مصائبِ سیدہؑ پر یقین عقیدے کا معاملہ ہے۔ از نور درویش
ایک بار میں علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ذہن میں ایک سوال تھا جو موقع ملتے ہیں میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے اُن سے دریافت کیا۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ شیعوں کے اندر چند ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کا انکار کرتے ہیں، بعض انہیں محض تاریخی واقعات قرار دے دیتے ہیں، بعض شہادتِ سیدہ سلام اللہ علیھا کا انکار کرتے ہیں اور بعض ان روایات کی جانچ پڑتال کرتے نظر آتے ہیں جو مصائب سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا بیان کرتی ہیں۔ ان مصائب میں لوگوں کا درِ سیدہ سلام اللہ علیھا پر جمع ہونا، وہاں شور و غُل بپا کرنا، دھمکیاں دینا، اُسے آگ لگانا، دروازے کو گرایا جانا، شہادتِ جنابِ محسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام اور اس واقعے سے متعلق دیگر حقائق شامل ہیں۔
علامہ صاحب نے میرے سوال کو غور سے سنا اور رندھی ہوئی مگر جلال سے بھرپور آواز میں مجھے فقط اتنا کہا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کو فقط تاریخی واقعہ کہنے والے یا اسے جھٹلانے والے جاہل ہیں جنہیں یہی معلوم نہیں کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا تاریخ نہیں بلکہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ علامہ صاحب کی آواز بالکل اسی طرح رندھ گئی تھی جیسے ایک مجلس میں جناب سلمان فارسی ع اور سیدہ سلام اللہ علیھا کی چادر کا واقعہ سناتے ہوئے گلے میں پھنس گئی تھی اور آنکھیں نم ہوگئیں تھیں۔
کہنے کو یہ بہت مختصر جواب تھا لیکن تھا اتنا پر اثر کہ میرے ذہن میں راسخ ہوگیا۔ اس دن کے بعد سے مجھے یہ ادراک ہوگیا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کا تذکرہ کیوں ضروری ہے۔ وہ کون سا انتظام ہے جو سیدہ سلام اللہ علیھا نے کیا، جس کی بدولت حق و باطل، حقدار و غاصب اور ظالم و مظلوم کا فرق کیا جاتا رہے گا۔ آنے والے زمانوں میں جب مناظرے ہونگے تو ایسے بہت سے اہل دل ہونگے جو اسناد پر بحث کرتے کرتے اچانک ضمیر کی عدالت میں پہنچ جاینگے اور بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے واپس آجاینگے۔
۔
مجھے علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کے وسیلے سے ہی مقام سیدہ سلام اللہ علیھا کے بارے میں ایک انتہائی منفرد نکتہ جاننے کو ملا۔ ہم نے ہمیشہ یہ تو سنا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی دختر سیدہ سلام اللہ علیھا کا استقبال کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔ علامہ طالب جوہری نے ایک مجلس میں یہی بات بیان کی اور پھر یہ دلیل قائم کی کہ یہ فقط ایک باپ کا اپنی بیٹی کا احترام نہیں تھا بلکہ میرا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیدہ سلام اللہ علیھا کی آمد پر کھڑے ہوکر ہمیں یہ بتلا رہا تھا کہ یہ ایک ھادی، یعنی ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا، دوسرے ھادی، یعنی سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کیلئے احترام تھا۔ افسوس کہ امت نے نہ دختر کا احترام کیا اور نہ ھادی کا۔
مجھے یہ نکتہ سن کر بے اختیار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گیارہویں وارث امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان یاد آگیا تھا کہ ہم خدا کی جانب سے تمام مخلوق پر حجت ہیں اور ہماری جدہ سیدہ سلام اللہ علیھا خدا کی جانب سے ہم پر حجت ہیں۔
۔
سوشل میڈیا کی بدولت بہت سی معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ علامہ صاحب نے جو بات مجھے ایک جملے میں کافی برس پہلے سمجھائی تھی آج سوشل میڈیا پر مدرسہ القائم ؑ جیسے مدارس کے فیس بک پیجز کے توسط سے وہی بات مختلف بزرگ علماء و فقہا کی زبانی سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مثلا آیت اللہ میرزا جواد تبریزی علیہ الرحمہ کا فرمانا کہ شہادت سیدہ سلام اللہ علیھا کا منکر فقیہ ہی نہیں ہے۔ یا آیت اللہ سید محمد حسینی شاہرودی کا فرمانا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا شیعہ عقیدہ اور ولایت اہل بیت علیھم السلام کی ضروریات میں سے ہیں۔ یہ محض تاریخی واقعہ نہیں۔ اسی طرح آقائی وحید خراسانی، سید سیستانی، سید صادق شیرازی جیسے بہت سے فقہا کی مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کی تائید و اہمیت کے حوالے سے آراء نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔
البتہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کے منکروں کی مدح سرائی کرنے والے کچھ منافق خود کو علماء و فقہا کا چاہنے والا ظاہر کرکے ہم جیسے “رسمی شیعوں” کو فقہا کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ہم رسمی شیعوں کا پیمانہ سادہ سا ہے، جو سیدہ سلام اللہ علیھا کے دشمنوں کو رعایت دے اور خود کو شیعہ بھی کہے، ایسے منافق سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
۔
میں بہت گناہگار انسان ہوں لیکن سیدہ سلام اللہ علیھا نے مجھ پر کرم فرمایا اور مجھے بتلا دیا کہ جس سے ہم خوش ہوں اس سے جڑے رہو اور جس سے ہم ناراض ہوں اس سے دور رہو۔ یہ حکم میں نے اپنی گرہ سے باندھ لیا ہے، توفیق ہوئی تو قبر میں بھی یہی دہرا دوں گا۔