اسیرِؑ بغداد کا ماتم از نور درویش
ماں کی گود کو انسان کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے۔ ہم شیعوں کے ہاں اِس درسگاہ میں جو سبق بچے کو سکھایا جاتا ہے وہ بلاتفریقِ ملک و زبان ایک ہی ہے۔ وہ مختصر سا سبق “اللہ ایک، پنجتنؑ پانچ، امام بارہ اور معصومؑ چودہ” ہوتا ہے. بچہ کچھ بڑا ہوجاتا ہے تو پنجنؑ کے نام یاد کرتا ہے اور پھر کچھ اور بڑا ہوتا ہے تو بارہ اماموں کے نام یاد کر لیتا ہے۔ یوں اُس کے ذہن میں ایک معصوم اور ننھا سے خاکہ بن جاتا ہے۔ وہ والدین کے ساتھ مجالس میں جانا شروع کرتا ہے، وہاں فضائیل محمدؐ و آلِ محمدؑ سنتا ہے اور کربلا کے شہیدوں کا ذکر سنتا ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے ذہن میں موجود اُس ننھے سے خاکے کو تقویت دینا شروع کرتا ہے اور ماں کی گود سے شروع ہونے والے “اللہ ایک، پنجتن پانچ، امام بارہ اور معصومؑ چودہ” کا پہلا سبق وسیع تر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
۔
مجھے بھی بچپن میں یہی پہلا سبق ملا تھا جو کوتاہیوں، کم علمی اور خطاوں سے بھری اب تک کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح میرے ذہن میں ایک خاکے کی صورت موجود ہی رہا۔ بارہ اماموں کے نام یاد کیے تھے تو ہر امام کے نام کا ایک خاکہ ذہن میں بنا لیا تھا۔ چونکہ مجالس میں سرکارِ دو عالمؐ، مولائے کائیناتؑ، امام حسینؑ، امام زین العابدینؑ، امام حسنؑ اورابو الفضل العباسؑ کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اِس لئے ان ہستیوں کے خاکے زیادہ واضح تھے۔ مجالس کے اشتہاروں میں یہ نام کثرت سے لکھے نظر آتے تھے۔ لیکن پھر بھی ایک تعلق، ایک نسبت اور ایک اُنسیت تھی جو ماں کی گود میں ملنے والے اُس پہلے سبق کی وجہ سے بارہ اماموں سے قائم تھی۔ مشہد، کاظمین، سامرہ اور مدینہ (بقیع) کے نام سُن کر دل چاہتا تھا کہ میں بھی کبھی وہاں جا سکوں۔ عمر بڑھتی گئی تو اُس پہلے سبق کے طفیل ذہن میں موجود خاکے واضح ہوتے گئے۔
چاہے کسی حوزہ علمیہ میں کا پڑھا کوئی عالمِ دین ہو یا مجھ جیسا “ستار العیوب” کے آسرے پر زندگی گزارنے والا عام انسان، ہم سب کا پہلا سبق یہی ہوتا ہے۔
۔
رجب کے مہینے میں جب جگہ جگہ ۱۳ رجب کے جشن کے اشتہار نظر آتے تھے تو اِسی مہینے میں کچھ اشتہار نطر آتے تھے جن پر “اسیرِ بغداد کا ماتم” کی عبارت لکھی ہوتی تھی۔ یہ ساتویں امام اہلیبیت، امام موسی ابنِ جعفر الکاظم علیہ السلام کی شہادت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی مجالس کے اشتہار ہوتے تھے اور یہ عبارت اب بھی اِن اشتہارات پر لکھی ہوتی ہے۔ اسیر کا یہ لفظ یا کربلا میں موجود اہم ترین کردار امام علی بن حسین زین العبادین علیہ السلام کے نام کے ستاھ کثرت سے لکھا جاتا ہے اور یا امام موسی الکاظمؑ کے نام کے ساتھ۔ آپ کی چون برس کی کل زندگی میں سے چودہ برس سخت ترین قید میں گزرے۔ یہ عباسی خلیفہ ہاروں الرشید کا دورِ ملوکیت تھا۔ امامؑ کو اِسی قید کے دوران زہر دے کر شہید کیا گیا۔
۔
مجھے امامؑ کی قید کی سختیوں کا ذکر نہیں کرنا ہے، وہ تو آپ سب مجالس میں سُن ہی چکے ہونگے۔ مجھے تو بس امامؑ کے جنازے کا ذکر کرنا ہے کیونکہ میرے وطن عزیز میں جنازوں میں شرکاء کی تعداد پر حق و باطل کا فیصلہ کرنا معمول بن چکا ہے۔ امام موسی کاظمؑ کے جنازے کو چار مزدوروں نے لے جا کر بغداد کے پل پر رکھ دیا تھا، دنیا جہان کے دیندار اور اُمتی موجود تھے لیکن خانوادہ رسالت کے اِس وارث کا جنازہ اُسی عالم میں اُٹھا جیسے اُس سے پہلے کے وارثین کے اُٹھتے رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ امام موسی کاظمؑ کا جنازہ اِس عالم میں اُٹھا کہ آپ کے پیروں میں لوہے کی بیڑیاں تھیں۔ یہ سب لکھتے ہوئے میرے دل شدت سے یہ چاہ رہا ہے کہ میں جنازوں کے فضائیل سنانے والوں سے پیغمبر اکرمؑ کی نسل کے ساتویں وارث کے جنازے کے حوالے سے سوال پوچھوں لیکن پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دے رہا ہوں کہ ابھی تمہارا دل ساتویں امامؑ سے متعلق سوال پوچھنے کا چاہ رہا ہے، اگر دل مزید سوال پوچھتا رہا تو کربلا اور پھر کربلا سے مدینہ تک پہنچ جائے گا اور کبھی کریمِ اہلیبیتؑ امام حسن المجتبیؑ کے جنازے کے بارے میں سوال پوچھے گا اور کبھی دخترِ رسولِ کریمؐ سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کے رات کی تاریکی میں اُٹھنے والے جنازے کا۔
۔
امام موسی ابن جعفر الکاظم علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے تو آپ کے ایک معروف صحابی جناب علی ابن یقطین رض کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ علی ابن یقطین امام موسی کاظم علیہ السلام کہ وہ وفادار صحابی تھے جو امام علیہ السلام کی اجازت اور رہنمائی سے عباسی حکومت میں شامل رہے تاکہ مومنین کی مدد اور مظلوموں کی دادرسی کرتے رہیں۔ گویا غیبت کبری کے اس دور میں ہر وہ محب اہلیبیت علیھم السلام جو اس مقصد سے حکومت میں یا کسی اثر رسوخ رکھنے والے ادارے میں شامل ہو کہ وہ اس کے ذریعے مومنین کی دادرسی کرے گا اور ان کے حقوق کیلئے کام کرے گا تو وہ شخص دراصل علی بن یقطین کی پیروی کرتا ہے۔ بشرطیکہ مقصد مومنین اور مظلوموں کی دادرسی ہو۔
جناب علی ابن یقطین ایک بلند پایہ محدث اور فقیہ تھے۔ ان سے مروی امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ جبکہ ان کی لکھی ہوئی تین کتابوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی مستقل کی پیشن گوئیوں اور واقعات کا تذکرہ محفوظ کیا گیا۔
جناب علی بن یقطین کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے محبت اور وفاداری کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار ان سے کسی نادار مومن کی دل آزاری ہونے کی سبب امام موسی کاظم علیہ السلام نے ناراضی کا اظہار فرمایا تو تمام شہر میں اس مومن کو ڈھونڈتے رہے اور ملنے پر اس سے معافی مانگ کر التجا کی کہ میں اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہوں اور آپ اپنے قدم میرے چہرے پر رکھ دیجئے تاکہ وہ نشان میں اپنے مولا کو دکھا سکوں اور ان کے قلب مطھر کو راضی کر سکوں۔
جناب علی بن یقطین دو ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کے ادوار میں موجود تھے، پہلے امام جعفر صادق علیہ السلام اور پھر آپ کے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام۔ کہا جاتا ہے کہ دشمنان اہلیبیت علیھم السلام کی جانب سے بارہا ہارون الرشید کو شکایت کی جاتی رہی کہ علی بن یقطین کا امام موسی کاظم علیہ السلام سے رابطہ ہے اور وہ شیعہ ہے لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی نقصان پہنچا، نہ ہی عباسی حکمرانوں پر ان کا مسلک عیاں ہو سکا اور نہ ان کے حکومتی عہدے پر کوئی فرق پڑا۔ اسے یقینا امام موسی کاظم علیہ السلام کی کرامت کہا جائے گا۔
۔
علی بن یطقین اس ہستی کے صحابی تھے جو قید میں ہونے کے باوجود اپنے چاہنے والوں کی خبر گیری کرتی رہی۔ وہ ہستی جسے اُس وقت کے آمر نے چودہ برس سخت ترین قید میں رکھا، جس کا جنازہ مزدوروں نے بغداد کے پل پر رکھ دیا۔ آج اُس کا روضہ مبارک دنیا بھر کے زائرین کیلئے باب الحوائج کا روضہ کہلاتا ہے۔ بغداد کو وہ پل جہاں مزدورں نے امامؑ کا جنازہ رکھ دیا تھا، آج امام موسی کاظمؑ کے یومِ شہادت پر اُس پُل پر لاکھوں عزاداروں کا اژدہام ہوتا ہے۔ کافی برس پہلے اِسی پل پر یومِ شہادت امام موسی کاظمؑ پر دھماکہ ہوا تھا، متعدد عزادار شہید ہوئے تھے۔ دشمنِ اہلیبیتؑ چودہ سو برس پہلے بھی اہلیبیتؑ اور اُن کے جنازوں کا دشمن تھا اور آج بھی۔
۔
میں نے امام موسی کاظمؑ کی شہادت کی مناسبت سے ایک مجلس میں سُنا تھا کہ بغداد کاظمین میں امام موسی کاظمؑ کے روضے پر بہت ہی منفرد احساس ہوتا ہے۔ بے انتہا سکون، روحانیت، اپنائیت اور اطمینان کا احساس۔ ہو بھی کیوں نہ، یہ “کاظمین الغیظ” کی بادشاہی ہے۔ یعنی وہ ہستیاں جو غصہ ضبط کرنے پر مکمل اختیار رکھتی ہیں۔ ان خاص ہستیوں کیلیے قرآن نے بیان کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں، انسانوں سے نرمی سے پیش آتے ہیں۔ خدا ان محسنوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اتنی محبت کہ جہاں یہ ہستیاں مدفون ہوتی ہیں وہاں کی فضاوں میں سکون، اطمینان، تسکینِ قلب اور ٹھہراو کا ایسا احساس پیدا کر دیتا ہے کہ انسان کا واپس آںے کا دل نہیں چاہتا۔
یہ امام موسی کاظم علیہ السلام کا فیض ہے کہ شہرِ کاظمین ہی نہیں لفظ “کاظمین ” میں بھی بے انتہا تاثیر ہے۔ ادھر آپ نے اپنی زبان سے کاظمین کہا اور وہاں آپ کا دل مودت و انسیت کے منفرد احساس سے لبریز ہوا۔
۔
بغداد میں عباسی آمروں کے بڑے بڑے محل تھے، جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ اسی بغداد میں امام موسی بن جعفر الکاظمؑ کا چھوٹا سا گھر بھی تھا۔ اسی بغداد میں انہیں چودہ برس ایک تنگ و تاریک زندان میں قید رکھا گیا تھا۔ ان حکمرانوں کے قصیدے سنانے والے جاکر ان کے محلات کی ویرانی دیکھ لیں اور کاظمین میں امام موسی الکاظمؑ کے “محل” کی رونق بھی دیکھ لیں۔ فرق سمجھ میں آجائے گا کہ رقبے فتح کرنے والے اسلام اور دل فتح کرنے والے اسلامِ محمدیؐ میں کیا فرق ہے۔
پچیس رجب، شہادت امام موسی ابن جعفر الکاظم علیہ السلام۔