عزاداری

کربلا کے ہر کردار میں یہ خصوصیت ہے کہ انسان جس بھی کردار کا احوال پڑھے یا مصائب سُنے تو ایک لمحے کے لیے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ سب سے زیادہ رقت اسی کردار کے ذکر پر محسوس کررہا ہے۔ مسلم بن عقیلؑ سے شروع کریں جو شہید تو ذی الحجہ میں ہوئے لیکن روزِ عاشور جب امام حسینؑ نے ایک ایک کر کے اپنے ساتھیوں کے نام لے کر پکارنا شروع کیا تو سب سے پہلا جملہ “این این یا مسلمؑ” کہہ کر یہ بتا دیا کہ کربلا کا پہلا شہید مسلم بن عقیلؑ ہے۔ پھر آپ حبیب ابنِ مظاہرؑ کا ذکر سنیں تو بچپن کے اس دوست کے مصائب آپ کے دل کو چیر کر رکھ دیں گے، پھر کبھی طفلانِ مسلمؑ کا ذکر ہوگا اور کبھی اپنی مسکراہٹ سے لشکرِ یزید کو رلا دینے والے حسینؑ کے ششماہے علی اصغرؑ کا، عون و محمدؑ اور قاسم ابن حسنؑ کے مصائیب سُن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہیں گے یہاں تک کہ ذکر علی اکبرؑ تک پہنچے گے، اس جوان کے ذکر پر ہر برس ایک ہی جیسا منظر ہوتا ہے جسے الفاظ کی شکل دینا میرے بس میں نہیں اور پھر آٹھ محرم آجاتی ہے، وہ دن جب ہر برس ہر عزادار کی آس ٹوٹ جاتی ہے یعنی شہادتِ ابوالفضل العباسؑ، شبِ یکم محرم سے شروع ہونے والا ذکرِ کربلا کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کربلا کا ہر کردار انسان کے دل میں موجود انسانی رشتوں سے متعلق جذبات کو پوری قوت سے اپیل کرتا جاتا ہے۔ اور پھر روز عاشور تذکرہ ہوتا ہے حسینؑ کا، سیدہؑ زینبؑ کا، سکینہؑ کا اور سید الساجدینؑ کا۔ اور ہاں اُس گھوڑے کا بھی جس پر سوار ہونے کے لیے مولا حسینؑ کی مدد سیدہ زینبؑ نے کی تھی۔ واقعہ کربلا کے ہر کردار پر یہی سوچنے والا انسان کے شاید اس سے شیادہ دردناک مصائیب اور کس کے ہوں گے، بلاخر اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ یہ حسینؑ کی کربلا ہے، اس کا ہر کردار حسینؑ نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کیا ہے جو تاقیامت ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کو ایسے ہی پوری قوت سے اپیل کرتا رہے گا۔یہی کربلا کا وہ جذباتی پہلو ہے جس کا ذکر میں اکثر کرتا ہوں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو بلاتفریق مذہب و مکتب، کربلا کے اس جذباتی پہلو سے وابستہ ہے اور بدقسمت ہے وہ شخص جس نے خود کو چند ظاہری پہلوؤں میں جکڑ کر خود پر دشمنان حسینؑ کے ہمدرد کی مہر لگوا لی۔
۔
میں نے اوپر کربلا کے کچھ کرداروں کے نام لیے لیکن ایک نام نہیں لیا۔ یہ نام حر ابن یزید الریاحیؑ کا ہے۔ کربلا کا ہر کردار منفرد ہے، ہر کردار انسانی جذبات کو مختلف انداز سے اپیل کرتا ہے لیکن حُر بن یزید الریاحی کا کردار شاید سب سے مختلف ہے۔ یہ کردار ہم جیسے اُن گنہگاروں کو اپیل کرتا ہے جن کی زندگیاں گناہوں اور خطاوں کے سائے میں گزرتی رہیں۔ حُرؑ دراصل حق کےمتلاشیوں، گناہگاروں اور خطاکروں کا ہیرو ہے۔ مثلا میں جب جب حرؑ کے بارے میں سوچتا ہوں تو بے اختیار قران کی وہ آیت ذہن میں آجاتی ہے جس میں اللہ نے بے انتہا شفقت، محبت اور کریمی کے ساتھ انسان کو بتلایا ہے کہ گناہ گار ہو؟ کوئی بات نہیں، میری رحمت سے مایوس مت ہو، میں تمہارے سب گناہ معاف کردوں گا۔
کربلا میں امام حسینؑ اور حُر کا تعلق یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ نواسہ رسولؑ کے ذریعے تکمیل تک پہنچنے والی اُس ذبحِ عظیم کا میدان تھا جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا۔ حُر اور امام حسینؑ کےمابین ہونے والے ہر مکالمے پر غور کرتے چلے جائیں، نتیجہ آپ کے سامنے خود واضح ہوجائے گا کہ نہ یہ دو خاندانوں کی جنگ تھی، نہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ تھا اور نہ ہی کوئی حادثہ۔ یہ صرف اور صرف امام حسینؑ اور اُن کے بہتر ساتھیوں کا بپا کیا ہوا وہ آفاقی انقلاب تھا، جس نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اسی لیے امام حسینؑ نے یہ فرمایا تھا کہ جیسے ساتھی مجھے ملے، ایسے کسی اور کو نہ ملے۔ حُر اور اس کا بیٹا بُکیر بھی انہی ساتھیوں میں سے ایک تھا۔
۔
حُر بن یزید الریاحیؑ کوئی عام شخص نہیں تھا۔ یہ کوفہ کے امراء میں سے ایک تھا اور ایک مانا ہوا جنگجو تھا۔ اس کا تعلق بنی ریاح قبیلے سے تھا اور یہ عمر ابنِ سعد کا بہترین دوست تھا۔ جبکہ اس کا بیٹا بکیرؑ عمر ابن سعد کے بیٹے کا بہترین دوست۔ حُر بن یزید الریاحیؑ ابن زیاد ملعون کے اُن چار کمانڈر میں شامل تھا جنہیں کربلا میں اپنے دستوں کے ہمراہ بھیجا گیا تھا۔ ان میں عمر ابن سعد جو کہ صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کا بیٹا تھا، شمر الجوشن جو صفین میں امام علیؑ کے لشکر میں شامل تھا، مہاجر اور حر ابن یزید الریاحیؑ۔
ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو امام حسینؑ کے قتل کے عوض رے کی حکومت کی پیشکش کررکھی تھی، وہی رے کی حکومت جس کے بارے میں امام حسینؑ نے جنگ شروع ہونے سے قبل مذاکرات کے دوران عمر ابن سعد کو بتا دیا تھا کہ جس رے کی حکومت کے لیے تم یہ سب کر رہے ہو، وہ تمہیں کبھی نصیب نہ ہوگی اور ایسا ہی ہوا جب عمر ابن سعد واقعہ کربلا کے بعد مختارِ ثقفیؒ کے ہاتھوں مارا گیا۔
اسی طرح ابنِ زیاد نے حر ابنِ یزید الریاحیؑ کو خراسان کی حکومت کی پیشکش کررکھی تھی اور شرط یہ رکھی تھی کہ امام حسینؑ کا کوفہ آنے سے روکو اور یزید کی بیعت پر راضی کرو۔ غور کیجئے، یہ اُس حُر کا ذکر ہے جسے آج باطل سے حق کی طرف آنے کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، جو آج گنہگاروں کے دلوں کی ڈھارس ہے اور جس کا ذکر آتے ہی دل اس کے لیے محبت سے بے اختیار بھر جاتا ہے۔
۔
جنگ جمل میں امام علیؑ اور حضرت زبیر کے مابین ایک مکالمے کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت زبیر جنگ جمل میں امام علیؑ کے مخالف لشکر میں تھے۔ یہ وہی حضرت زبیر تھے جو امام علیؑ کے بچپن کے ساتھی اور پھوپھی زاد بھائی تھے۔ یہ وہی زبیر تھے جو وصالِ پیغمر کے بعد امام علیؑ کے سے سے مضبوط حمایتی تھے اور اُن کے گھر میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل میں جب یہ امام علیؑ کے مقابل آئے تو امامؑ نے بہتے ہوئے آنسووں کے ساتھ اُنہیں مخاطب کرکے کہا کہ زبیر تم تو میرے بچپن کے ساتھی ہو، میرے بھائی ہو، کیا تم بھی مجھ سے جنگ کرو گے؟ کچھ مختصر مکالمہ ہوا تھا اور پھر حضرت زبیر واپس کوفہ چلے گئے۔ حُر بن ریاحیؑ اور زبیر میں یہی فرق تھا کہ حُر اُس فیصلہ کُن موڑ پر باطل سے حق کی طرف آگیا اور جناب زبیر نے بس میدان سے چلے جانے کو ترجیح دی اور بعض روایات کے مطابق واپسی کے راستے میں قتل کردیے گئے۔ تاریخ میں یہ دونوں کردار اپنے اپنے اندر ایک پیغام لیے ہوئے ہیں، اگر کوئی سمجھنا چاہے۔ میرا مقصد کسی اختلافی معاملے کا ذکر کرنا نہیں بلکہ ان دونوں واقعات میں مماثلت کی طرف توجہ دلوانا تھا۔
۔

حُر بن یزید الریاحیؑ سےمتعلق تفصیل ہم بچپن سے مجالس میں سنتے آئے ہیں۔ جن میں حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ چاہے وہ حُر کے لشکر حسینؑ میں شامل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور یا بعد کا، ان سب میں ایک پہلو واضح نظر آئے گا اور وہ یہ کہ جیسے امام حسینؑ کو حُر کے دل کا مکمل حال بھی معلوم ہو اور آنے والے وقتوں میں کربلا کے واقعے میں اُس کا کردار بھی۔ لہذا ہم سنتے ہیں کہ جب لشکرِ حُرؑ کو پیاس کی شدت نے آلیا تو امام حسینؑ نے حکم دیا کہ حُرؑ کے لشکر کو بھی پانی پلایا جائے اور اُس کے گھوڑوں کو بھی۔ یہ اضافی تاکید بھی کی کہ جانور جب تک خود منہ نہ موڑ لے، اُسے پانی پینے دیا جاتا رہے۔ یہ کیا تھا؟ یہ آنے والے وقت کے لیے امام حسینؑ حُرؑ کے دل کو اپیل کرنے کا بندوبست کررہے تھے۔ وہ واقعہ بھی کسے معلوم نہ ہوگا جب حُرؑ نے امامؑ کا راستہ روک کر اُنہیں کوفہ نہ جانے دینے کا پیغام پہنچایا تھا اور جواب میں امامؑ نے حُر سے کہا تھا کہ “حُر، تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے”۔ حُرؑ کا جواب وہی تھا جس نے آگے چل کر جہنم سے جنت کی طرف اُس کے سفر کو ممکن بنایا۔ حُر نے امام حسینؑ کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ کاش میں آپ کی والدہؑ کے بارے میں کچھ کہہ سکتا۔ یعنی حُر واقف تھا کہ حسینؑ کوئی اور نہیں بلکہ سیدہ النساء العالمینؑ کے فرزند ہیں۔ یہی حُرؑ تھا جسے نمازِ ظہر کے وقت امام حسینؑ نے نماز کی امامت کرنے کو کہا اور اِس نے بے اختیار جواب دیا کہ فرزندِ زہراؑ، آپ امامت کروایے اور پھر امام حسینؑ کی امامت بھی نماز پڑھی۔ یاد رہے کہ حرُ ابھی تک لشکرِ یزید میں ہی تھا لیکن وہ حسینؑ ہی کیا جو قلوب کے حال سے واقف نہ ہو، بار بار حُرؑ کے دل میں حریت کی لو جلاتے رہے۔ اور جب یہ شمع جلی تو اکیلے حُر کے دل میں نہیں، بلکہ اُس بیٹے بُکیرؑ سمیت اُس کے لشکر مین موجود ۲۸ سپاہیوں کو بھی کربلائی بنا گئی۔ بقول جناب حسین اکبر:

 

” اک حرؑ ہے جس کے واسطے دنیا میں پہلی بار

دس روز مستقل درِ توبہ کھلا رہا ”

 

پھر وہ موقع آن پہنچا جب حُرؑ کی زبان سے نکلا ایک تاریخی جملہ آنے والے زمانوں کے ہر ہر حریت پسند کے دل کی آواز بن گیا۔ حُرؑ نے تمام رات جاگ کر گزاری تھی، خیامِ حسینیؑ سے بچوں کے رونے کی آوازیں اُسے بے چین کررہی تھیں۔ اُس کے بیٹے کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور حُر بن یزید الریاحی نے عمر بن سعد کو رعونت و تکبر کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو یہ حکم دیتے سنا کہ میرے گھوڑوں کے سموں پر پانی ڈالو، گرمی کی شدت سے کہیں یہ جل نہ جائیں۔

جبکہ قافلہِ حسینیؑ پر پانی بند کیا جاچکا تھا۔ بس یہ وہ مقام تھا جب حُر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا، جیسے باطل سے حق کی طرف سفر کا فیصلہ کرچکا ہو۔ قریب ہی کھڑے ابن زیاد کے کمانڈر مہاجر نے حُرؑ کی کیفیت دیکھ کر اُسے مخاطب کیا کہ یہاں موجود تمام کمانڈروں میں سب سے جری کمانڈر حُر بن یزید الریاحیؑ، تمہاری اس کیفیت کا کیا سبب ہے۔ حُر نے یہاں وہ تاریخی جملہ کہا کہ مہاجر خاموش رہو، ” میں جہنم سے جنت کی طرف سفر کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ ”

 

میری دادی مرحومہ ہندوستان کا ایک قدیم اُردو نوحہ بہت شوق سے پڑھتی اور فرمائش کر کے سنا کرتی تھیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ یہ نوحہ سنتے ہوئے وہ جھوم اُٹھتی تھیں، جیسے چشمِ تصور میں حُرؑ کو جہنم سے جنت کی طرف جاتے دیکھ رہی ہوں۔ مجھے پورا نوحہ تو یاد نہیں لیکن شاید پہلے دو مصرعے کچھ یوں تھے:

 

“حُرؑ کہتا ہوا اُٹھا کس شوق میں بستر سے

آوازِ اذاں آئی جب، شبیرؑ کے لشکر سے”

 

حُر اپنے بیٹے کے ہمراہ گھوڑے پو سوار ہوکر خیامِ حسینیؑ کی جانب بڑھا تو امام حسینؑ اُس کا استقبال کرنے یوں باہر آئے جیسے وہ جانتے ہوں کہ حُرؑ وہاں پہنچ چکا جہاں وہ اُسے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجالس میں سنتے آئے ہیں کہ حُرؑ جھکی ہوئی گردن، بندھے ہوئے ہاتھوں اور آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ ابا عبداللہؑ کے سامنے پیش ہوا اور فقط اتنا کہا کہ:
“مجھے معاف کردیجئے ابا عبداللہؑ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ آپ کو قتل کرنے پر آمادہ ہیں۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ مجھے آپ کو بیعت پر راضی کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے”

امام حسینؑ نے مسکراتے ہوئے حُر کو معاف کردیا اور اس کے بعد کے مصائب سے آپ واقف ہیں۔ میں بس اتنا یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ حُر جس کے دل میں یہ ندامت شاید ہمیشہ رہ جاتی کہ کربلا میں اگر خانوادہ رسالتؑ شہید ہوگا تو اس کی وجہ وہ ہوگا، اُس حُرؑ کے زخمی ہوکر گھوڑے سے گرنے پر اُس نے اپنا سر امام حسینؑ کے زانو پر پایا۔ امام حسینؑ اُس کے دل کی کیفیت جانتے تھے اس لیے پورا انتظام کیا کہ حُرؑ دنیا سے اس شان سے رخصت ہو جو ایک “حُر” کے شایانِ شان ہے۔ پس، امام حسینؑ نے سب سے پہلے تو حُرؑ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے حُرؑ، تم اس دنیا میں بھی حُرؑ تھے اور اُس دنیا میں بھی حُر رہوگے، بالکل اُسی طرح جیسے تمہاری ماں نے تمہارا نام حُرؑ رکھا۔ اس کے بعد اپنی ماں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا رومال حُرؑ کی پیشانی پر باندھ کر ہمیشہ کے لیے حُرؑ کی حریت پر حسینی مہر لگا دی۔ حُر بن یزید الریاحیؑ کو اسی رومالِ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ دفنایا گیا۔

 

لوگ بتاتے ہیں کہ کسی حاکم کو یقین نہ تھا کہ حُر بن یزید الریاحیؑ بدل گیا تھا اور اس کی دلیل وہ یہ کہہ کر دیا کرتا تھا کہ اگر ایسا تھا تو حُرؑ کا مزار کربلا سے اتنے فاصلے پر کیوں تعمیر ہوا، دیگر شہدائے کربلاؑ کے ساتھ یا قریب کیوں نہیں۔ تاریخی طور پر تو یہ بات واضح ہے کہ دس محرم کے بعد حُرؑ کے قبیلے والے تدفین کے لیے اُس کے جسم کو اپنے علاقے میں لے گئے تھے اور وہیں اُس کی تدفین ہوئی لیکن اس حاکم کو اس بات کا یقین نہ تھا کہ حُرؑ واقعی بدل گیا تھا۔ لہذا اُس نے حُرؑ کی قبر کشائی کا فیصلہ کیا اور قبر کا کچھ حصہ کھولے جانے پر بس اتنا منظر ہی دیکھ پایا کہ حُرؑ کی پیشانی سے اب تک تازہ خون بہہ رہا تھا، وہی پیشانی جس پر رومالِ زہراؑ بندھا ہوا تھا۔

مجھے زندگی میں ایک بار حُر بن یزید الریاحیؑ کے روضے پر حاضر ہونے کا شرف ملا ہے۔ یہ کربلا سے واقعی کافی فاصلے پر بنایا گیا ہے۔ ظاہری وجہ تو یہی ہےکہ اُس کے قبیلے والے اُس کی تدفین کے لیے اُسے اپنے علاقے میں لے آئے تھے لیکن دل کہتا ہے کہ اس میں بھی شاید کوی حکمت ہے۔ شاید کربلا سے حُرؑ بن یزید الریاحی کے روضے کا فاصلہ دیکھ کر ہر زائر کے ذہن میں بار بار حُرؑ کا وہ سفر آتا رہے، جو اُس نے باطل سے حق کی طرف کیا۔

 

تحریر یقیناً بہت زیادہ طویل ہوچکی، شاید اس کی وجہ حُر بن یزید الریاحیؑ سے وہ تعلق ہے جس کا ذکر میں نے تحریر کے آغاز میں کیا۔ حُرؑ کی ایک خاصیت اور بھی ہے۔ اُردو زبان میں کربلا کے ہر شہید کا ذکر لفظ “آپ” کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن حُر بن یزید الریاحیؑ کا کردار وہ واحد کردار ہے جس کے لیے “تم” کا لفظ تواتر سےاستعمال ہوتا ہے۔ مثلا “حرؑ سوچتا رہا، حُر اُٹھا، حُر ابا عبداللہ ؑ کے سامنے حاضر ہوا، حرؑ گھوڑے سے گرا، حُرؑ زاروقطار روتا رہا اور حُرؑ شہید ہوگیا ” ۔ میرا خیال ہے اس کا پسِ منطر حُر بن یزید الریاحیؑ کے ساتھ وہ خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے اُس کا ذکر کرنے والا ہر شخص خود کو حُر بن یزید الریاحیؑ کو بہت عزیز اور قریبی دوست تصور کرتا ہے۔ ایسا دوست جو مایوس دلوں کو اُمید بخشتا ہے، جو گناہگاروں کو یاد دلاتا ہے کہ امام حسینؑ کا در کس قدر کریم ہے۔

جو دوست احباب عراق میں موجود ہیں اور حُر بن یزید الریاحیؑ کے روضے پر حاضری دیں گے، وہ حُرؑ کو دل میں یاد کرتے ہوئے یہ بھی عرض کردیں کہ اگرچہ پیشانی پر رومالِ زہراؑ کے بندھے ہونے کے بعد کسی اور چیز کی حاجت تو نہیں لیکن پھر بھی دنیا بھر کے کروڑوں عزادار، ہر برس محرم میں حُر بن یزید الریاحیؑ کو روتے ہوئے یاد کرکے بس یہی بتلانا چاہتے ہیں کہ تمہارے دل کا ملال دور کرنے کے لیے ابا عبداللہ ؑ نے ان کروڑوں عزاداروں کے قلوب میں تمہارے لیے بہت خاص محبت بھی ڈال دی ہے۔

 

اسلام علیک یاحُر بن یزید الریاحیؑ۔