تذکرہِ اہل بیتؑ

مقامِ سیدہ کونینؑ، ایامِ فاطمیہؑ کی مناسبت سے (نور درویشؔ)

بہت عرصہ پرانی بات ہے میں ایک کمپنی میں انٹرن شپ کر رہا تھا۔ وہاں میرا واسطہ خود سے دوگنی عمر کے ایک عجیب و غریب شخص سے پڑا۔ میرے آفس میں میرے علاوہ ایک دو لڑکے اور بھی تھے جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھے۔ میرے بارے میں ابھی کسی کو معلوم نہ تھا۔ جس شخص کا میں نے تذکرہ کیا وہ اندرون لاہور کا رہاشی تھا اور خود کو بہت کھلا ڈلا انسان یعنی خالص لاہوریا ثابت کرنے کی شدت سے کوشش کرتا تھا۔ یہ شخص اکثر اپنے عشقِ رسولؐ کا خصوصیت کی ساتھ ذکر کرتا تھا، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اُس نے کئی بار یہ بھی بتایا تھا کہ اُسے خواب میں رسول اللہؐ کی زیارت ہوچکی ہے جسے وہ اپنے عشقِ رسولؐ کے ثبوت کے طور پر بیان کرتا تھا۔ میں خاموشی سے اُس کی باتیں سن لیتا تھا لیکن پھر اُس نے اُس دو شیعہ لڑکوں کا ذکر کرتے ہوئے شیعوں اور اُن کے عقائد کے خلاف وہ سب کچھ کہنا شروع کردیا جس کی بنیاد یا کم علمی ہوسکتی ہے اور یا یہ زعم کے میں دوسروں کے عقیدے کے بارے میں اُن سے زیادہ جانتا ہوں۔ ۔آپ اِس شخص کی کم علمی کا اندازہ لگایئے کہ یہ “علیؑا ولی اللہ” کا ترجمہ ” علیؑ اللہ کا دوست ہے” کر کے اپنی دانست میں شیعوں کا مذاق اُڑاتا تھا کہ دیکھو جی اس میں ایسی کون سے بات ہے کہ اس جملے کو کلمے کا حصہ بنا دیا جائے؟ ہم سب ہی یہ مانتے ہیں کہ علیؑ اللہ کے دوست ہیں۔ میں نے بہت اطمینان کے ساتھ اس کی بات سنی اور پھر تقریبا اپنی عمر سے دوگنے اس “عاشقِ رسولؐ و صحابہ” کو یہ بتایا کہ ولی کا لفظ مولا سے ماخود ہے یعنی نگہبان، لیڈر، رہبر، پیشوا، امام وغیرہ۔ بالکل اُسی طرح جیسے (شیعوں سمیت اکثر فقہوں میں) بیٹی کے نکاح کے وقت اُس کے باپ یعنی ولی کے اجازت درکار ہوتی ہے۔ تو کیا یہاں آپ ولی کا ترجمہ دوست کریں گے؟ یہ شخص میری بات سن کر چونک کر مجھے دیکھنے لگا جیسے حیران ہوگیا ہو کہ آفس میں ایک اور شیعہ آگیا۔ لیکن اُس وقت کچھ بولا نہیں۔ البتہ اس کے بعد اُس نے آتے جاتے شیعوں کے خلاف کچھ نہ کچھ بولتے رہنا معمول بنا لیا۔ میں کبھی خاموش رہتا اور کبھی اُسے جواب دے دیتا جس پر اکثر وہ حواس باختہ ہوکر “استغفراللہ استغفراللہ” کہتا ہوا چلا جاتا۔ اُس کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہم خلفاء کا احترام کیوں نہیں کرتے۔ میں جواب میں فدک اور مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کا ذکر کرتا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہوجاتا کہ یہ سب تم لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ میں اُسے بتاتا کہ یہ سب تمہارے مکتب فکر کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے تو اپنے آبائی گاوں کی مسجد کے مولوی سے سنے ہوئے وہ فضائل مجھے سناتے لگتا جو اُس کے نزدیک خلفاء کی فضیلت کا ثبوت تھے۔ وہ اپنی دانست میں انتہائی منطقی سوال اٹھاتے ہوئے مجھ سے کہتا کہ ایک طرف تو تم لوگ مولا علی علیہ السلام کے معجزات و فتوحات کا اتنا ذکر کرتے ہو، قدم قدم پر یا علی ع مدد پکارتے ہو اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہو کہ ان کے سامنے ان کا حق یعنی خلافت غصب ہوگیا اور وہ خاموش رہے؟ ان کے سامنے دختر رسول ص کو جھٹلایا گیا تب بھی خاموش رہے اور در دختر رسول ص کو جلایا گرایا گیا تب بھی انہوں نے کچھ نہ کیا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ سوال آپ کو اس “عاشق رسول ص و صحابہ” کی طرح بہت سے لوگ پوچھتے نظر آئے ہونگے۔ میں نے جو جواب دیا تھا وہ میں آخر میں لکھتا ہوں۔ ۔مولا علی علیہ السلام خاموش کیوں رہے؟ ایسے سوال پوچھنے والے دراصل عقیدہ امامت ہی نہیں شاید عقیدہ نبوت کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے ورنہ ایسے بھونڈے سوال نہ پوچھتے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی انبیاء کے منصوص من اللہ ہونے کا منکر کسی مسلمان سے یہ سوال پوچھے کہ تمہارا مذہب انبیاء کے معجزات کا اتنا ذکر کرتا ہے تو انہوں نے فرعون، نمرود وغیرہ جیسوں کو معجزات سے ہلاک کرکے اپنا حق یعنی حکومت کیوں نہ حاصل کر لی؟ عیسی علیہ السلام تو مردوں کو زندہ کر دیتے تھے تو کیوں مصائب سہتے گئے، معجزے کے ذریعے تمام ظالموں کو فی النار کر دیتے۔ ایسے منکر کو جواب دیتے ہوئے ہم اسے یہ بتائیں گے کہ نبی اس وقت بھی نبی ہوتا ہے جب اس کا حق غصب کر لیا جائے یا امت اس سے غافل ہوجائے۔ نبی کا ہر قدم مشیت الہی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ جنگ کرے تب بھی حکم خدا سے اور نہ کرے تب بھی حکم خدا سے۔ وہ حکومت کرے تب بھی نبی ہے اور اگر حکومت اُس کا حق ہوتے ہوئے بھی غصب کر لی جائے وہ تب بھی نبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تین سو تیرہ اصحاب کے ساتھ بے سروسمانی کے عالم میں معرکہ بدر لڑنے والے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار صلح حدیبیہ بھی کی تھی۔ سوال پوچھنے والے اس وقت بھی تھے اور اگر یہ پکے سچے مسلمان اس وقت ہوتے تو یہ بھی یہی پوچھتے کہ حضور ص آپ صاحب معجزات و کرامات ہیں، صلح کیوں، جنگ کرکے ان کے قلع قمع کر دیتے ہیں۔ہم ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کو منصوص من اللہ مانتے ہیں۔ وہ تلوار اٹھائیں تو اللہ کے حکم سے اور تلوار میان میں رکھیں تو اللہ کے حکم سے۔ بعد از رسول کریمؐ پیش آنے والے واقعات پر امام علیؑ نے صبر کیا اور یہ کہہ کر صبر کیا کہ اس لیے صبر کر رہا ہوں کہ خدا کے رسولؐ نے مجھے صبر کرنے کی وصیت کی تھی۔ ڈاکٹر عمار نقشوانی نے ایک مجلس میں ذکر کیا تھا کہ جس وقت درِ سیدہ سلام اللہ علیھا پر حملہ ہوا تھا، امام علیؑ نے اُس دوران ایک شخصیت کی داڑھی دبوچتے ہوئے عالمِ جلال میں فرمایا تھا کہ میں اس لیے صبر کر رہا ہوں کیوں کہ خدا کے رسولؐ نے مجھے وصیت کی تھی (مفہوم)۔ امام علی خاموش کیوں تھے؟ یہ سوال حق سیدہ سلام اللہ علیھا کو جھٹلانے والے بھی پوچھتے ہیں اور یہی سوال ہم شیعہ بھی پوچھتے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ حق سیدہ سلام اللہ علیھا کے منکر یہ سوال پوچھ کر حق سیدہؑ کا انکار کرتے ہیں جبکہ ہم اس سوال کے وسیلے سے اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ سیدہؑ کا مطالبہِ فدک اور مصائب سیدہؑ پر امام علیؑ کا صبر، منصوص من اللہ ہستی کی جانب سے آنے والے زمانوں کیلئے حق و باطل، حقدار و غاصب اور سچ اور جھوٹ کو پہچاننے کا ایک انتظام تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ انتظام کس قدر پر اثر تھا۔ فدک اور مصائب سیدہ سلام اللہ کی مثال آج اس باریک پل صراط کی مانند ہے جس پر سے گزرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس پر سے وہی گزرتا یے جس کے دل میں عظمت و عصمت سیدہ سلام اللہ علیھا عقیدہ نور کی صورت موجود ہو۔ یہاں کوئی بیچ کا راستہ کام نہیں آتا، آپ یا حق سیدہ سلام اللہ علیھا کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں۔ ۔ میں بطور ایک شیعہ ہمیشہ پروردگار کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ان لوگوں کے درمیان پیدا کیا جن کے دلوں میں سیدہ سلام اللہ علیھا کا احترام فقط اس لیے موجود نہیں کہ وہ دختر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ( اگرچہ یہ ہماری بی بی سلام اللہ علیھا کی عظیم ترین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یے۔)، بلکہ وہ سیدہ سلام اللہ علیھا کو عصمت و طھارت کے اعلی ترین منصب پر فائز ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، بنص آیت مباہلہ بی بی سلام اللہ علیھا کو صدیقہ الکبری مانتے ہیں، بنص فرمان امام حسن العسکری علیہ السلام بی بی سلام اللہ علیھا کو ائمہ اہل بیت علیھم السلام پر حجت مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی دختر سیدہ سلام اللہ علیھا کی آمد پر کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا کرتے تھے تو بقول علامہ طالب جوہری یہ احترام ایک باپ کا بیٹی کیلئے احترام نہیں بلکہ ایک ھادی برحق کا دوسرے ھادی برحق کیلئے احترام تھا۔ ۔جب انسان کے دل میں یہ عقیدہ ہوگا کہ سیدہ سلام اللہ علیھا کی فضیلت فقط دختر رسول اکرم ص اور سردار اہل جنت ہونا ہی نہیں بلکہ منصب ہدایت و عصمت پر فائز ایک طاہرہ و صدیقہ ہونا بھی ہے جو نیابت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کار ہدایت انجام دے رہی تھیں تو ایسا انسان ہر چلتی سانس کے ساتھ یہ گواہی دیتا نظر آئے گا:اشھد انا فاطمہ صدیقہ الکبری۔