مسجد شیعاں کشمیریاں موچی دروازے میں مجلسِ شبِ عاشور
اِس سال شب عاشور سے لیکر صبحِ عاشور تک کا وقت لاہور کی مرکزی زیارت میں محلہ شیعاں اندرون موچی دروازہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ میں اپنے بھائی کے ہمراہ مسجد شیعاں کشمیریاں میں جاکر بیٹھ گیا تھا جہاں مجلس جاری تھی اور ایک کے بعد ایک سلام و سوز خواں مصائب اہل بیت علیھم السلام پر مبنی کلام پڑھ رہے تھے۔ اِسی مسجد سے فجر کے وقت اذان علی اکبر علیہ السلام دی جاتی ہے، جو لاہور کی اِس تاریخی اور مرکزی زیارت کا لازم و ملزوم جُزو ہے۔
بہرحال سوزو سلام کا سلسلہ جاری تھا۔ وقت فجر کچھ قریب ہوا تو بیلا برادران نے اپنا مخصوص کلام “ایک بار اور مجھے گود میں لے لو بابا ؑ” پڑھنا شروع کیا۔ پوری مسجد میں ہر جانب سے گریہ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ بیلا برادران سلام پیش کر چکے تو اعلان ہوا کہ اب مسجد کے خطیب مصائب شب عاشور بیان فرمائیں گے۔ واضح رہے کہ مسجد شیعاں کشمیریاں اندرون موچی گیٹ لاہور میں آغا سید حسن موسوی ، پھر ان کے فرزند آغا علی موسوی ، اور بعد ازاں ان کے پوتے آغا حیدر موسوی پیش نمازی و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے – آج کل یہ ذمہ داری آغا جواد موسوی سرانجام دے رہے ہیں اور انہوں نے ہی مصائب شب عاشور بیان کیے۔
فجر کا وقت قریب تھا، شب عاشور کی اداس ساعتیں صبح عاشور کی کربناک ساعتوں میں ڈھل رہی تھیں، بیلا برادران کے سلام نے مجلس میں بے پناہ رقت کا ماحول طاری کر رکھا تھا۔ ویسے بھی یہ شب عاشور تھی، قیامت کی رات تھی اس روز رونے کیلئے مصائب کے وسیلے کی ضرورت نہیں تھی، ہر عزادار کا دل ہی عزاخانہ تھا لیکن مصائب تو بیان ہونا تھے اور عزاداروں کو سننا بھی تھے۔
مولانا نے مصائب بیان کرنا شروع کیے، صدائے گریہ بلند ہوئی لیکن پھر اچانک مولانا نے مصائب کے درمیان یہ بتانا شروع کر دیا کہ کس طرح شام کے محاذ پر مجاہدین کارنامے انجام دے رہے ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ شام میں سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اپنی نگرانی میں امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی فوج تیار کر رہی ہیں۔ وہ گریہ کرنے کیلئے بے چین عزاداروں کو بتا رہے تھے کہ اُن سب کو امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کا سپاہی بننا ہے۔ مسجد شیعاں کشمیریاں کا وہ ہال جہاں کچھ ہی دیر قبل صدائے گریہ بلند تھی، وہاں خاموشی سی چھا گئی۔ میری بالکل اگلی صف میں ایک نوجوان کچھ دیر قبل اپنا سر اور چہرہ پیٹ کر رو رہا تھا وہ خاموش ہو چکا تھا۔ میں نے ارد گرد نظر دوڑائی اور اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ کاش مولانا نے یہ باتیں بتانے کیلئے شب عاشور کا انتخاب نہ کیا ہوتا۔ اِن کی باتوں سے اتفاق یا اختلاف ایک الگ بحث ہے۔ مجھے بس یہ محسوس ہوا کہ ہر بات کرنے کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے اور کم از کم شب عاشور اور صبح عاشور کا درمیانی وقت اِن باتوں کا وقت نہیں تھا۔ یہ مصائب بیان کرنے کا وقت تھا، گریہ و ماتم کا وقت تھا، صلی اللہ علیک یا ابا عبداللہ کہہ کر مولا حسین علیہ السلام کو یاد کرنے کا وقت تھا، علم مولا عباس علیہ السلام سے لپٹ کر رونے کا وقت تھا، اذان علی اکبر سن کر علی اکبر علیہ السلام پر رونے کا وقت تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مولانا اور اُن کے ہم فکر علماء و خطباء کے پاس تمام سال منبر موجود ہوتا ہے، وہ جب چاہیں لوگوں تک اپنے افکار و نظریات پہنچا سکتے ہیں لیکن کم از کم محرم اور بالخصوص محرم کے پہلے دس دن اور اِن دس دنوں میں بھی بالخصوص شبِ عاشور، روزِ عاشور اور شامِ غریباں کے دن وہ دن ہیں جن میں صرف اور صرف غمِ اہل بیتؑ میں رونا چاہئے اور رلانا چاہئے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے امام علی ابنِ موسی الرضاؑ کے یہ جملے یاد آتے ہیں جو آپؑ نے دعبل خزاعیؒ سے روزِ عاشورکہے تھے:
اے دعبل، چونکہ آج یوم عاشور ہے اور یہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج وغم کادن ہے۔ لہذا تم میرے جد مظلومؑ کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعر پڑھو۔ اے دعبل، جو شخص ہماری مصیبت پر روئے یا رلائے، اس کا اجر خدا دیتا ہے۔ اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں ترہو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہوگا۔ اے دعبل جو شخص ہمارے جدؑ کے غم میں روئے گا، خدا اُس کے گناہ بخش دے گا۔
شاید کچھ ہی لمحوں میں مولانا اور اِن کے ہمراہ موجود احباب کو اندازہ ہوگیا کہ اِس مجلس کا یہ حق ہے کہ اس میں مولا حسین علیہ السلام کو یاد کرکے گریہ کیا جائے۔ لہذا مجلس میں دوبارہ رقت و گریہ کا ماحول بحال کرنے کیلئے اِن سب نے مل کر “کربلا اکبر ؑ میرا نوجواں” پڑھنا شروع کیا اور مجلس آہستہ آہستہ ٹھیک اُس جگہ واپس پہنچ گئی جہاں ُاسے بیلا برادران چھوڑ کر گئے تھے۔ مسجد کے ہال میں دوبارہ صدائے گریہ بلند ہوگئی، میری اگلی صف میں بیٹھا نوجوان دوبارہ اپنا سر اور چہرہ پیٹنے لگا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی مردہ جسم میں دوبارہ خون کی روانی بحال ہوگئی ہو۔ چند لمحے گزرے اور فضا میں اذان علی اکبرؑ کی صدا گونج اٹھی۔ مؤذن نے اللہ اکبر کہا تو عزادار زاروقطار روتے رہے، اشھد ان لا الہ اللہ کہا تو گریہ اور بلند ہوگیا، اشھد ان محمؐد رسول اللہ پر گریہ چیخوں میں بدل گیا، اشھد علیا ولی اللہ پر گریہ و ماتم کی شدت اور بڑھ گئی اور جونہی مؤذن نے حی علی خیر العمل کہا، محلہ شیعاں سے زنجیروں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ مجھے مسجد کوفہ میں شبِ ضربت کا وقت یاد آگیا جب اذانِ فجر ہوتے ہی عزاداروں کی بڑی تعداد امیر المومنینؑ کے سرِ مبارک پر لگی ضربت کو یاد کرتے ہوئے قمہ زنی کرتے ہیں اور پھر اِسی مسجد کوفہ میں نمازِ فجر کی صفیں درست ہوجاتی ہیں۔ مسجد شیعاں کشمیریاں اور اُس سے متصل محلہ شیعاں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اذان سنتے ہیں عزاداروں نے مولا حسینؑ کے حلقوم مبارک پر چلنے والے خنجر کو یاد کرتے ہوئے زنجیر زنی شروع کی اور کچھ دیر بعد مسجد شیعاں کشمیریاں میں نمازِ فجر کیلئے صفیں درست ہوگئیں۔
صبح عاشور ہو چکی تھی۔ میں اپنے بھائی کے ہمراہ مسجد سے یہ دعا مانگتا ہوا باہر نکل آیا کہ امام زمانہ صلوات اللہ علیہ اپنے جد آقا حسین علیہ السلام کے ان تمام عزاداروں سے راضی ہوں۔