Uncategorized

زمانہِ غیبت، انتظارِ ظہور اور شیعہ

عقائد اور فکری اعتبار سے ایک بہت بڑا بگاڑ جو ایک مخصوص سیاسی نظام کیلئے ذہن سازی کرنے کی خاطر برس ہا برس کی “تبلیغ “ کی وجہ سے پیدا ہوا وہ یہ ہے کہ آج فقط نوجوان نہیں بلکہ اچھی خاصی پکی عمروں والے لوگ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کسی بھی شخصیت کا قیاس معصومین علیھم السلام یا اُن ہستیوں پر انتہائی آسانی کر لیتے ہیں جن کے غلاموں کے غلاموں کے قدموں کی دھول تک پہنچنا بھی کسی عام انسان تو کجا کسی بڑے سے بڑے عالم یا مراجع کے بس کی بات نہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسا کرنے کے بعد وہ اس کے حق میں باقاعدہ دلیلیں اور تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ کوئی تو باقاعدہ دلیل کیلئے فرامین معصومین علیھم السلام بھی پیش کر دیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اسے ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہاں وہ نعوذ باللہ خود کو معصوم علیہ السلام کے مقابل رکھ رہا ہے یعنی معصوم علیہ السلام نے بھی تو ایسا فرمایا تھا تو اسی سے استدلال کرتے ہوئے اگر میں بھی ایسا کہتا ہوں تو کیا غلط ہے؟ یعنی کہاں وہ ہستیاں جن کا ہر لفظ اور ہر قدم ارادہِ الٰہی کا مظہر اور کہاں انٹرنیٹ پر چند احادیث پڑھ کر مبلغ و محقق بن جانے والے ۔ انسان کو لمحہ بھر رک کر سوچنا چاہئیے کہ وہ لکھ کیا رہا ہے، کہہ کیا رہا ہے۔
مثلاً جناب سلمان محمدی کیلئے حدیث ہے سلمان ہم اہل بیتؑ میں سے ہے۔ اب کوئی کہے کہ رسولؐ اللہ کی حدیث سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم بھی کسی مرجع کسی سیاسی نظام کے لیڈر کو کسی معصومؑ پر قیاس کر لیں۔ یا اُن کا موازنہ سلمان محمدی سے کر دیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک بار جناب مالک اشتر کو خود سے نسبت یا تشبیہ دی تو ہم بھی اگر ایسی تشبیہ دے دیں تو کیا مسئلہ ہے؟ کیوں کہ ایک طرف ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اہل بیت علیھم السلام کا کسی سے موازنہ تقابل نہ کرو اور پھر سلمان محمدی کو اہل بیتؑ میں شامل بھی کیا ان کی عظمت بیان کرنے کیلئے، مالک اشتر کو خود سے تشبیہ دی گئی تو اگر ہم بھی کسی کو وقت کا حسین ع کہتے ہیں تو ہم موازنہ نہیں کرتے بلکہ ہم تو فقط فی زمانہ ان کی اہمیت واضح کرنے کیلئے ایسا کہتے ہیں۔ آپ غور کریں تو اسے آپ سلبِ توفیق اور مقامِ معصومینؑ سے ناآشنائی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے کہ خود امیر المومنین علیہ السلام کا اپنے لئے حکم بھی پڑھ رہے ہیں کہ ہمارا موازنہ کسی سے نہ کرو اور پھر خود ہی اس حکم کو بائے پاس کرکے اپنے آپ کو امیرالمومنین علیہ السلام کے مقابل لاکر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ امیرالمومنینؑ نے بھی تو ایسا فرمایا تھا تو ہم بھی ایسا کر لیتے ہیں۔ اپنی حیثیت دیکھئے اور اپنی باتیں۔ کہاں حجتِ خدا اور قرانِ ناطق اور کہاں ہم جو آج کہی ہوئی بات کو کچھ دن بعد خود رد رہے ہوتے ہیں۔
اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہ طبقہ بقائے باہمی کا فلسفہ سمجھانے کے بجائے اتحاد بین المسلمین کیلئے اُتاولا ہوا پھرتا ہے اور اپنے مسلمہ عقائد و نظریات تک کو مسخ کرنے سے نہیں چوکتا۔ یہ تک کہا جاتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے بھی قاتل کو شربت پلایا تھا، امام سجادؑ نے شہزادہ علی اکبر ع کے قاتل کو پہچان لینے کے باوجود پناہ دے دی تھی، مولا علیؑ نے بھی فلاں شخصیت کو میدانِ جنگ سے عزت سے روانہ کیا تھا۔ تو ہم کیوں دوسروں کیلئے نرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اُن سے اتحاد کی کوشش نہ کریں (وہ چاہے انہیں بار بار دھتکارتے رہیں)۔
ایسا کرتے ہوئے ان لوگوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں یہ شانِ معصومؑ میں جسارت ہے کہ آپ معصومین علیھم السلام کے لطف و کرم سے یہ دلیل لے رہے ہیں کہ آپ کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔ وہ ہستیاں مظہرِ ارادہ پروردگار ہیں، مظہرِ توحید ہیں، حجتِ خدا ہیں۔ کیا اللہ منکر کو رزق نہیں دیتا، سانس لینے کیلئے آکسیجن نہیں دیتا؟ کیا اللہ نے اپنے دشمن ابلیس کو مہلت نہیں دی؟ لیکن یہ اللہ کا یہ لطف و کرم آپ کی ذمہ دادی کا تعین بھی کرتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ آپ کی ذمہ دادی ہے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنے کی۔ امام علی ع نے قاتل کو شربت پلایا۔ حجتِ خدا کا یہ عمل آپ کی ذمہ داری کا تعین نہیں کرتا نہ آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ خود کو حجتِ خدا کے مقابل رکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ مجھے بھی ایسا کرنا چاہئیے۔ کیا آپ اپنے کسی پیارے کے قاتل کو شربت پلائیں گے؟ یعنی سزا و جزا کو پورا نظام لپیٹ دینے کا ارادہ ہے؟ آپ کی ذمہ داری الھم لعن قتلۃ الامیر المومنین ع پڑھنے کی ہے۔ آپ وہ کریں جو آپ کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خدا اور حجتِ خدا کے لطف و کرم کو اپنے لئے حجت نہ سمجھیں، اُن کے اپنے لئے حکم کو حجت سمجھیں۔ معصومؑ نے فرما دیا کہ ہمارا قیاس کسی پر مت کرو تو فُل اسٹاپ، اس کے جواب میں دلیلیں مت دیں کہ امامؑ نے بھی ایک جگہ ایسا فرمایا تھا تو ہم کیوں نہ کسی شخصیت کو آج کا حسینؑ کہہ دیں۔ یہ جسارت ہے، اپنے مقام اور قد سے بڑی بات ہے۔
۔
ایک اور سوال اس فکر کے حامل واعظین اور ان کے حمایتیوں کے نظریات اور دلائل سن کر ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہان تشیع میں فقط ایک شخصیت ہی معصومین علیھم السلام یا مثلاً جناب مسلمؑ ابن عقیلؑ پر قیاس کرنے کی اہل ہے؟ مراجع فقہا تو اور بھی ہیں بلکہ بہت بڑے بڑے ہیں تو یہ ہر دلیل فقط ایک شخصیت اور ایک نظام کیلئے ہی کیوں دی جاتی ہے؟ باقی سب نے کیا گناہ کیا ہے؟ ( میں واضح کر دوں کہ میں اس قسم کے قیاس کسی کیلئے بھی کرنے کے حق میں نہیں)۔ کبھی کہتے ہیں جیسے اصحاب حسینؑ نے مولا حسینؑ تک تیر نہ آنے دئیے ویسے میرے نوجوانوں تم بھی فلاں شخصیت تک دشمنوں کے تیر نہ آنے دینا۔ کبھی کہتے ہیں ایک عزادار ہے جو کہتا ہے مولاؑ مجھے بیٹا دے دیں مجھے گھر دے دیں مجھے دولت دے دیں اور دوسری طرف وہ عزادار ہے جو کہتا ہے مولاؑ میرا بیٹا آپ کیلئے میرا گھر آپ کیلئے میرا سب کچھ آپ کیلئے۔ ایسا عزادار فلاں بنتا ہے فلاں بنتا ہے فلاں بنتا ہے۔ ایسے واعظین کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ ایک عزادار کی تحقیر کریں اور ایک مخصوص نظام سے جڑے لوگوں کو بہت بڑا عزادار ثابت کریں؟
بہرحال، آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ ساری کی ساری شیعت بس اسی ایک نظام اور اس سے جڑی شخصیات کے اندر نظر آتی ہے اس کے باہر جو کچھ ہے، سب کسی شودر کی طرح ہے، جس کی جب چاہو تحقیر کر دو۔ حتی انیس و دبیر بھی تنقید سے ماورا نہیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو نوجوان بالکل دفاع نہ کریں۔
۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ سلبِ توفیق بہت بڑی سزا ہے جس میں انسان یہ درک ہی نہیں کر پاتا کہ اپنی داست میں جسے وہ بصیرت، معرفت اور حق سمجھ رہا ہے وہ درحقیقت سلبِ توفیق ہے کہ اُسے یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ جو وہ لکھ یا کہہ رہا ہے وہ مقامِ معصومینؑ میں تقصیر ہے، جسارت ہے۔ کسی علیؑ کے شیعہ کیلئے اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس سے فضائل علیؑ سن کر بے اختیار خوش ہونے اور مصائب حسینؑ سن کر بے اختیار گریہ کرنے کی توفیق سلب ہوجائے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ جن پر درود بھیجنے کیلئے وہ اللہ سے درخؤاست کرتا ہے کہ پروردگار تو اُن محمدؐ و آلِ محمدؑ پر درود و سلام بھیج، وہ اُن ہستیوں کے کلام سے یہ دلیل اخذ کرنے کی جرات کرے کہ اگر اُنہوں نے ایسا فرمایا تو میں تو بھی ایسا کہہ سکتا ہوں۔ ہم کہاں اور وہ کہاں۔ اُن کا اعلی و ارفع مقامِ کہاں اور کہاں بزرگ مراجع ۔ بقول مولانا ابوطالب طباطبائی مراجع کے عمامے کا جو کپڑا ہے اُس کی حیثیت یہ ہے کہ اُس سے سرکار ابو عبداللہ علیہ السلام کی نعلین مبارک صاف کی جائیں۔
۔
بات  احترامِ مقامِ اہل بیتؑ کی ہو رہی ہے تو ایک واقعہ نقل کرتا چلوں۔ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کے فرزند مولانا امجد رضا جوہری ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک بار اُنہوں نے علامہ صاحب سے سوال پوچھا تھا کہ ضریح امام حسین علیہ السلام پر جو ایک آیت لکھی ہوئی ہے اس کا پس منظر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ صاحب نے فقط ایک جملہ کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کون سی آیت ہے، ہم نے کبھی ضریح کو نظر اُٹھا کر دیکھا نہیں۔
مولا امام زمانہ صلوات اللہ علیہ ہم سب کو مقام و منزلت محمدؐ و آلِ محمدؑ کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ کیوں اُس بلند و ارفع مقام کو سمجھنے کی صلاحیت تو ہم گناہ گاروں میں نہیں ہے، ہم بس اس قابل ہوجائیں کہ اُن کی بارگاہ میں سر جھکا کر حاضر ہو سکیں۔
۔
جس سیاسی نظام کیلئے ذہن سازی کیلئے یہ سب جتن کیے جاتے ہیں، اُس سیاسی نظام کے حمایتی اکثر اِس قسم کے سوال بھی پوچھتے نظر آتے ہیں:“برادر محترم اعتراض تو ہر کوئ کرتا ھے کمال یہ ھے کہ پھر متبادل بھی دیا جائے۔۔۔
آپ کی ہر بات بجا۔ ہر اعتراض مکمل ۔۔۔۔
مگر امامؑ کی غیبت میں کوئ نظام تو بتائیں ۔
ایسا نظام جو محض عزاداری کا سسٹم نہ دے بلکہ 2024 میں کسی ملک کو چلانے کا نظام ھو۔۔
جس میں بینکنگ سے لے کر داخلہ و خارجہ پالیسی کا احاطہ بھی ھو۔۔ شکریہ۔

ظاہر ہے سوال ایک خاص نظامِ حکومت کی تائید میں بطور دلیل پوچھا گیا تھا۔ میری ناقص فہم کے مطابق بنیادی طور پر ایسے سوال مکتب اہل بیت علیھم السلام کے بنیادی عقائد کے ہی خلاف ہیں ۔ یہ غیر شیعوں کا شیوہ تو رہا کہ وہ حکومتوں اور اقتدار کیلئے اُتاولے ہوئے پھریں، ہمیں اپنے ائمہ علیھم السلام کی سیرت میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے کبھی بھی اقتدار یا حکومت کیلئے نعوذ باللہ کوئی اقدام کیا ہو باوجود اس کے کہ حق ہمیشہ انہی کا تھا۔ یہ حکومتوں کے پیچھے بھاگنا اور اِن کیلئے دلائل گھڑنا سقیفائی سوچ تو ہو سکتی ہے، غدیری نہیں۔

اہل بیت علیھم السلام کا نام لیکر حکومت و اقتدار پر قبضہ کرنا اور پھر اہل بیت ؑ  اور ان کے چاہنے والوں پر ہی ظلم کرنا البتہ عباسیوں کا شیوہ ضرور رہا۔

جو حکم ہمیں دیا گیا وہ زمانہ غیبت ،جو بلاشبہ ایک تاریک و طویل دور ہے، اس میں قائم آلِ محمد صلوات اللہ علیہ  کے ظہور کی دعا اور  انتظارِ ظہور کا حکم ہے۔ مولانا نادر صادقی سے توسط سے مجھے یہ جاننے کو ملا کہ زمانہِ غیبت میں امام زمانہ صلوات اللہ علیہ   کا  انتظار افضل الاعمال قرار دیا گیا ہے۔  اب کوئی اِس انتظار ظہور کیلئے اپنے قیاس کے گھوڑے دوراتے ہوئے من مانی تشریحات کرتا رہے، تو اسے اُس کی ذاتی رائے یا کسی خاص نظام کیلئے ذہن سازی کی کوشش تو کہا جا سکتا ہے ایک شیعہ کیلئے حجت نہیں۔ ایک شیعہ کو چایئے کہ وہ   تعجیلِ ظہور کے دعا کرے، انتظارِ  ظہور کے،  اپنے دین پر ثابت قدم رہے، عقائد کی حفاظت کرے، اپنے مومن بھائی کی جان و مال کی حفاظت کرے۔

روایات معصومینؑ اگر حکومت کی بات کی گئی تو فقط قائم آلِ محمدؐ کی حکومت کی جو اس کرہ ارض کی تاریخ کی پہلی حکومت ہوگی جو تمام کرہ ارض کو عدل سے پر کرے گی۔ اب میں آپ کی طرح اپنی دانست میں منطقی سوال اٹھاؤں کہ سنہ ۲۰۲۴ میں لائحۂ عمل کیا ہوگا، معاشی نظام کیا ہوگا، خارجہ پالیسی کیسے چلے گی۔ تو جناب یہ سوال پھر صرف اس سال تک محدود نہ کریں، یہ سوال غیبت کبری کے طویل دور یعنی گزشتہ گیارہ صدیوں میں پوچھا جانا چاہئے تھا بلکہ اس وقت بھی جب امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کے اجداد یعنی ائمہ علیھم السلام شیعوں کے درمیان موجود تھے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ کسی شیعہ نے اپنے حاضر امام ؑ کے سامنے یہ سوال پوچھنے کی جرات کی ہو؟ اور اگر پوچھا ہو تو امام ؑ نے کیا جواب دیا؟ زمانہ آخر اور علامات ظہور کے بارے میں معصومین علیھم السلام کے جتنے فرامین میں نے دیکھے سب میں اسی الوہی حکومت کے انتظار اور اس کی تفصیل ملی۔ کہیں نہیں دیکھا کہ معصوم ؑ نے یہ فرمایا ہو کہ چونکہ غیبت کا دور بہت طویل ہوگا اس لئے سنہ ۷۹ عیسوی کےبعد تم ایک نظام حکومت بنا لینا اور اسے قائم آلِ محمد صلوات اللہ علیہ کی حکومت سے نسبت دے دینا کہ یہی اسی الوہی حکومت کی تیاری ہے۔

ایک شیعہ کا عقیدہ ہے قائم آلِ محمد صلوات اللہ علیہ کی حکومت کا انتظار۔ نہ کہ وہ بیزار ہوکر یہ سوال پوچھنے لگے کہ مولا ؑ  آپ کا ظہور تو معلوم نہیں کب ہوگا، ہم مل کر خود ہی ایک نظام حکومت بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی نص قطعی کے اس نظام حکومت کو آپ ص کی حکومت سے متصل ہی ایک سلسلہ قرار دے دیتے ہیں۔ پھر چاہے اس حکومت کے تحت زندگی گزارنے والا ہر شیعہ اس کے عادل ہونے کی گواہی دیتا ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، کسی عالم کو اس نظام سے اختلاف رکھنے پر نظر بند رکھا جاتا ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، عام عوام کا اس نظام کے بارے میں کیا کہنا ہو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس نظام کو دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کرنے کے نتائج وہاں کے شیعوں نے کیا بھگتے ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۔
مجھ کم علم کو جہاں تک سمجھ آسکی تو ہمارے ائمہ علیھم السلام نے ہر دور میں اپنے شیعوں کی حفاظت اور ان کی دادرسی کا اہتمام کیا۔ امام حسن علیہ السلام نے یہ کہتے ہوئے معاہدہ کیا کہ اگر میں یہ معاہدہ نہ کرتا تو وہ (لشکر شام) ہمارے تمام چاہنے والوں کو ختم کر دیتا اور ہمارا ایک بھی شیعہ باقی نہ رہتا (مفہوم)۔ امام رضا علیہ السلام کا دور تو شیعت کے فروغ کا دور ہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سخت ترین قید میں تھے لیکن اپنے صحابی علی بن یقطین کو ہارون رشید کی حکومت میں وزارت پر متعین کر رکھا تھا تاکہ وہ مومنین کے کام آتے رہیں۔

ائمہ علیھم السلام کی یہی سیرت کی پیروی آپ کو بہت سے موجودہ بزرگ مراجع اور دنیا سے رخصت ہوجانے والے مراجع کی حکمت عملی میں نظر آئے گی کہ بظاہر اقتدار اور عہدوں سے دور رہ کر بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی طرز شیعوں کی جان و مال بچی رہے، ان کی فلاح و بہبود کا سلسلہ چلتا رہے۔ وہ ظلم سے محفوظ رہیں۔

یہی ایک شیعہ کا طرز عمل ہونا چاہئے کہ غیبت کے اس طویل و تاریک دور میں وہ جس ملک میں رہتا ہے وہاں کے سیاسی و حکومتی نظام میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرے۔ نہ کہ جذباتی نعرے لگا کر کسی ایسے ملک کے سیاسی نظام کو یہاں ایکسپورٹ کرنے کی تبلیغ کرے جو اس ملک کیلئے موافق ہے ہی نہیں۔ مثلاً ایک اکثریتی سنی ملک پاکستان میں کس منطق کے تحت ولایت فقیہ کے نظام کی تبلیغ کرتے ہیں؟ یہ نظام جس ملک کا ہے وہ ملک جانے اور وہاں کی عوام۔ ایک پاکستانی شیعہ کیلئے حقیقت پسندی پر مبنی رویہ یہ ہے کہ وہ اس ملک کے سیاسی و انتظامی نظام میں اپنی اہمیت اور اپنا کردار بڑھائے۔ جس بھی دستیاب سیاسی جماعت کو بہتر سمجھتا ہے اس میں اپنا اثر رسوخ بڑھائے ۔ نہ کہ لوگوں کے جذبات کو ایکسپلائٹ کرے کہ ظہور امام صلوات اللہ علیہ میں تو خدا جانے ابھی کتنا وقت ہے، ہمارے پڑوس میں ظہور سے پہلے ہی ایک حکومت بنائی گئی ہے آئیں ہم آپ کو اس نظام سے روشناس کرواتے ہیں۔

باقی یہ عزاداری ہی ہے جو ایک شیعہ کو اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہنے کی تحریک دیتے ہوئے اسے حفاظت کے ساتھ امام زمانہ صلوات اللہ علیہ تک پہنچانے کی قوت رکھتی ہے، بلا تفریق ملک و ملت۔ وہ امام زمانہ صلوات اللہ علیہ جن کی حکومت کرہ ارض کو عدل سے بھر دے گی۔ بحیثیت ایک شیعہ ہم اس حکومت کے منتظر ہیں۔ زندہ رہے تو اس کا نظارہ دیکھیں گے چل بسے تو یہ دعا کرکے جائیں گے:

دیکھوں نہ جو اُٹھتے ہوئے پردہِ غیبت
آئیں جو میرے بعد یہاں حضرتِ حجت ص
تربت میں ابد کوئی میرا شانہ ہلا دے
۔

میں یہ بھی واضح کر دوں کہ میں  قطعا  ایک شیعہ کو سنیاس لیکر بیٹھ جانے کی تاکید   نہیں کر رہابات فقط اتنی ہے کہ یہ نصرت اور ناصر وغیرہ کے لفظ استعمال کرکے لوگوں کے جذباتی ایکسپلائٹ کرنا غلط ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا کی وہ آخری حجتؐ جسے اس کرہ ارض کو عدل و انصاف سے بھرنا ہے، وہ نعوذ باللہ اتنی بے بس ہے کہ ہم زمین ہموار کریں گے تو وہ ظہور فرمائیں گے، ہم نصرت کیلئے حکومت بنائیں گے تو ہی ان کی حکومت بننے کا راستہ ہموار ہوگا۔ جناب ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ یہ نبی ؐ ہم جیسا والوں کا عقیدہ ہوگا جو اپنے امام ؑ  کو اس لیول پر لے آئیں کہ خود کو امام ؑ کا محتاج سمجھنے کے بجائے نعوذ باللہ امام ؑ کو ہی اپنا محتاج سمجھ لیں اور اپنی دانست میں اس قسم کے منطقی سوال اُٹھاتے نظر آئیں کہ امامؑ معجزے سے اپنی حکومت بنائنگے اوگر معجزہ ہی دکھانا مقصود تھا تو غیبت کس لئے۔ یعنی اِن لوگوں کو اب یہ بھی سمجھانا پڑے گا کہ غیبت اِس لئے تھی کیوں کہ ہمارے امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کے اجداد کو ہر دور میں عالمِ مظلومیت میں شہید کیا جاتا رہا۔  امام ؑ کی حکومت معجزے سے بنے گی، ایسا کسی شیعہ کا ماننا نہیں ہے۔ لیکن میں یہ بتا دوں کہ اس الوہی حکومت کے قیام کیلئے کوئی شیعہ اپنے قیاس کے گھوڑے بھی نہیں دوڑانا چاہئے  جس قیاس کی بنیاد فقط یہ ہو کہ کسی طرح سنہ  1979 میں وجود میں آنے والے ایک نظام کیلئے ذہن سازی کی جا سکے۔ نظام بھی وہ جس میں سوائے اس ملک کے باشندے کے کوئی دوسرا “ولی الامر مسلمین” بننے کا اہل نہیں۔  علامات ظہور مہدی ؑ پر لکھی گئی چند کتابیں پڑھیں تاکہ معلوم ہو معصومین ؑ کیا بتا کر گئے ہیں کہ یہ حکومت کیسے بنے گی۔ وہاں ایسا کچھ لکھا ہو تو بتائیے گا کہ اس الوہی حکومت کے قیام کیلئے ساری زمین سازی سنہ ۷۹ میں وجود میں آنے والا ایک نظام کرے گا۔ وہ نظام جس کا اپنا مقام عدل پر ہونا اشکال سے خالی نہیں۔ وہ نظام جس نے اپنے قومی و علاقائی مفادات پر شیعت کا غلاف چڑھا رکھا ہے۔ جو ظاہر خود کو جہان تشیع کا نمائندہ کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہان تشیع کو درپیش بہت سے مسائل کی وجہ یہی نظام ہے۔ پاکستان میں اس نظام کو ایکسپورٹ کرنے کا نتیجہ ہم نے دو دن پہلے نشتر پارک میں دیکھا۔ کیا اسی نظام کے پیروکار نہیں تھے جو خبطِ عظمت کا شکار ہوکر خود کو سب شیعوں سے افضل اور ہدایت یافتہ سمجھ کر باقاعدہ مجلسوں پر حملے کرنے کی ترغیب دیتے رہے؟ مجھے کوئی ایک خیر بتا دیں جو اس نظام اور اس کے پاکستانی برینڈ ایمبیسیڈرز کے ذریعے پاکستانی تشیع کو ملی ہو؟ چوبیس ہزار شیعہ اس ملک میں مارے گئے؟ خود کو امام ؑزمانہ  کی نمائندہ حکومت کہلوانے والے نظام نے کیا کیا؟ کتنے بیان دے دئیے ؟ ایسے لوگ کس حیثیت سے نصرت کے علمبردار بنے پھرتے ہیں؟

یہ  جملہ کثرت سے بولا جاتا ہے کہ  “امام ؑ کی  عالمی حکومت نصرت سے بننی ہے معجزے سے نہیں” میں آپ کو بتاتا  ہوں کہ اس جملے کو کس طرح مس یوز کیا جاتا ہے ایک ملک کے سیاسی نظام کیلئے ذہن سازی کیلئے۔ ظہور سے متعلق روایات میں ذکر ملتا ہے کہ سب سے پہلے تین سو تیرہ لوگ امامؑ کی بیعت کریں گے جو مختلف خطوں سے ہونگے۔ ہمارے ہاں نصرت بخاری جیسے مولوی اس روایت کو یوں Twist کرتے ہیں۔ آپ کہاں ہیں عزیزان؟ آپ کا امامؑ حسرت سے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ تین سو تیرہ نہیں ہو پارہے۔ آپ غور کریں کیسے اس طبقے نے اپنے مفاد کیلئے بات کو ہی پلٹ دیا۔ نعوذ باللہ امامِؑ وقت کو تین سو تیرہ کا محتاج بنا دیا کہ تین سو تیرہ ہوں تو ظہور ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ظہور ہوگا اور سب سے پہلے یہ تین سو تیرہ مختلف علاقوں سے بیعت کیلئے پہنچیں گے۔تین سو تیرہ محتاج ہیں امامؑ کے ظہور کے، نعوذ باللہ امامؑ نہیں۔ حجتِ خداؑ کے مقام کو سمجھئیے۔

 جواد نقوی نے کچھ سال پہلے ایک خطبے میں یہ “انکشاف” کیا تھا کہ شیعہ اور سنی دونوں ہی نظام امامت پر متفق ہیں۔ بس ہمیں اس کیلئے کام کرنا ہے کہ نظام امامت “نافذ” کیسے ہو۔ یہ کُل مائینڈ سیٹ ہے اس طبقہ فکر کا۔ یہ نظام امامت نافذ کرنا چاہتا ہے، جیسے ڈاکٹر اسرار احمد نظام خلافت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اب ظاہر ہے جب آپ کا عقیدہ یہ ہوجائے کہ وہ عہدہ جو منصوص من اللہ ہے اسے آپ کی نصرت سے “نافذ “ ہونا ہے تو آپ یہی سوال پوچھیں گے کہ کیا حکومت معجزے سے بن جائے گی؟پھر آپ امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی تمام کرہِ ارض کو عدل و انصاف سے پُر کرنے والی عالمی حکومت کے انتظار کی عبادت بجالانے کے بجائے اُس سے پہلے ہی ایک حکومت قائم کرکے اُسے زبردستی اُسی عالمی حکومت کا “پیش لفظ” قرار دینے کیلئے زیادہ کوشاںرہتے ہیں۔اُسے زبردستی تقدیس کا لبادہ اڑھانے کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور یہ تک کہنے میں دریغ نہیں کرتے کہ یہ جو ولایت فقیہ کا نظام ہے یہ دراصل ولایت امیر المومنینؑ کا ہی تسلسل ہے (نعوذ باللہ)۔

تحریر کا اختتام اپنے دوست مصلوب واسطی کے اِس خوبصورت استعاراتی استدلال پر کرتا ہوں:

“آپ کا ایک پلاٹ اور آپ نے اس پہ مکان تعمیر کرنا ہے، اس کا مکمل منصوبہ وقت، نقشہ وغیرہ آپ کے پاس ہے۔ میں آپ کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں اور آ کر آپ کے پلاٹ پہ تعمیرات شروع کروا دیتا ہوں۔ کوئی اعتراض کرے تو کہوں کہ بھئی اصل مالک کی نصرت کر رہا ہوں انہوں نے بھی مکان ہی بنانا ہے اب ان کے تعمیر کرنے تک پلاٹ کو خالی تو نہیں چھوڑ سکتے۔ اب جب آپ تشریف لائیں گے تو یہی کہیں گے بھائی دو ہاتھ آگے کیوں چل رہا ہے۔ میں کہوں گا کہ آپ کی نصرت کر رہا تھا۔ آپ کہیں گے بھئی تم نے تو مزید کام بڑھا دیا۔ ایک تو میں نے تمہیں اجازت نہیں دی، پھر میرے اور دوستوں سے میرے نام پہ پیسے بھی لئے اور بنیادیں بھی غلط بھر دیں میرے نقشے کے مطابق ہیں ہی نہیں۔، اب تم سمیت سب کچھ برابر کے دوبارہ تعمیر کرنا پڑے گا۔”