تذکرہِ اہل بیتؑ

شہادت امام حسن عسکریؑ

بہت سال پہلے علامہ طالب جوہریؒ نے کسی مجلس میں شانِ رسالتؐ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ جملے کہے تھے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری عمر تریسٹھ برس اور اس مختصر عرصے میں قیامت تک کی پالیسی دی گئی۔ یہ ہے میرے محمدؐ کی طاقت۔
اسی طاقت کی جھلک وارثِ محمدؐ رسول اللہ حسن عسکریؑ  کی اٹھائیس سالہ مختصر حیات میں نظر آتی ہے۔ امام حسن عسکریؑ کی عمر فقط بائیس برس تھی جب آپ کے والدِ گرامی امام علی نقی الھادیؑ کو شہید کیا گیا۔ یعنی آپ کے پاس فقط چھ برس کا عرصہ تھا جس کے بعد کچھ عرصہ کیلئے دنیا نے خدا کی آخری حجت کو دیکھنا تھا اور پھر طویل غیبت کا آغاز ہونا تھا۔ لہذا امام حسن العسکریؑ کے پیشِ نظر تھا کہ وہ اس عرصے میں کسی نہ کسی طرح اپنے چاہنے والوں کی رہنمائی بھی کرتے رہیں، اُن کے سوالوں کے جواب بھی دیتے رہیں اور آنے والے زمانوں کیلئے اتنا کچھ مرتب بھی کر جائیں کہ محبانِ اہلیبیتؑ خود کو تنہا نہ محسوس کریں۔ یہاں تک کے اپنے آخری ایام میں بھی امام علیہ السلام اپنے قریبی اصحاب کے ذریعے مدائن کے علاقے میں موجود اپنے چاہنے والوں کو خط بھجواتے رہے۔ یہ خطوط لے جانے والے صحابی ابو ادیان کو امام حسن العسکری علیہ السلام نے مطلع کیا تھا کہ جب تم یہ خطوط پہنچا کر واپس سامرا آگے تو لوگوں کو کہتے سنو گے کہ حسن عسکری علیہ السلام شہید ہوگئے۔
۔
امام حسن عسکری ؑنے یہ چھ برس آزادی میں نہیں گزرے بلکہ اسیرِ بغداد امام موسی الکاظمؑ کے علاوہ یہ وہ دوسرے امامِ اہل بیت ؑہیں جو مسلسل قید رہے ماسوائے اس ایک سال کے جب دوران قحط ایک مسیحی راہب کی کرامت کی اصل حقیقت بتانے کے بعد مسیحی نے حیران ہوکر پوچھا تھا کہ یہ عظیم شخصیت کہاں مقیم ہیں ان کا مدرسہ کہاں ہے اور جواب میں معتمد عباسی نے شرمندگی سے جواب دیا تھا کہ میں نے انہیں نظر بند کر رکھا ہے۔ البتہ اس واقعے کے بعد اس نے وقتی طور پر نظر بندی ختم کردی تھی لیکن ٹھیک ایک سال بعد دوبارہ امام عسکری علیہ السلام کو قید کردیا۔
یہ قید عام قید جیسی نہ تھی بلکہ سخت ترین نطر بندی تھی۔ اس قدر سخت اور کڑی نظر بندی یہ ثابت کرتی ہے کہ عباسی آمر آخری حجتِ خدا یعنی امام زمانہ  صلوات اللہ علیہ  کے بارے میں کس قدر متجسس تھے۔
۔
سخت ترین نطر بندی کے دوران امام حسن عسکری ؑنے پیغامِ اہلیبیتؑ کی ترویج کو جاری رکھا۔ لعین معتمد عباسی کے حکم پر جس جس سفاک و ظالم پہریدار کو امام حسن عسکری ؑکی نگرانی اور آپؑ کو تکلیف پہنچانے کیلئے معین کیا جاتا، وہ کچھ ہی دنوں میں امامؑ کے حسنِ سلوک، آپؑ کے کردار و گفتار اور آپ کی سیرت سے متاثر ہوکر آپؑ کا محب بن جاتا۔
امامؑ کے کسی چاہنے والے نے پہریدار کو چند انار دیئے اور کہا کہ میرے امامؑ کو پورا دن سوائے دو روٹیوں اور پانی کے اور کچھ نہیں دیا جاتا، تم یہ انار میری طرف سے اُن تک پہنچا دو۔ پہریدار نے انار لاکر امامؑ کو دیدئے لیکن یہ وارثِ کریمِ اہلیبیتؑ ہیں، لہذا حکومت کے مقرر کردہ اس ظالم پہریدار کے دل کی کیفیت جان لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم ان اناروں کو ایسے دیکھتے جاتے ہو، سب خیریت تو ہے؟ مجھے بتاو اگر کچھ کہنا چاہتے ہو۔ پہریدار پہلے تو ہچکچایا اور پھر جواب دیا کہ دراصل میں اپنے بچوں کے بارے مں سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی اُن کیلئے انار لے جاسکتا۔ وہ کھاتے اور خوش ہوجاتے۔ امام حسن عسکریؑ نے وہ تمام انار اُٹھائے اور اُس پہریدار کو دے دیئے۔
میں مجالس میں یہ واقعہ جب جب سنتا ہوں تو مجھے مولا حسن مجتبی علیہ السلام یاد آتے ہیں۔ جن کے پاس شام سے ایک ایسا شخص آیا جو آپؑ کے خلاف شامی پراپگنڈے کی وجہ سے آپؑ سے نفرت کرتا تھا لیکن جاتے ہوئے یہ کہہ کر گیا تھا کہ جب آیا تھا تو آپؑ سے زیادہ کسی سے نفرت نہ کرتا تھا اور اب جا رہا ہوں تو بخدا آپؑ سے زیادہ کسی سے محبت نہ کروں گا۔
۔
جب امام علیہ السلام کی سیرت سے متاثر ہو کر یونہی پہریداروں کے دل پگھلتے رہے تو ایک ترکش نگران نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ پہریدار امام حسن عسکری علیہ السلام کو اذیت پہنچانے پر راضی نہیں تو میں انہیں اپنے گھر لے جاتا ہوں اور وہاں انہیں ان جنگلی جانوروں کے حوالے کر دوں گا جو کئی روز کے بھوکے ہیں۔ البتہ یہ نگران بھی اس وقت انگشت بدنداں رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام حالت سجدہ میں ہیں اور ان کے پیچھے وہ تمام جانور بھی سر جھکائے کھڑے ہیں جو کئی روز سے بھوکے تھے ۔
ایسے واقعات پڑھ کر مجھے کبھی کبھی ان بے زبان جانوروں ہر رشک محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں سے بہتر تھے جو اہل بیتؑ رسول علیھم السلام کو ہر دور میں اذیت دیتے رہے، انہیں قید کرتے رہے اور بیدردی سے قتل کرتے رہے۔ چاہے وہ کوفہ میں امام علی علیہ السلام کو گھیر کر چلا چلا کر مسجد جانے سے روکنے کی کوشش کرنے والی مرغابیاں ہوں، روز عاشور اپنے آقا سے وفاداری نبھانے والا ذوالجناح ہو یا سامرا کے وہ جنگلی جانور جو امام حسن عسکری ؑکے پیچھے احترام سے کھڑے ہوگئے تھے۔
۔
امام حسن عسکری ؑسے دو کتابیں بھی منسوب ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں امامؑ نے نطر بندی کے دوران خود مرتب کیں۔ ان میں سے ایک کتاب تفسیر قران امام حسن عسکری ؑہے۔ اس تفسیر کے قدیمی ہونے کے باوجود اس کی وثاقت علمائے امامیہ کے درمیان محل اختلاف ہے۔ شیخ صدوقؒ نے اس کتاب سے اکثر مطالب اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں۔ علامہ طالب جوہریؒ نے بھی مصائب امام حسن عسکریؑ بیان کرتے ہوئے اِس تفسیرِ قران کا ذکر اِن الفاظ میں کیا کہ اس تفسیر کا کچھ حصہ آج بھی موجود ہے۔ امام حسن عسکریؑ نے یہ تفسیر اس طرح لکھوائی کہ امامؑ کو جس کنواں نما قید خانے میں قید کیا گیا تھا، امامؑ اُس قید خانے میں  موجود ہوتے اور اصحاب کنویں کی دیوار کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ امام حسن عسکریؑ تفسیر لکھواتے جاتے اور اصحاب لکھتے جاتے۔
۔
امام علی نقی الھادیؑ کے چار فزند تھے جن میں سید محمد علیہ السلام سب سے بڑے تھے۔ سید محمدؑ سے امام علی نقی الھادیؑ بے انتہا محبت کرتے تھے اور اکثر و بیشتر لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں جواب حاصل کرنے کیلئے سید محمدؑ سے رجوع کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ اسی وجہ سے محبانِ اہل بیتؑ سمیت بہت سے لوگوں کو ایسا گمان ہوتا تھا جیسے سید محمدؑ ہی امام علی نقیؑ کے بعد امام ہونگے۔ البتہ یہ امام علی نقیؑ کی مصلحت تھی جس کی حکمت امام حسن اعسکری ؑاور بلاخر امام مھدی علیہ السلام کی حفاظت تھی۔
سید محمدؑ تئیس برس کی عمر میں شہید ہوگئے، اس وقت امام علی نقی الھادیؑ بھی حیات تھے۔ جب امام حسن عسکریؑ تک اپنے بھائی کی شہادت کی خبر پہنچی تھی تو شدتِ غم سے امامؑ نے اپنا گریبان چاک کر لیا تھا۔ بلد میں موجود سید محمد ابن امام الھادیؑ کا روضہ آج خصوصیت سے اس بات کیلئے مشہور ہے کہ یہاں مانی گئی اولاد کی منت کو پروردگار ضرور پورا کرتا ہے۔عراق میں سید محمد علیہ السلام کو سبع الدجیل کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور آپؑ کو باب الحوائج بھی کہا جاتا ہے۔
۔
امام حسن عسکری ؑ کا لقب عسکری عسکر کے لفظ سے اخذ شدہ ہے۔ عسکر یعنی لشکر اور عسکری یعنی لشکر والا۔ اِس کا لقب کا پس منظر وہ واقعہ ہے جب عباسی آمر نے ایک روز امام حسن عسکری ؑکو ایک مقام پر لے جا کر نوے ہزار ترک سپاہیوں پر مشتمل اپنا لشکر دکھاتے ہوئے انتہائی تکبر سے کہا تھا کہ یہ میرا لشکر ہے۔ اس کے جواب میں امام حسن عسکری ؑنے آسمان کی جانب اشارہ کیا تھا اور فلک سے زمین تک تا حد نگاہ تک فرشتوں کا ایک لشکر نمودار ہوگیا تھا۔ امام حسن العسکریؑ نے عباسی حکمران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میرا لشکر ہے جسے دیکھ کر وہ انگشت بدنداں رہ گیا تھا۔ یہ واقعہ ہمیں ائمہ اہل بیت علیھم السلام کے تصرف اور اختیارات کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے کہیہ  ہستیاں کبھی بھی(نعوذ باللہ) بے بس نہیں ہوتیں، پابند مشیت ضرور ہوتی ہیں۔
۔
معتمد عباسی کو اندازہ ہوچکا تھا کہ جب وہ امام حسن عسکری ؑ کو نظر بند یا قید رکھتا ہے تو وہاں تعینات شدہ پہریدار اُنؑ کی سیرت سے متاثر ہوجاتے ہیں اور کبھی وہ قحط و خشک سالی کے ستائے لوگوں کی دادرسی کرکے سامرا کے رہنے والوں کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ لہذا اُس نے اپنے آباو اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام عسکریؑ کو زہر دیکر شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ لوگ کس طرح یہ سوال پوچھ لیتے ہیں کہ خدا نے “شیعوں کے آخری امام” کو نظروں سے اوجھل کیوں کردیا؟ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ملوکیت زدہ حکومتی اسلام کے کارندے ہر دور میں ائمہ اہل بیتؑ پر ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑتے رہے؟ خدا ایسے ظالموں کے درمیان سے اپنی آخری حجتؑ کو اوجھل نہ کرتا تو اورکیا کرتا؟
بہت عرصہ پہلے کسی ملنگ سے یہ واقعہ سنا تھا کہ اللہ بڑا مہربان ہے۔ وہ بندے کی بھلائی چاہتا تھا اس لیے ایک کے بعد ایک نبی بھیجتا رہا۔ بندہ بھی بڑا سرکش تھا، خدا نبی بھیجتا اور بندہ کہتا مجھے نہیں چاہئے واپس لے جا۔ نبی آنا بند ہوگئے تو اللہ نے امام بھیجنا شروع کیے لیکن بندے نے ظلم کرنا نہ چھوڑا۔ اپنے نبیؐ کے پورے خانوادے کو پیاسا شہید کردیا۔ بس پھر ایک وقت آیا کہ خدا نے جسے بھیجا تھا اُسے واپس بلا لیا۔ اب ایک دور آئے گا جب “واپس لے جا نہیں چاہئے” کہنے والا بندہ چیخ چیخ کر فریاد کرے گا کہ اے اللہ کسی کو بھیج دے۔
۔

آٹھ ربیع الاول 260 ھ فقط اٹھائیس برس کی عمر میں امام حسن عسکریؑ، معتمد عباسی ملعون کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آپؑ کا بھائی جعفر آپؑ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کیلئے آگے بڑھا تو ایک پانچ سالہ بچہ نمودار ہوا اور جعفر کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ اپنے باباؑ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا حق میرا ہے۔

 

بچے نے اپنے باباؑ کی  نمازِ جنازہ  پڑھائی اور اس کے بعد کسی کو وہاں نظر نہ آیا۔ یہ بچہ ہمارے صاحب الامر مولا امام زمانہ صلوات اللہ علیہ تھے۔
۔
ہم اپنے امام وقت  مولا امامِ زمانہ صلوات اللہ علیہ  کی خدمت میں آپؑ کے بابا امام حسن ا عسکریؑ  کا پرسہ پیش کرتے ہیں۔