چند سال قبل سپریم کورٹ کے آسیہ بی بی کے حق میں فیصلے کے بعد جہاں خود کو ناموس رسالتؐ کا علمبردار قرار دینے والوں کے ملک گیر جلاو گھیراو اور غریب و امیر شہریوں کی املاک برباد کرنے کے مناظر ساری دنیا نے دیکھے تو وہیں میری نظر سے سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تحاریر بھی گزریں جن میں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہی پروانے شیعوں پر طعنے کسنے میں مصروف تھے کہ سب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ردعمل دیدیا مگر شیعوں نے کچھ نہیں کہا۔ گویا یہ چاہتے تھے کہ شیعہ بھی اپنا عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ثابت کرنے کیلئے وہی انداز اختیار کریں جو انداز ان کا ہے۔ البتہ شیعوں کا انداز مختلف ہے۔
۔
میں نے سوچا کہ خود کو عشق رسولؐ کا تنہا علمبردار قرار دینے والوں کو جواب دینے کیلئے ستائیس اور اٹھائیس صفر سے بہتر تاریخ اور کیا ہو سکتی ہے؟ ہمارے ہاں ان دو تاریخوں میں مجالس عزا اور شبیہ تابوت کا قدیمی سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ان مجالس میں ہم شہادت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شہادت نواسہ رسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہیں۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت کی مجالس میں جو مصائب بیان ہوتے ہیں، ان کا تذکرہ تو ہم اکثر سنتے ہیں۔ ابھی میں آپ کو بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم رسول کریمؐ کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے دن ان کو یاد کرتے ہوئے فرش عزا کیسے بچھاتے ہیں، کیسے آنسو بہاتے ہیں اور کیسے سیدہ سلام اللہ علیھا کو ان کے باباؐ کا پرسہ دیتے ہیں۔
۔
ان تاریخوں میں کہیں شبیہ تابوت برآمد ہوتی ہے، سیدہ سلام اللہ علیھا کے اپنے باباؐ سے بچھڑنے کے بعد گریہ و فغاں کا تذکرہ ہوتا ہے، رسول اکرمؐ اور سیدہ سلام اللہ علیھا کی محبت کا ذکر ہوتا ہے۔ فرش عزا پر آنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ جنت البقیع میں ایک بیت الحزن تھا، جسے امام علیؑ نے سیدہؑ کیلئے تعمیر کیا تھا، جہاں سیدہ سلام اللہ علیھا اپنے باباؐ کی یاد میں “صبت علی مصائب۔۔۔” کا نوحہ پڑھتے ہوئے صبح شام گریہ کیا کرتی تھیں۔ یہ مجالس ہر برس ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم فقط عید میلاد النبیؐ پر خوش نہیں ہوتے بلکہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچھڑنے پر فرش عزا بھی بچھاتے ہیں۔ آپؐ کو یاد کرکے آنسو بھی بہاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہمارے ہاں صادقِ آلِ محمدؐ امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول موجود ہے جس میں وہ اپنے اجدادؑ سے نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ وقتِ رخصت امام حسن مجتبیؑ نے اپنے اہلیبیتؑ سے فرمایا تھا کہ میں ٹھیک اُسی طرح زہر کے اثر کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں جیسے میرے نانا رسول اللہؐ زہر کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوئے۔
۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر بڑی بڑی اور قیمتی کتابیں لکھی گئی ہیں اور ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان سخت مصائب اور صعوبتوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا جاتا رہا ہے جن کا سامنا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کے فورا بعد کے عرصے میں کیا۔ طائف میں پتھر کھا کر دعائیں دینا، قریش کے مظالم سہنا، ہجرت کا دکھ جھیلنا، شعب ابی طالب کا سخت ترین عرصہ، جنگ احد میں اپنے پیارے چچا امیر حمزہ علیہ السلام کی دردناک شہادت کا صدمہ برداشت کرنا، ام المومنین ملیکہ العرب سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیھا اور محسن اسلام سرکار ابو طالب علیہ السلام کی رحلت کا غم برداشت کرنا جس کے اظہار کیلئے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پورے سال کو عام الحزن قرار دیا تھا۔
یہ وہ مصائب اور صعوبتیں ہیں جن کا کسی نہ کسی طور تذکرہ ہم پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کچھ مصائب ایسے ہیں جن کا ذکر ہمیں بس اٹھائیس صفر کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت سے منسوب مجالس میں سننے کو ملتا ہے۔ یہ مصائب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کے مصائب ہیں۔ یہ وہ مصائب ہیں جن کا آغاز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے ظاہری طور پردہ کر جانے کے فورا بعد ہوگیا۔
ہم یہ مصائب بیان کرتے ہیں کہ آخر اٹھائیس صفر کو شہادت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ایسے کیا واقعات پیش آئے کہ ربیع الاول کے آغاز میں نواسہ رسول جناب محسن علیہ السلام شہید ہوگئے؟ ہم سوال پوچھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دختر کا پہلو کیوں شکستہ ہوا؟ امام علی علیہ السلام کے ضبط، صبر اور آپ کی مظلومیت کا ذکر ہوتا ہے۔ در سیدہ سلام اللہ علیھا پر رونما ہونے والے دردناک واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازے بلکہ مظلوم جنازے کا تذکرہ ہوتا ہے۔ باپ اور بیٹی کی آخری ملاقات اور گفتگو کا بیان ہوتا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹی سیدہ سلام اللہ علیھا کو بتائی گئی اس خبر کا ذکر ہوتا ہے جس میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی دختر کو بتایا تھا کہ مجھ سے تمہاری ملاقات جلد ہی ہوگی اور پھر واقعی یہ ملاقات فقط چند ماہ بعد ہوگئی تھی۔ ہمارے ہاں جب مصائب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیان ہوتے ہیں تو ذاکر سیدہ سلام اللہ علیھا کی یتیمی کا ذکر کرتے ہوئے کربلا میں فرزند سیدہ سلام اللہ علیھا کی یتیمہ کا ذکر بھی ضرور کرتے ہیں۔
۔
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان مجالس میں جب ذاکر بیان کرتا ہے کہ کس طرح رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وقت آخر قلم اور دوات طلب کیے تھے تو کس قدر شدت سے گریہ ہوتا ہے۔ سب عزادار اس کریم کی اپنی امت سے محبت کو یاد کر کے روتے ہیں اور پھر یہ یاد کر کے روتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو “بلغ” کا حق دنیا سے رخصت ہونے سے قبل بھی ادا کرتے رہے لیکن افسوس امت نے حق کو ویسے قبول نہ کیا جو قبول کرنے کا حق تھا۔ یہ وہ مصائب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا تذکرہ بس اٹھائیس صفر کو شہادت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سلسلے میں بپا ہونے والی مجالس میں ہوتا ہے۔
مجھے جب پہلی بار روضہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا تو مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جالی سے کچھ آگے جاکر دائیں جانب کھڑے ہوکر میں نے دل ہی دل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مصائب کا یہی حصہ سب سے زیادہ یاد کیا تھا۔ اور کچھ یوں یاد کیا تھا کہ جیسے میں بارگاہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوں اور اقرار کر رہا ہوں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے یقینا “بلغ” کا پیغام ہم تک پہنچانے کا حق ادا کیا کہ کہیں آپ کے بعد آپ کی امت گمراہ نہ ہوجائے، کوئی کمی نہ چھوڑی اس امت سے اپنی محبت کے اظہار میں، کوئی کثر نہ رہنے دی یہ احساس دلانے میں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی امت کیلئے کس قدر فکر مند ہیں۔ میں دل ہی دل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی امت کیلئے محبت، شفقت اور فکر مندی کو یاد کرتا رہا تھا کہ کیسے وہ ہادی برحق دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے سے قبل بھی اپنی امت کی فلاح کیلئے نصیحت اور وصیت لکھنا چاہتے تھے جو لکھی نہ جا سکی۔ مجھے کبھی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت سے محبت پر رونا آتا تھا اور کبھی سرکار ص کی مظلومیت پر۔
قبر مطھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب سر جھکائے کھڑے ہوکر دل ہی دل میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان مصائب کو یاد کرنا مجھے آج تک یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گا۔ کیوں کہ یہ وہ مصائب ہیں جن کا ذکر سوائے ہمارے کوئی کرتا نہیں۔
کھا کے پتھر بھی جو امت کو دعا دیتے رہے
ایسے محسنؐ کا نہ احسان بھلاو لوگو
آو تابوت محمد ؐ کا اٹھاو لوگو