کریمِ اہلِ بیتؑ امام حسن المجتبیؑ از نور درویش
اپنی والدہ سیدہ نساء العالمینؑ کی طرح، اِمام حسن المجبتیؑ کے مصائب بھی اپنے ناناؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوئے، پھر کبھی امام حسنؑ نے اپنی والدہ سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کا پہلو شکستہ ہوتے دیکھا، کبھی اُنؑ کا جنازہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتے دیکھا، کبھی سجدے میں اپنے بابا امام علی علیہ السلام کے سر پر ضربت لگتے دیکھی اور اُنہیں دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا۔ اس مظلوم امامؑ کو زہر دے کر شہید کیا گیا اور پھر جنازے پر تیر برسائے گئے۔ یہ وہ امامؑ ہے جس نے اپنے بھائی مولا حسینؑ کے مصائب یاد کرتے ہوئے اُس سے کہا کہ “لا یوم کیومک یا ابا عبداللہؑ”، جیسے کہہ رہا ہو کہ میرے مصائب پر افسرددہ کیوں ہو میرے بھائی، تمہارے دن (عاشور) جیسا تو کوئی دن نہ ہوگا۔ ہاں، بطور نشانی ایک تعویزِ حسنؑ اپنے بیٹے قاسم کے ہاتھ پر ضرور باندھ گیا تھا۔ یہ تعویز وہ تعویز ہے جو آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی، جنابِ قاسمِ ابن حسنؑ کے مصائب سنتے ہوئے ہر عزادار کو یہ محسوس کرنے پر مائل کردیتا ہے کہ جیسے امام حسنؑ بھی کربلا میں موجود ہیں، امام حسینؑ اور جناب قاسمؑ کے ساتھ۔
۔
امام حسنؑ نے وفاداریوں کو بِکتے دیکھا، اپنوں کے منہ سے “یا مذل المومنین” جیسے الفاظ سُن کر ضبط کیا، وہ مولا حسن المجبتیؑ جنہوں نے جمل، صفین و نہروان میں قلبِ لشکر سنبھالتے ہوئے شجاعت کے جوہر دکھائے تھے، اُنہی حسن المجبتیؑ نے صبر کرتے ہوئے صلح کی اور اپنے ناناؐ کی صلح حدیبیہ کی یاد تازہ کی۔ اپنے بابا امام علیؑ کی طرح معلوم نہیں امام حسن المجبتیؑ کے حلق میں کب کب کانٹا سا چبھتا محسوس ہوتا ہوگا۔
لفظ صلحِ حسنؑ استعمال ہوا تو یہاں شانِ امام حسن مجبتیؑ بیان کرتے ہوئے علامہ طالب جوہریؒ کے یادگار جملے نقل کرتا چلوں کہ :
“حسنؑ اپنے زمانے کے محمدؐ رسول اللہ ہیں۔ وہ روایت تو یاد ہوگی کہ اولنا محمدؐ و اوسطنا محمدؑ و اخرنا محمدؑ۔ اگر یہ روایت نہ بھی ہوتی تو یاد ہے ایک بار رسولِؐ اللہ نے چادر میں جمع کر کے فرمایا تھا کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں اِن (اہل بیتؑ) سے ہوں۔ ایک الگ روایت بھی موجود ہے کہ حسنؑ مجھؐ سے اور میںؐ حسنؑ سے ہوں۔ تو اپنے زمانے کے محمدؐ ہیں حسنؑ۔ محمدؐ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں ایک صلح کی جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں اور حسنؑ نے بھی اپنی پوری زندگی میں ایک ہی صلح کی جسے صلحِ حسنؑ کہتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کن کے ساتھ ہوئی؟ مشرکینِ مکہ کے ساتھ۔ تو صلحِ حسنؑ میں محمدؐ رسول اللہ کے نمائندے تو ہیں حسنؑ لیکن مشرکینِ مکہ کا نمائندہ کون ہے؟
لفظ صلحِ حسنؑ استعمال ہوا تو یہاں شانِ امام حسن مجبتیؑ بیان کرتے ہوئے علامہ طالب جوہریؒ کے یادگار جملے نقل کرتا چلوں کہ :
“حسنؑ اپنے زمانے کے محمدؐ رسول اللہ ہیں۔ وہ روایت تو یاد ہوگی کہ اولنا محمدؐ و اوسطنا محمدؑ و اخرنا محمدؑ۔ اگر یہ روایت نہ بھی ہوتی تو یاد ہے ایک بار رسولِؐ اللہ نے چادر میں جمع کر کے فرمایا تھا کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں اِن (اہل بیتؑ) سے ہوں۔ ایک الگ روایت بھی موجود ہے کہ حسنؑ مجھؐ سے اور میںؐ حسنؑ سے ہوں۔ تو اپنے زمانے کے محمدؐ ہیں حسنؑ۔ محمدؐ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں ایک صلح کی جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں اور حسنؑ نے بھی اپنی پوری زندگی میں ایک ہی صلح کی جسے صلحِ حسنؑ کہتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کن کے ساتھ ہوئی؟ مشرکینِ مکہ کے ساتھ۔ تو صلحِ حسنؑ میں محمدؐ رسول اللہ کے نمائندے تو ہیں حسنؑ لیکن مشرکینِ مکہ کا نمائندہ کون ہے؟
کوئی اِسے صلح کہتا ہے اور کوئی معاہدہ تو آج ایک لفظ میں بھی کہتا چلوں کہ یہ صلح یا معاہدہ نہیں بلکہ سیز فائز (جنگ بندی) تھا۔”
۔
میں کوئی محقق یا عالمِ دین نہیں ہوں لیکن امام علیؑ کی شہادت کے بعد سے لیکر امام حسنؑ کی شہادت تک کے واقعات کے بارے میں جتنا میں سنتا آیا ہوں اور جو جو موقف مختلف طبقوں کی طرف سے میری نظر سے گزرتے رہے ہیں۔ وہ سب دیکھ کر ذہن ایک بنیادی خاکہ یہی بنتا ہے کہ امام حسن المجتبیؑ کو بے انتہا پیچیدہ سیاست اور سازشوں کا سامنا رہا۔ ایسی پیچیدہ صورتحال جس میں کچھ حقائق تو عیاں تھے لیکن بہت سے چھپے ہوئے تھے۔ انہی چھپے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لانے کیلئے امام حسنؑ نے تلوار کی بجائے قلم سے وار کیا۔
میں کچھ دیر کیلئے تصور کرتا ہوں کہ وہ طبقہ جو جنگِ صفین میں باغیوں کے گروہ سے متعلق واضح حکمِ نبویؐ کی موجود ہوتے ہوئے بھی خطائے اجتہادی جیسی تاولیں گھڑنے سے باز نہیں آتا، جو طبقہ واقعہ کربلا میں خانوادہ رسالتؑ کے قتل و اسیری میں ملوث ملعون یزید کا دفاع کرنے سے نہیں چوکتا، جو اس ذبحِ عظیم کو دو خاندانوں کی جنگ یا حادثہ کہہ کر بری الذمہ ہوجانے سے گریز نہیں کرتا، جو عین شہادتِ امام علیؑ کے ایام میں حاکمِ شام کے قصیدے پڑھنے پر آمادہ رہتا ہے اور جو صلحِ حسنؑ کو حاکمِ شام کے بیعت قرار دینے میں پیش پیش رہتا ہے۔ یہ طبقہ کیا طرزِ عمل اختیار کرتا اگر امام حسن المجبتیؑ صلح کو ٹھکرا کر جنگ کا فیصلہ کرلیتے؟ مجھے کامل یقین ہے کہ جو طبقہ امام حسینِ مظلومؑ کی ذبحِ عظیم کو (نعوذ باللہ) “امیر المومنین” کے خلاف خروج قرار دے سکتا ہے، وہ طبقہ امام حسنؑ کے بارے میں یقینا یہی کہتا کہ حاکمِ شام تو اسلام کا دردِ دل رکھتے ہوئے صلح پر آمادہ تھا لیکن علیؑ کے بیٹے نے اپنی شجاعت کے زعم (معاذ اللہ) میں جنگ کا فیصلہ کرلیا۔ لہذا امام حسنؑ نے ہر دور کے تاویل پرست کا اُن چند نکات کی زنجیر میں ایسا جکڑا کہ جو بظاہر تو معاہدہ امن تھا لیکن درحقیقت ایک چارج شیٹ تھی۔ یہ چارج شیٹ وہ زنجیر تھی جو ہر چھپے ہوئے کردار کو باندھ کر کربلا تک لے آئی۔ بڑا احسان ہے ہم پر اِس مظلوم امام کا، جن کی شخصیت کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
۔
بالکل غلط تاثر دیا جاتا ہے کہ امام حسن المجبتیؑ جنگ کرنے میں متامل تھے اور صلح کرنے کی طرف مائل تھے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی حسنؑ بن علیؑ تھے جن کے سپرد اپنے بھائی حسینؑ کے ہمراہ صفین، جمل و نہروان میں قلب لشکر کیا گیا تھا۔ بحیثیت شیعہ امامیہ، میرے لئے تو اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ مولا حسنؑ اُس شخصیت کا نام ہے جو امام حسینؑ کے بھی امام تھے۔
افسوس کے اِس مظلوم امام کو کبھی عبیداللہ بن عباس کا سامنا کرنا پڑا جسے بھیجا تو بطور فرنٹ لائن لشکر کے طور پر گیا تھا لیکن وہ اپنے ۸ ہزار کے لشکر کے ساتھ دس لاکھ درہم کی لالچ میں مخالف لشکر میں شامل ہوگیا، کبھی مسجد کوفہ میں اپنے سپاہیوں سے یہ سننا پڑا کہ مسلسل جنگوں کی وجہ سے وہ شدید تھکاوٹ کا شکار ہوچکے ہیں (یاد رہے کہ یہاں چار سالوں کے اندر لڑی جانے والی تین جنگوں صفین، جمل و نہروان کا ذکر ہورہا ہے) اور کبھی اُن خوارج کا سامنا کرنا پڑا جو اُن کے لشکر میں فقط اس لئے موجود تھے کہ دونوں گروہوں کی جنگ کے دوران وہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ انہی خوارج نے بعد ازاں امام حسنؑ پر حملہ کرکے اُنہیں زخمی کیا تھا۔ امام حسنؑ کے لشکر میں قبائلی عصبیتوں کے مارے وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی وفاداریاں امام کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے قبیلے کے سرداروں کے ساتھ تھیں۔ انہی کی طرف سے امیرِ شام کو لکھے گئے وہ خط امام حسنؑ تک پہنچے تھے جن میں حاکم شام کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلایا گیا تھا۔
یہ اُس مظلوم امامؑ کے لشکر کی حالت تھی جو آخری وقت تک جنگ پر آمادہ تھے تاکہ اس فتنے کی سرکوبی ہو سکے۔ لیکن اپنے لشکر کی حالت اور پیچیدہ سیاسی حالات دیکھ کر یہ اعلان کیا کہ اب میں اپنے ناناؐ کی صلح حدیبیہ کی سنت پر عمل کروں گا۔ اگر امام حسنؑ ایسا نہ کرتے تو نہ وہ چند وفادار اصحاب اور جانثاران زندہ بچتے جو امامؑ کے ہمراہ جنگ پر آمادہ تھے اور نہ ہی کربلا تک کا سفر طے ہوپاتا۔ یہ امام حسنؑ ہی تھے جن کی وجہ سے کربلا تک کا سفر طے ہوا۔ وہی کربلا جہاں چھپا ہوا ہر چہرہ ہمیشہ کیلئے بینقاب ہوگیا۔
۔
اگر ہم صلح حدیبیہ کا واقعہ یاد کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس وقت بھی کچھ اصحاب نے یہ استفسار کیا تھا کہ ہم یہ صلح کیوں کر رہے ہیں؟ ہمیں جنگ کرنی چاہئے لیکن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم نے جنگ کی تو لوگ حق اور باطل کا فرق نہ کرسکیں گے۔ لہذا ہم ایک معاہدہ کرینگے تاکہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خود یہ ثابت کردے کہ وہ باطل ہے۔ امام حسنؑ نے بھی اپنے جدؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ صلح کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اس صلح نامے میں موجود شقوں کی خلاف وزری کرنے والا گروہ خود یہ واضح کردے کہ وہ باطل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صلح کے بارے میں استفسار کرنے والے اصحاب کو جواب دیتے ہوئے خود امام حسنؑ نے اس صلح کو اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی تھی۔
۔
ہم نے دیکھا کہ صلح نامے میں منبروں سے امام علیؑ پر سب و شتم بند کرنے کی شق موجود تھی لیکن یہ قبیح فعل ۸۰ برس تک جاری رہا، ہم نے دیکھا کہ صلح نامے میں جمل و صفین کے مقتولین کا خون بہا ادا کرنے کی شق موجود تھی جس نے ہمیں یاد دلایا کہ خون بہا وہی ادا کرتا ہے جو قاتل ہو، اسی صلح نامے میں سنتِ رسولؐ کی پیروی کی شق موجود تھی لیکن سنا ہے کہ جمعے اور عید کی نمازوں میں کچھ ایسا ردو بدل کیا گیا جو سنتِ رسولؐ کے برخلاف تھا۔ اور سب سے اہم شق جس نے یہ ثابت کردیا کہ یہ صلح نامہ نہیں دراصل مستبقل کیلئے ایک چارج شیٹ ہے۔ وہی شق جس میں تاکید کی گئی تھی کہ حاکمِ شام کسی کو اپنا ولی عہد مقرر نہیں کرے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ یزید بن معاویہ کو نہ صرف ولی عہد مقرر کیا گیا بلکہ اپنے بعد اقتدار بھی اُس کے سپرد کردیا گیا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں آج اُن “محققین” کو دیکھتا ہوں جو ڈھٹائی کے ساتھ صلحِ حسنؑ کو بیعت قرار دیتے ہوئے “سب اچھا” کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ سب اچھا ہوتا تو یزید ملعون جیسا فاسق تختِ حاکمیت تک نہ پہنچتا، مروان بن حکم مدینہ کا گورنر نہ بنایا جاتا جس نے امام حسنؑ کو پہلے زہر دلوایا اور پھر اُن کے جنازے پر تیر برسائے۔ لعنت ہو اُن محققین پر جو مروان بن حکم کو امیر المومنین کہتے ہیں۔ ملوکیت زدہ حکومتی اسلام اور محمدیؑ اسلام کا فرق دیکھنا ہو تو صلحِ امام حسنؑ کا تفصیلی مطالعہ کرلیا جائے۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی قابلِ غور ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے ناصبیت کا طوق گلے میں پہنے ہوئے ایک طبقہ واقعہ کربلا میں ابنِ زیاد کو ذمہ دار قرار دیکر یزید ملعون کو بری الذمہ قرار دیتا نظر آتا ہے۔ بالکل اُسی طرح ایک طبقہ شہادتِ امام حسنؑ میں جعدہ بنت اشعث ملعونہ اور کبھی کبھی مروان کا نام لیکر کر اصل قاتل کا چہرہ چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ وارثانِ مباہلہ کا اتنتظام تھا کہ کوئی چہرہ چھپا نہ رہ سکا۔ جنابِ حسنین اکبر کا بہت برمحل شعر ہے:
زہر آیا تھا شام سے لیکن
تیر سارے چلے مدینے کے
۔
ہمارا سلام ہو اپنے آقا و مولا امام حسنؑ پر کہ جن کی مظلومیت کی کوئی حد نہیں۔ ملوکیت کی چھاوں میں گھڑی جانے والی روایتوں میں اس نواسہ رسولؐ کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، بالکل اُسی طرح جیسے مولا علیؑ کے بغض میں ایسی ایسی روایتیں اُن سے منسوب کی گئیں کہ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کہاں بابِ مدینہ العلمؑ کا رتبہ اور کہاں یہ جھوٹ؟
کہتے ہیں کہ امام حسنؑ کے خلاف گھڑی گئی روایتوں میں عباسیوں اور اُمویوں، دونوں کا برابر حصہ تھا۔ مثلا ایسی ہی چند روایتوں میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امام حسنؑ نے (معاذاللہ) ۷۰ نکاح کیے اور ان سب کو طلاق بھی دی، کچھ نے تعداد ۹۰ لکھی اور کچھ نے تو ۳۰۰ تک لکھ دی۔ یہ اُس نواسہ رسولؐ کا ذکر ہورہا ہے جسے سردارِ جوانانِ جنت کہا گیا، جسے کریمِ اہلیبیتؑ کہتے ہیں، جو صفین، جمل و نہروان میں قلبِ لشکر کا سالار تھا اور جس کی دنیا میں آمد کو رسولِ خداؐ نے سورہ کوثر کی تفسیر قرار دیا تھا۔ ایسی جھوٹی روایتیں چاہے امام علیؑ کے خلاف ہوں یا امإم حسنؑ کے، ان مقصد سمجھنا مشکل کام نہیں۔
اُمویوں کی دشمنی کی وجہ تو بتانے کی ضرورت نہیں البتہ عباسیوں نے یہ پراپگنڈہ اس لئے کیا کیوں کہ امام حسنؑ کی نسل میں سے محمد نفس الزکیہؒ نے عباسی خلیفہ المنصور کے خلاف قیام کیا تھا اور اسی دوران شہید کردئے گئے تھے۔ یہ وہی محمد نفس الزکیہؒ ہیں جو امام حسنؑ کے بیٹے حسن المثنیؑ کے پوتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سندھ کے شہر کراچی میں بحیرہ عرب کے کنارے مدفون سید عبداللہ شاہ غازیؒ، انہی محمد نفس الزکیہؒ کے بیٹے تھے۔ جو لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ برصغیر میں سادات کی اتنی تعداد کہاں سے آگئی، وہ امام حسنؑ کے اس فرزند عبداللہ شاہ غازیؒ کے برصغیر آنے کی وجہ تلاش کرلیں، باقی سادات کیوں آئے، یہ بھی سمجھ جاینگے۔ حجاج بن یوسف سے لیکر عباسیوں کے سفاک حکمرانوں کو اپنا ہیرو ماننے والے سوال پوچھتے ہیں کہ سادات “ہند” کیوں آگئے۔
۔
تحریر بہت طویل ہوچکی لیکن یہ میرا خود سے وعدہ تھا کہ میں اس مظلوم امامؑ کی بارگاہ میں اپنی یہ معمولی سی نوکری ضرور ادا کروں گا۔ اس امامؑ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ ایک احسان اس امامؑ نے ہم پر چودہ صدیاں قبل کیا لیکن اُس کے بعد بھی اپنے چاہنے والوں کو بھولا نہیں، بلکہ یاد دلاتا رہا کہ یہ امام کریمِ اہلیبیتؑ کیوں کہلاتا ہے۔ کبھی دسترخوانِ امام حسنؑ کی نذر کی صورت، کبھی ۲۸ صفر پر اپنی کریمی کے جلوے دکھاتے ہوئے اور کبھی اُن ہزاروں چاہنے والوں کی دعاوں کو اُن کے دل سے زبان تک آنے سے پہلے بارگاہِ خدا تک پہنچا کر، جو شبیہ تابوتِ سے روتے ہوئے یوں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے شہد کی مکھی اپنے چھتے سے۔
۔
اپنے والد امام علیؑ کی طرح معلوم نہیں اس مظلوم امامؑ کے حلق میں بھی کب کب کانٹا سا چچھتا رہا ہوگا، ہم تو تصور نہیں کرسکتے شاید اسی لئے ہر برس ۲۸ صفر پر ہزاروں عزادار بے اختیار تابوتِ حسنؑ” کی جانب گریہ و ماتم کرتے ہوئے یوں بڑھ رہے ہوتے ہیں جیسے اس مظلوم امامؑ کو یاد کرتے ہوئے ایک کانٹا سا اُن کے دل میں چبھ رہا ہو۔ “بیگناہ مارا گیا سبطِ رسول دوسرا” پکارتے ہوئے ہزاروں عزاداروں کو دیکھ کر بے اختیار ذہن میں امام حسن مجتبی علیہ السلام کے وہ الفاظ گونج اُٹھتے ہیں جو آپ نے ایک چاہنے والے کو جواب دیتے ہوئے فرمائے تھے:
اگر میں یہ صلح نہ کرتا تو ہمارے پیروکاروں اور شیعیان آل محمدؑ میں سے حتی ایک فرد بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ اور وہ (اہل شام) سب کو قتل کردیتے. (اقتباس)