ آپ میرے شوہر ہیں، آپ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے اگر آپ مجھے واپس چلنے کو کہیں گے تو میں منع نہیں کروں گی لیکن مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ میں زندہ واپس جا سکوں گی یا نہیں۔ جنابِ عبداللہ ابنِ جعفر طیارؑ نے جواب دیا کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور آپ کے مقام سے آگاہ ہوں، میں جانتا ہوں کہ آپ دخترِ سیدہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ میں تو فقط اس لیے آیا ہوں کیوں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے کہ کوئی سفر پر جائے تو اُس کا صدقہ نکال دیا کرو۔ بس میں اسی لیے عونؑ و محمدؑکو ساتھ لایا ہوں کہ اگر کبھی کسی مقام پر حسینؑ کو ضرورت پڑی تو میرے بیٹوں کو اُن پر قربان کر دینا۔

بعض روایات کے مطابق جنابِ عبداللہ ابن جعفر طیارؑ نے اپنے فرزندان عونؑ و محمدؑ کو مدینہ سے روانہ کیا تھا تاکہ وہ امام حسینؑ کی نصرت کر سکیں اور یہ دونوں قافلے کی مکہ سے روانگی کے بعد اُس سے متصل ہوگئے تھے۔
۔
میں نے یہ تفصیل اِس لیے بھی لکھی کیوں کہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بغض اہلیبیتؑ میں جلنے والے ناصبی حسبِ معمول اُمویوں کی گھڑی ہوئی روایتیں سنا کر ثابت کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا جنابِ عبداللہ ابن جعفر طیارؑ کی مرضی کے خلاف عونؑ و محمدؑ کو ساتھ لیکر امام حسینؑ کے ہمراہ روانہ ہوئیں۔ نہ صرف یہ بلکہ واقعہ کربلا کے بعد نعوذ باللہ جنابِ عبداللہ ابنِ جعفر طیارؑ نے سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو طلاق بھی دے دی تھی۔
۔
مصائبِ عونؑ و محمدؑ میں جو بیان سب سے زیادہ سننے کو ملتا ہے اُس کے مطابق عونؑ و محمدؑ کی بار بار درخواست کے باوجود اُنہیں امام حسینؑ کی طرف سے اذنِ جہاد نہ مل رہا تھا۔ ماموں اور بھانجوں کا تعلق انتہائی اُنسیت اور محبت والا ہوتا ہے۔ اِسی تعلق کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے کہ امام حسینؑ کیلئے کس قدر مشکل ہوگا کہ وہ سیدہ زینبؑ جیسی بہن کے بیٹوں کو میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت دیں۔ بلاخر سیدہ زینبؑ نے جناب ابوالفضل العباسؑ سے تذکرہ کیا اور پھر خود امام حسینؑ سے اجازت طلب کی کہ اُن کے فرزندان کو اذنِ جہاد دیا جائے۔ اجازت ملی اور پھر ایک بیٹے کو امام حسینؑ نے اور ایک کو سیدہ زینبؑ نے خود گھوڑے پر سوار کروایا۔

عونؑ و محمدؑ بہت جوانمردی سے لڑے تھے، شاعر نے عونؑ و محمدؑ کے حملے کی کفیت اپنے اشعار میں یوں بیان کی ہے:

زینبؑ کے لعل رن کی فضاوں میں چھا گئے
اِک پل میں لشکروں کے قدم ڈگمگا گئے
گھبرا کے شمر نے عمرِ سعد سے کہا
کیا حیدرؑ کے ساتھ جعفرِ طیارؑ آگئے؟

اِن دونوں بھائیوں نے ارادہ کیا تھا کہ عمرِ سعد ملعون کو قتل کرنے کی کوشش کرینگے۔ عونؑ و محمدؑ کے ہاتھوں کئی ایک یزیدی جہنم واصل ہوئے تھے لیکن یہ عمرِ سعد ملعون کو قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ عمرِ سعد بعد از واقعہ کربلا مختار ثقفی رض کے ہاتھوں انجام تک پہنچا۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختار ثقفی رض نے فرزندانِ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی خواہش کی بھی تکمیل کی۔ خدا کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل ہوں جناب مختار ثقفی رض پر۔
۔
عونؑ نے میدانِ جنگ میں آنے کے بعد لشکرِ یزید کو مخاطب کرکے یہ رجز پڑھا تھا:

اگر تم مجھے نہیں جانتے ہو تو جان لو کہ میں اُس جعفر طیارؑ کا بیٹا ہوں جو شہید ہیں اور جنت میں ہیں۔
جو وہاں دو سبز رنگ کے پروں کے ساتھ محوِ پرواز رہتے ہیں۔ بروزِ محشر اُن کے شرف کیلئے یہی کافی ہوگا۔

واضح رہے کہ جنگ موتہ میں صحابی رسولؐ اور عونؑ و محمدؑ کے دادا جنابِ جعفر طیارؑ کے دونوں بازو قلم ہوئے تھے اور اسی جنگ میں آپؑ شہید ہوئے تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام اپنے چچا ابوالفضل العباسؑ کی شان و منزلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثلِ جنابِ جعفرِ طیارؑ، میرے چچا عباسؑ کو بھی جنت میں دو پر عطا کیے گئے ہیں جن سے وہ فرشتوں کے ہمراہ محوِ پرواز رہتے ہیں۔ روزِ قیامت میرے چچا عباسؑ کا مقام و منزلت دیکھ کر تمام شہداء اُن پر رشک کرینگے۔
۔
سیدہ زینبؑ نے اپنے بچوں کو حکم دیا تھا کہ لڑتے ہوئے اگر نہرِ فرات کے کنارے پہنچ جانا تو پانی مت پی لینا، یاد رکھنا کہ سکینہؑ و علی اصغرؑ پیاسے ہیں۔ یہ دونوں بھائی حملہ کرتے ہوئے پانی کے نزدیک پہنچ گئے تھے لیکن ماں کا حکم یاد تھا اور دونوں نے پانی نہیں پیا۔ کہتے ہیں کہ وقتِ آخر جب امام حسینؑ اپنے بھانجوں کے پاس پہنچے تھے تو بچوں نے اپنی والدہ سیدہ زینبؑ کیلئے یہ پیغام دیا تھا کہ ہماری والدہ کو یہ بتایا جائے کہ ہم دریا تک پہنچ گئے تھے لیکن ہم نے پانی نہیں پیا۔

چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو وہ منظر کس قدر رقت آمیز ہوگا جب تین روز کے پیاسے دو معصوم بچے دریا کنارے پہنچے ہونگے اور پانی کی طرف دیکھ کر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنی ماں کے حکم کو یاد کیا ہوگا۔ دل کہتا ہے دونوں نے زبان سے کچھ نہ بولا ہوگا، بس دل میں اپنی ماں کا یاد کیا ہوگا اور سوچا ہوگا کہ ان کی ماں کو کس قدر فخر ہوگا جب انہیں بتایا جائے گا کہ عونؑ و محمدؑ نے پانی نہیں پیا۔
۔
قیدِ یزید ملعون سے رہائی کے بعد جب تمام شہداء کے سر واپس لوٹائے گئے تو دو سر ایسے تھے جن پر کوئی رونے والا نہ تھا۔ کسی عورت نے پوچھا تھا کہ کیا ان بچوں کی ماں زندہ نہیں ہے؟ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے جواب دیا تھا کہ یہ دونوں میرے بچے ہیں۔ لیکن مجھے ابھی اپنے بھائی حسینؑ کا پرسہ لینا ہے۔ مجالس میں جب جب عونؑ و محمدؑ کے مصائب بیان ہوتے ہیں تو بہت شدید گریہ ہوتا ہے۔ سب یہی سوچ کر روتے ہیں کہ ان بچوں پر کوئی رونے والا نہ تھا۔

مدینہ واپس آنے کے بعد بھی سیدہ زینبؑ نے سب کا پرسہ لیا، ماں سیدہ سلام اللہ علیھا کی قبر پر گئیں، جد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر گئیں، پرسہ دیا لیکن اپنے بچوں پر نہ روئیں لیکن پھر ایک وقت آیا جب ضبط ٹوٹ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے گھر داخل ہوئیں اور انہیں عونؑ و محمدؑ کے حجرے میں اُن کی جائے نمازیں بچھی نظر آئیں۔ بس ایک بار بچوں کی جانے نمازیں سینے سے لگائیں اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔

“ماموں پہ فدا ہوگئے زینبؑ کے دلارے
دریا کے کنارے”