تقریبا دو تین سال پہلے پنجاب کے ایک ذاکر اقبال حسین شاہ بجاڑ کی ایک ویڈیو نظر سے گزری، پہلے بغیر دیکھے گزرنے لگا لیکن پھر معلوم نہیں کیوں دیکھنا شروع کردی۔ یہ ذاکر پنجابی زبان میں یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ عمل اور ردعمل میں کیا فرق ہوتا ہے۔ مثال دینے کیلئے بتا رہے تھے کہ کسی بچے کے چہرے پر طمانچہ مار دینا ایک عمل ہے، آپ کا اختیار ہے، آپ چاہیں تو یہ عمل نہ کریں۔ لیکن طمانچہ کھا کر بچہ روئے گا، یہ اُس کا ردعمل ہے اور اس ردعمل پر آپ کا اختیار نہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ بچہ مت روئے تو آپ کو وہ عمل روکنا ہوگا جس نے بچے کو رلایا۔
کربلا میں معصوم بچوں کے سامنے اُن کے والد کے سر کاٹے گئے، شیرخوار بچے کو ذبح کردیا گیا۔ یہ عمل تھا۔ اب اس کا ردعمل قیامت تک جاری رہے گا۔ ماتم اس ظلم کے خلاف ردعمل کا نام ہے۔ روکنا تھا تو عمل کو روکتے، ردعمل کو روکنا ممکن نہیں۔
۔
اس کے بعد اقبال حسین شاہ نے بتانا شروع کیا کہ مقتول کے ورثاء اپنے پیارے سے منسوب ہر چیز سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ کبھی ثبوت کی ضرورت پڑے تو پیش کرسکیں۔ ” خدا گواہ ہے ہم نے مولا عباسؑ کا علم بھی سنبھال کر رکھا ہے، مولا حسینؑ کا ذوالجناح بھی اور اصغرؑ کا گہوارہ بھی ۔ بس اِس اُمید پر کہ کبھی تو مالک کی عدالت لگے گی، وہ ثبوت مانگے گا اور ہم علی اصغرؑ کا خالی گہوارہ پیش کرینگے۔ جب پوچھا جائے گا کہ یہ خالی کیوں ہے تو ہم بتاینگے کہ خالی اس لئے ہے کہ اس میں سونے والے ششماہے کو بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔
آج دنیا بھر میں علی اصغرؑ کو یاد کرتے ہوئے یہی خالی گہوارہ بطور شبیہ برآمد کیا جاتا ہے
۔
مرحوم ذاکرِ اہلیبیتؑ چوہدری شجر حسین شجر کے علاوہ میں ںے کسی اور پنجابی یا سرائیکی ذاکر کو نہیں سنا ہے۔ البتہ اقبال حسین شاہ بجاڑ کی اس ویڈیو نے مجھے کچھ لمحوں کیلئے مبہوت کرکے رکھ دیا تھا۔ یہ لوگ عوامی انداز میں چھوٹے چھوٹے استعاروں میں بڑا پیغام دے دیتے ہیں۔ ان کے سامعین کا مخصوص حلقہ ہوتا ہے جس تک یہ عوامی انداز میں خدا جانے کب سے فضائل و مصائب اہلیبیتؑ پہنچاتے آئے ہیں۔ گاوں گاوں، قریہ قریہ اور شہر شہر۔ کاش کہ ان کے اندر غلط روش اختیار کرنے والے عناصر نہ گھس آئے ہوتے۔
۔
علی اصغرؑ کو دنیا میں رہنے کی فقط چھ ماہ مہلت ملی لیکن آج دنیا مولا حسینؑ کے اِس ششماہے کو “باب الحوائج” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ امام موسی الکاظمؑ، ابوالفضل العباسؑ اور اُن کی والدہِ گرامی اُم البنینؑ کے ساتھ علی اصغرؑ وہ چوتھی ہستی ہیں جنہیں باب الحوائج کہا جاتا ہے۔ جس طرح علمِ عباسؑ اور اُس علم سے جڑی ایک ننھی سے مشک مولا عباسؑ اور شہزادی سکینہؑ کی پہچان ہے، بالکل اُسی طرح خالی گہوارہ علی اصغرؑ کی پہچان ہے۔ اس خالی گہوارے کے وسیلے سے اللہ بے اولادوں کو اولاد عطا کرتا ہے، بیماروں کو شفاء بخشتا ہے اور حاجت مندوں کی حاجات قبول کرتا ہے۔ شاید ہی کوئی جلوسِ عزا ہوتا ہوگا جس میں شہزادہ علی اصغرؑ کا خالی گہوارہ نہ ہوگا۔
چاہے وہ کربلا میں موقع استشھاد علی الاصغرؑ ہو، برصغیر پاک و ہند ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک، ایک خالی گہوارہ آپ کو ہر جگہ ضرور نظر آئے گا۔ جس شیر خوار کو پیاسا قتل کردیا گیا تھا، آج دنیا بھر میں جب اُس کے گہوارے کی زیارت کے جلوس نکلتے ہیں تو جگہ جگہ پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں لگی ہوتی ہیں۔ تاکہ اس پیاسے شیر خوار کا پرسہ دینے والا کوئی بھی عزادار پیاسا نہ رہ جائے۔
۔
واقعہ کربلا کے اندر موجزن جذبات و احساسات کے سمندر میں ایک بہت بڑا حصہ اس ششماہے کا ہے۔ جس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جب لشکر یزید کی جانب مسکرا کر دیکھا تھا تو وہ لشکر بھی منہ پھیر کو رودیا تھا۔ آج میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے نواصب کو دیکھتا ہوں تو بے اختیار سوچتا ہوں کہ شاید یہ لشکر یزید کے اُن سپاہیوں سے بھی زیادہ سنگدل ہیں، جن کے دل چند لمحوں کیلئے ہی سہی، پسیج ضرور گئے تھے۔ خود کو مسلمان کہنے والے ان نواصب کو دیکھتا ہوں تو بے اختیار وہ ہندو یاد آجاتے ہیں جو ماتم کرتے ہوئے یہ ایسے نوحے پڑھتے رہے:
۔
“ہِردے میں جگہ پاتے، جیون میں سما جاتے
شبیرؑ مدینے سے، گر ہند میں آجاتے
کچھ کال نہ پڑ جاتا، سنسار میں پانی کا
دو بوند اگر ظالم، اصغرؑ کو پلا جاتے”
۔
اعمالِ روزِ عاشور میں ایک عمل یہ بھی ہے کہ سات بار اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ کہتے ہوئے آگے بڑھا جاتا ہے اور پھر واپس پیچھے ہٹا جاتا ہے۔ بچپن میں میری والدہ ہمیں کبھی کبھی یہ اعمال کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑا کرلیا کرتی تھیں لیکن اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ کہتے ہوئے اور سات بار آگے اور پھر واپس چلتے ہوئے وہ مسلسل روتی جاتی جاتی تھیں اور آنسو پونچھتے جاتی تھیں۔ کچھ بڑا ہوا تو مصائب میں سُنا کہ جب امام حسینؑ پانی کے بجائے علی اصغرؑ کی گردن میں تیر لے کر واپس آئے تھے تو اُس خیمے میں داخل ہونے کیلئے سات بار اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ ہ کہتے ہوئے آگے بڑھے تھے اور سات بار واپس پلٹ گئے تھے، جس خیمے میں علی اصغرؑ کی ماں اُمِ ربابؑ موجود تھیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ اقتدار کی جنگ تھی، دل پر ہاتھ رکھ کر کہو، ایسے کی جاتی ہے اقتدار کی جنگ؟
امام محمد باقر علیہ السلام مصائب کربلا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روز عاشور امام حسین علیہ السلام نے جو خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی جانب اچھالا تھا، اس کا ایک قطرہ بھی زمین تک واپس نہ آیا۔
۔
ایک مجلس میں جناب علی اکبرؑ کے مصائب پڑھنے کے بعد آیت اللہ نایینیؒ نے امام حسینؑ کو خواب میں تیروں سے ڈھکے جسم کے ساتھ دیکھا تھا۔ پھر اگلے روز مولا ابوالفضل العباسؑ کے مصائب پڑھنے کے بعد دوبارہ امام حسینؑ کو کچھ اس طرح خواب میں دیکھا کہ آپ ع کے جسم پر بس دو تیر باقی بچے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا تھا کہ سارے تیر عزاداروں کے آنسووں نے نکال ڈالے، بس یہ اکبرؑ اور عباسؑ کے غم کا تیر ہے جو کبھی نہ نکل سکے گا۔
یہ واقعہ پڑھنے کے بعد میں بہت دیر سوچتا رہا کہ کیا علی اصغرؑ کے غم کا تیر بھی نکل گیا ہوگا؟ اور پھر بے اختیار علی اصغرؑ کی جائے مدفن یاد آگئی۔کون نہیں جانتا ہوگا کہ امام حسینؑ نے اپنے ششماہے کو اپنے ساتھ، اپنے سینے میں دفنا رکھا ہے۔
۔
” اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ رِضاً بِقَضَائِہِ وَ تَسلِیماً لِاَمرِہ “