تبرک
کسی گھر میں کوئی انتقال کر جائے یا قتل کردیا جائے تو عموما تین دن گھر میں کھانا نہیں بنتا۔ قریبی رشتے دار اور محلے دار کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ گھر والے اور تعزیت کے لئے آنے والے یہی کھانا کھاتے ہیں۔ گویا تعزیت کیلئے آنے والوں کے طعام کا بندوبست قریبی لوگ کر کے متوفی کے ورثاء کی طرف سے ایک نمائندہ قرار پاتے ہیں جو سوگواران کی خدمت کرتے ہیں۔
اکثر مجالس میں سنتے ہیں آئے امام حسینؑ قبیلہ بنی اسد کے نمائندوں سے جب وہ زمین خرید کر انہیں دوبارہ تحفے میں دی تو دیگر باتوں کے علاوہ ان سے یہ بھی کہا کہ ہمارے جو زائرین کربلا کی زیارت کیلئے آئیں ان کی خدمت کرنا اور انکے قیام و طعام کر بندوبست کرنا۔ آج اربعین کے موقع پر نجف سے کربلا تک اور کربلا کی ہر گلی میں ہر طرف زائرین کی خدمت میں بازی لے جانے والے نظر آتے ہیں۔ گویا امامؑ کی وصیت اب صرف بنی اسد تک محدود نہیں رہ گئی۔ بلکہ ہر عراقی زائرین امام حسین علیہ السلام کی خدمت کرکے وصیت مولا حسینؑ پر عمل کرتا نظر آتا ہے۔
۔
پوری دنیا میں منعقد ہونے والی مجالس میں نیاز و تبرک کا جو سلسلہ ہے یہ سب بھی اسی پس منظر سے انجام دیا جاتا یے۔ غم حسینؑ میں رونے والوں کیلئے جو لوگ نیاز سبیل اور تبرک کا انتظام کرتے ہیں وہ دراصل امام حسینؑ کی اسی وصیت پر عمل کرتے ہیں۔ اپنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق سب کی کوشش ہوتی ہے کہ فرش عزا پر جو بھی آئے وہ بھوکا پیاسا واپس نہ جائے۔
۔
میں بچپن میں اپنی نانی کے ہمراہ مختلف مجالس میں جایا کرتا تھا۔ اکثر جلوسوں میں دیکھا کرتا تھا کہ جہاں تبرک تقسیم ہورہا ہوتا تھا وہاں بہت رش ہوتا تھا میں رش دیکھ کر تبرک لئے بغیر نکلنے کی کوشش کرتا تھا تو نانی کہتی تھیں کہ بھیا مولا کا تبرک ہے جہاں رش ہو وہاں سے ضرور لینا چاہیئے۔ نانی کی بات مجھے اب تک یاد ہے اس لیئے جہاں مشکل سے ملے وہاں سے ضرور لینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس رش میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص موجود ہوتا تھا۔
یہاں ایک بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے بڑے بزرگوں کو مجلس حسین علیہ السلام کا تبرک ہاتھ پھیلا کر ادب سے لیتے دیکھا ہے۔ کتنے ہی صاحب حیثیت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تبرک لیتے ہوئے عجز و انکساری کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ لہذا ہر محب اہلیبیت علیہ السلام کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ تبرک کے لفظ پر غور کرتے ہوئے اسے لینے کیلیے وہ طریقہ اختیار کرے جو کوئی متبرک چیز لینے کا طریقہ ہوا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو دھکے دینا، بے صبری کا مظاہرہ کرنا اور غیر مناسب طریقوں سے زیادہ تبرک حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ سب ایک محب اہلیبیت علیہ السلام کے شایان شان نہیں۔ ویسے بھی جب کھلانے والے اور بانٹنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی تو پھر جلدبازی اور پریشانی کیسی؟ کیا آپ جانتے نہیں کہ مولا ع کی مجلس میں کوئی بھوکا آ تو سکتا ہے لیکن واپس بھوکا نہیں جاتا۔ یہ کریمؑ ابن کریمؑ کی مجلس ہوتی ہے۔
ایام عزا کے یہ سوا دو مہینے صرف محبان اہلیبیت علیہ السلام کے رزق کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ پورے ملک کہ معیشت پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ ایک ریڑھی والے سے لیکر کھانا بنانے والے باورچی تک، بیکریوں سے لیکر کریانے کی دکانوں تک، تندوروں سے لیکر پھل سبزی والوں تک۔ رکشہ ویگن بس پک اپ۔ غرض کوئی طبقہ و کاروبار زندگی سے تعلق رکھنے والا آدمی نہیں ہوتا جسے امام حسین علیہ السلام کے صدقے سے ان سوا دو مہینوں میں رزق کی فراوانی نہ ملتی ہو۔ معروف اینکر پرسن کامران خان کے مطابق محرم میں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا سہارا ملتا ہے۔ میرا تو یہ یقین ہے کہ یہ ملک شدید ترین بحرانوں مشکلات و مصائب کے باوجود اگر اب تک قائم ہے تو یہ صرف عزاداری امام حسین علیہ السلام کے صدقے سے ہے۔
۔
آخر میں ایک واقعہ جو ایک مجلس میں مولانا صاحب نے بیان کیا۔ واقعہ بھی یاد ہے اور اسکے آخر میں سر پیٹ کر رونے والے عزادار بھی۔
مولانا نے بتایا تھا کہ آیت اللہ علی اکبر کوثری نام کے ایک عالم ایران میں مجالس پڑھا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آیت اللہ العظمی خمینی ؒ کے گھر پر بھی وہی مجلس پڑھا کرتے تھے۔ ایک بار روز عاشور یا اس سے پہلے وہ ایک جگہ سے مجلس پڑھ کر نکلے تو بہت سے بچوں نے انہیں گھیر لیا اور کہنے لگے کہ آپ بہت جگہوں پر مجلس پڑھتے ہیں آج ایک مجلس بچوں کی بھی پڑھیں۔ کوثری صاحب نے سوچا کہ اس قدر مصروفیت کے دوران بچوں کی مجلس کیسے پڑھوں۔ لہذا انہوں نے بچوں نے کہا کہ آج مصروفیت بہت زیادہ ہے، میں کسی اور روز تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا۔ بچے یہ سن کر افسردہ ہوئے اور دوبارہ ضد کی۔ لہذا کوثری صاحب اس شرط پر بچوں کےہمراہ چلنے پر راضی ہوگئے کہ وہ بس چند منٹ مجلس پڑھیں گے اور پھر روانہ ہوجاینگے۔
بچے انہیں لیکر ایک مقام پر آئے جہاں ایک کچے فرش پر دری بچھا کر مجلس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کوثری صاحب نے کچھ دیر فضائلِ آل محمدؑ بیان کیے پھر کچھ مصائب پڑھے اور مجلس تمام ہوگئی۔ وہ رخصت ہونے لگے تو بچوں نے کہا آپ بغیر تبرک کے کیسے جاسکتے ہیں۔ ایک بچہ دوڑ کر گیا اور ایک پیالی میں ایرانی چائے لے آیا۔ اُنہوں نے ایک گھونٹ پیا اور بچوں سے نظریں بچا کر باقی چائے زمین پر بہا دی اور رخصت ہوگئے۔
۔
اسی رات خواب میں ایک باپردہ خاتونؑ تشریف لائیں اور کہا کہ تم نے ابتک جتنی مجالس پڑھیں وہ ایک طرف اور آج وہ بچوں کی مجلس ایک طرف۔ جان لو کہ تمہاری یہی مجلس سب سے زیادہ مقبول قرار پائی۔ اِس مجلس میں میں خود موجود تھی اور جو تبرک تم نے زمین پر بہا دیا تھا وہ میں نے ہی بنایا تھا۔ بس یہ وہ جملہ تھا جس پر مجلس میں لوگ سر پیٹ کر بے اختیار روتے رہے۔