تذکرہِ اہل بیتؑ

میری نانی مرحومہ بڑی مومنہ خاتون تھیں۔ واجبی سی دنیاوی تعلیم تھی اور دینی تعلیم اُن کی یہ تھی کہ ہر مشکل کا حل ایک نمازِ حاجت، کشمکش کا حل استخارہ، کڑکتی سردی ہو یا سخت گرمی، اپنی زندگی کے آخری ایام تک باقاعدگی سے فجر کے وقت بیدار ہوجانا، رات آٹھ نو بجے تک سو جانا البتہ اگر محرم میں رات کے پچھلے بہر ٹی وی یا کمپیوٹر سے مجلس میں مصائب کی آواز آجائے تو کمرے سے چہرے پر دوپٹہ رکھے باہر آنا اور زار و قطار رونا شروع کردینا، محرم میں ہر روز شربت پر نذر دلوانا، کبھی کسی حاجت مند کیلئے معجزہِ سیدہؑ کی منت مان لینا، قران کے بعد جن کتابوں کا نام اُنہیں معلوم تھا وہ شاید تحفۃ العوام تھی، آیت اللہ محسن الحکیمؒ کا نام بھی اکثر لیا کرتی تھیں۔ قران سے یاد آیا کہ اُنہیں خواب میں جنت میں اُن کا گھر دکھایا گیا تھا جس میں دو کمرے تھے، بتایا گیا کہ ایک کمرہ تلاوِت قران کیلئے ہے۔ مجلس میں جانے کی جلدی ہوتی تھی اور فورا رکشہ مل جایا کرتا تھا تو اُن کے لئے یہ مولاؑ کا معجزہ ہوتا تھا۔ گلی میں رہنے والی کیا سُنی، کیا  اہل ِحدیث اور کیا شیعہ۔ میں نے سب خواتین کو اُن سے نمازِ حاجت پڑھنے کی درخواست کرتے دیکھا تھا، جس پر وہ کمال اعتماد کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ جب حاجت پوری ہو تو ہمیں بتا دیا کرو، تاکہ ہم منت بڑھا دیں، یعنی نمازِ شکرانہ پڑھ دیں۔
۔
یہ نانی کا مختصر سا تعارف تھا۔ چونکہ ہر نواسے کی طرح، میرا بھی بہت قریبی اور گہرا تعلق رہا اس لئے اپنی تمام تر نالائقی اور لاپرواہی کے باوجود اُن کی سکھائی کچھ باتیں اب بھی یاد رہ گئیں۔
۔
میں بہت چھوٹا تھا تو نانی نے کہا کہ جب کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھا کرو تو اُسکے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام بھی کہہ دیا کرو۔ میں اتنا چھوٹا تھا کہ وجہ جاننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی، بس اُنہوں نے اتنا ہی بتایا تھا کہ امام جعفر صادقؑ نے بہت بڑا کام کیا ہے شیعوں کیلئے، اس لئے برکت کیلئے اُن کا نام ضرور لینا چاہئے۔ اِسے اُن کی عقیدت کہہ لیں یا مودت کے اظہا ر کا طریقہ۔ بچپن میں یہ عادت ایسی مضبوط ہوگئی کہ میں آج بھی اکثر کھانے سے پہلے بسم اللہ کہتا ہوں تو امام جعفر صادق علیہ السلام بے اختیار خود ہی زبان سے ادا ہوجاتا ہے۔ میں ہی نہیں، میرے بہن بھائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جانتا تو ابھی بھی کچھ نہیں ہوں، لیکن جو چند باتیں مجالس میں سنتا آیا ہوں یا چند کتابوں میں پڑھی ہیں، تو اُن کی بنیاد پر اب یہ وجہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوتی کہ میری نانی مرحومہ کھانے سے پہلے بسم اللہ کے بعد امام جعفر صادقؑ کہنے کو کیوں کہتی تھیں۔
۔
سادات شیعوں اور سنیوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ نقوی، کاظمی زیدی، رضوی، جعفری، عابدی، باقری، حسنی، حسینی، تقوی، موسوی۔ یہ شیعوں میں سادات کے ناموں کے ساتھ ان کے شجرہ کی مناسبت سے یہ الفاظ لکھنے نظر آتے ہیں۔ پھر غیر سادات شیعہ ہوتے ہیں جو مختلف ذات و برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاک و ہند ہو، ایران ہو، عراق ہو یا خطہِ عرب کا کوئی بھی ملک۔ ہر جگہ شیعوں میں سادات اور غیرِ سادات کی یہی تقسیم ہوتی ہے۔ البتہ کوئی بھی شیعہ، وہ چاہے سید ہو یا غیر سید، وہ جعفری ضرور ہوگا۔ یہ نسبت امام جعفر صادقؑ کی وجہ سے ہے۔ وہ نسبت جو ایک رضوی کو بھی جعفری شیعہ بناتی ہے اور ایک غیر سید کو بھی۔ پوری دنیا کے اہلِ تشیع آج فخر سے خود کو جعفری شیعہ کہلاتے ہیں۔
۔
یہ اُس محنت کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد مدینہ میں امام سجادؑ نے رکھی، جس کی بنیادیں اُن کے فرزند اور اہل  بیتؑ کے پانچویں امام، امام باقرؑ نے مستحکم کیں اور پھر امام جعفر صادقؑ نے اس کو پروان چڑھاتے ہوئے اُس مقام تک پہنچا دیا کہ آج اُن کی فقہ، یعنی مکتبِ اہل بیتؑ کو فقہ جعفریہ کے نام سےجانا جاتا ہے۔ یہ امام جعفر صادقؑ کا ہی ہم پر احسان ہے جو قال الصادقؑ اور قال الباقرؑ سے مزین مستند کتب کا ایسا علمی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے جو قیامت تک کیلئے کافی ہے۔ یہ امام جعفر صادقؑ کے پینسٹھ سالہ دورِ امامت کا فیض ہے جو آج ایسے منظم و مستند علمی ذخیرے کی صورت جاری ہے۔ یہ پینسٹھ سالہ دور وہی دور تھا جس میں زید شہیدؒ کے انقلاب کا واقعہ رونما ہوا، جو کامیاب نہ ہوسکا اور اُن کی دردناک شہادت پر منتج ہوا۔ انہی پینسٹھ سالوں میں حضرت نفسِ ذکیہ کے قیام اور شہادت کا واقعہ رونما ہوا۔ اسی دور میں بنو اُمیہ اور بنو عباس کی جنگ ہوئی اور ملوکیت کا سلسلہ بنو اُمیہ سے بنو عباس کے قبضے میں آیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ملوکیت زدہ اسلام کے دو گروہ آپس میں ہوس اقتدار کی خاطر برسر پیکار تھے تو ایسے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وارث صادق آل محمد ؑ مسجد نبوی میں بیٹھ کر لوگوں کو بتلا رہا تھا کہ اسلام محمدی ؐ  کیا ہے، “انی تارک فیکم الثقلین” کی اہمیت کیا ہے۔
۔
ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ مدینہ میں قائم امام جعفر صادقؑ کے درس میں بڑے بڑے فقہا پڑھتے رہے جنہیں امام جعفر صادقؑ کا شاگرد بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ میرا مقصد کسی بھی اختلافی نکتے کو بیان کرنا نہیں لیکن بحیثیت ایک کم علم انسان، یہ سوال میرے ذہن میں آتا ضرور ہے کہ کیا وجہ ہے کہ امام باقرؑ سے لیکر امام جعفر صادقؑ کے علمی و تحقیقی دور تک اور پھر امام موسی کاظمؑ کے دور تک، بہت سے نامور محدثین موجود تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان تینوں ہستیوں سے مروی شاید ہی کوئی روایت ان محدیثین کی مرتب کردہ کتب میں پائی جاتی ہو۔ اگر ہوگی بھی تو برائے نام ہوگی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہستیاں، بالخصوص امام جعفر صادقؑ خاموش نہیں بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہزاروں شاگردوں کو تعلیم دے رہے تھے، روایات بیان کر رہے تھے۔ ان شاگردوں میں ماہرِ کیما، جابر بن حیان جیسی شخصیات بھی موجود تھیں۔
۔
پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اگر کسی شخصیت کو صادق کے لقب سے یاد کیا گیا، تو وہ آپ ہی کے چھٹے وارث امام جعفر صادقؑ ہیں۔ جعفر کا مطلب جنت کی ایک رواں نہر اور صادق کا مطلب سچا۔ یعنی یہ سچ کا فیض پھیلاتی ہوئی جنت کی ایک نہر ہے۔

۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شیعوں پر جو احسانات کیے، اُن میں سے ایک احسان قبرِ مطھر امیر المومنین علیہ السلام کی نشاندہی بھی ہے۔ سفرِ عراق کے دوران مولا جعفر صادق علیہ السلام زیارتِ قبرِ امام علی علیہ السلام کیلئے تشریف لے گئے۔ آپؑ نے اپنے پیروکاروں کو قبرِ امام علیؑ کی نشاہندہی کروائی جو اؐس سے قبل مخفی تھی۔ کلینیؒ کے مطابق ایک دن امام جعفر صادقؑ، یزید بن عمرو بن طلحہ کو حیرہ اور نجف کے درمیان کسی مقام پر لے گئے اور وہاں آپؑ نے اسے مولائے کائناتؑ کی قبر مطھر کی نشاندہی کرائی۔ شیخ طوسیؒ فرماتے ہیں: امام جعفر صادقؑ امام علی علیہ السلام کی قبر مطھر کے نزدیک تشریف لائے، وہاں نماز پڑھی اور یونس بن ظَبیان سے فرمایا:

 

“یہ امیر المؤمنین علیہ السلام کا مزار ہے “
۔
آج نجف الاشرف میں اپنے مولا امیرالمومینؑ کے روضہ مبارک کے در و دیوار اور فرش کو چومنے والے، ضریح مقدس سے لپٹ کر دل کی باتیں کہنے والے موالیانِ حیدرِ کرارؑ جہاں صادقِ آلِ محمدؑ کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو وہیں چند لمحوں کیلئے نجف الاشرف سے مدینہ منورہ کے ایک تاریک قبرستان البقیع بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں مزارِ امیرالومنین علیہ السلام کی نشاہندہی کرنے والے، فرزند امیر المومنینؑ کی قبر مطھر کا بس نشان ہی باقی ہے۔

۔

میں کوئی عالمِ دین یا محقق نہیں ہوں، میں نے تو علم و فضل کے اِس عظیم باب کی بارگاہ میں یہ چند ٹوٹے پھوٹے لفظ اس اُمید کے ساتھ پیش کیے ہیں کہ شاید مجھ کم علم پر بھی صادقِ آلِ محمدؑ کی نظر کرم ہوجائے اور میں بھی کچھ سیکھ سکوں۔ میں اسناد کی چھان پھٹک کا ماہر بھی نہیں کہ یہ فیصلہ کر سکوں کہ کون سی روایت مستند ہے۔ لیکن ایک روایت کہیں سنی تھی جس کا مفہوم تھا کوئی محبِ اہل بیتؑ جب کسی سے علمی بحث کرے اور اُسے کسی ایسے سوال کا جواب دینا مقصود ہو، جس کے بارے میں اُس کے ذہن میں کوئی فوری دلیل نہ ہو تو کوئی ہے جو اُسے دلیل اور جواب ڈھونڈنے میں مدد کردیتا ہے۔ یہ مددگار صادقِ آلِ محمدؑ ہے۔ میں بہت گناہگار انسان ہوں، لیکن یہ تجربہ مجھے بہت بار ہوا کہ جب جب خود کو لاجواب ہوتا محسوس کیا تو عین اسی وقت مشکل کشائی ہوئی اور ذہن کو ایسی دلیل میسر آگئی کہ خود ذہن بھی حیران رہ گیا۔
۔
۱۱ ائمہ اہلیبیتؑ میں سے امام جعفر صادقؑ نے سب سے زیادہ عمر پائی، یعنی پینسٹھ برس۔ بلاخر اُنہیں بھی عباسی خلیفہ  منصور دوانقی لعین نے زہر دیا۔ امامؑ کی زوجہ حمیدہ خاتونؒ سے امام جعفر صادقؑ کے صحابی ابو بصیر نے تعزیت کرتے ہوئے امامؑ کی وصیت سے متعلق پوچھا تھا۔ جس پر حمیدہ خاتونؒ نے بتایا تھا کہ امامؑ نے آخری وقت ہم سب کو اپنے قریب بلا کر فرمایا تھا کہ میرے چاہنے والے یہ جان لیں کہ نماز کو حقیر سجھنے والوں کو ہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔
۔
میں نے یہ بھی بہت بار سنا ہے کہ کسی نے امامؑ سے دریافت کیا تھا کہ کیا وجہ ہے جو مولا حسینؑ کا نام سنتے ہی اُن کے چاہنے والے کی آنکھ میں آنسو آجاتا ہے؟ جس پر امامؑ نے جواب دیا تھا کہ دراصل محبانِ اہل بیتؑ کی تخلیق کی وقت اُن کی مٹی میں ایک چٹکی خاکِ شفاء بھی شامل کردی جاتی ہے۔ لہذا جیسے ہی کوئی محبِ اہل بیتؑ  میرے جد حسینؑ کا نام سنتا ہے تو اِس خاکِ شفاء کی وجہ سے غم سے مغلوب ہوجاتا ہے اور اُس کی آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں۔
۔
امامؑ سے اُن کے ایک چاہنے والے نے اپنی مالی تنگدستی کا ذکر کیا تھا کہ آقا میں بہت پریشان ہوں۔ جس پر امامؑ نے جواب دیا تھا کہ نہیں، تم تو بالکل غریب نہیں ہو، بلکہ بہت امیر ہو۔ اُس شخص نے حیران ہوکر استفسار کیا تھا کہ مولاؑ میں سخت مالی پریشانی کا شکار ہوں اور آپ فرما رہے ہیں کہ میں غریب نہیں ہوں۔ جس پر امامؑ نے اُس سے فرمایا تھا کہ تم ہم آلِ محمدؑ سے محبت کرتے ہو؟ اُس نے جواب دیا جی مولاؑ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ تو کیا تم یہ محبت کسی قیمت پر فروخت کرنا چاہو گے؟ اُس شخص نے تڑپ کر جواب دیا، ہرگز نہیں مولاؑ۔ حبِ اہلِ بیتؑ تو کسی قیمت پر فروخت نہ کروں گا۔ جس پر امامؑ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایسی قیمتی دولت کے ہوتے ہوئے خود کو غریب کہتے ہو؟
۔
پندرہ شوال، شہادتِ صادقِ آلِ محمدؑ پر یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس اُمید کی ساتھ مولاؑ کی بارگاہ میں پیش کررہا ہوں کہ وہ مجھ گناہگار، کم علم اور عاجز انسان کو اپنی شفاعت سے محروم نہ کرینگے۔ میں گناہگار سہی لیکن اتنی نسبت تو ہے ہی کہ بچپن سے اب تک کھانے کا پہلا لقمہ کھانے سے پہلے بسم اللہ کے بعد آپؑ کا نام لیتا آیا ہوں۔