مولا علی علیہ السلام کی مقناطیسی شخصیت از نور درویش
آخر کیا وجہ ہے کہ بلا تفریق مذہب و مکتب، غیر ارادی اور بے اختیار جذبات سے لبریز انسانوں کا ایک ہجوم ہے جومولا علیؑ کی طرف کھچا چلا آتا ہے؟ یہ عجیب انفرادیت ہے اِس مبارک نام اور ِاس پاک و مطھر ذات میں۔ یقینا اسی وجہ سے اس ذات کو “مظہر العجائب” کہا گیا۔ مجھ جیسے ایک عام انسان کیلئے ِاس بے اختیاری جذبے کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہ ہوپاتا اگر لکھنے والوں نے لازوال رباعیاں اور شعر نہ کہہ دئے ہوتے۔
۔
کوئی سپاہی محاذ جنگ پر جائے تو علی علیہ السلام کا نام لے کر جائے، پہلوان کشتی کے اکھاڑے میں اترنے سے پہلے یا علیؑ مدد کہے، اہلِ طریقت کا گزارا نہ ہو جب تک “من کنت مولا” کہہ کر رقص نہ کر لیں، ملنگ ملنگ نہ ہو اگر علیؑ حق کہہ کر مست نہ ہوجائے، خطیب منبر پر بیٹھے اور “سلونی قبل عن تفقذونی” کے فضائل پڑھ کر سامعین کے دل گرماتا رہے، عالم کی علمی تشنگی پوری کرے تو یہ باب مدینہ العلم، فقیہ کا مولائی خون جوش مارے تو “وصی المصطفی حقا” جیسا بے مثل کلام لکھ جائے جو نجف الاشرف میں حرم امام علیؑ میں لکھے جانے کا اعزاز پائے، کسی محدث کو عظمتِ علیؑ بیان کرنے کا خیال آئے تو خصائصِ علیؑ” لکھ ڈالے، کبھی علامہ امینیؒ جیسا کوئی عارف باللہ عشقِ علیؑ میں ایسا سرشار ہو ہو کہ “الغدیر” پر بیس جلدیں لکھ دے،۔یتیم بچوں کو باپ کی شفقت ملے تو اس “ابو الایتام یعنی یتیموں کے باپ” سے، کوفہ کے کسی نابینا غریب کو ہر روز کھانا ملے تو اسکے کسی “بہت ہی پیارے دوست” سے، ٹوٹے دلوں کو سہارا ملے تو اس “مشکل کشاء” سے، کسی کا ارادہ ٹوٹے تو علیؑ یاد آئے، کسی کی اُمید بندھے تو علیؑ کو پکار اٹھے، اسکی محبت کا عکس کبھی تیرہ رجب کو خوش عقیدہ سنی کے چمکتے چہرے پر “کرم اللہ وجہہ الکریم” کی تفسیر کرتا نظر آئے تو کبھی شیعہ اسکی امامت کا جام غدیری ہاتھوں میں لیے “علیؑا ولی اللہ” کے نعرے لگاتا دکھائی دے۔
کبھی کوئی مولائی ہندو شاعر اٹھے اور پکار اُٹھے “علیؑ جتنے تمہارے ہیں، علیؑ اتنے ہمارے ہیں”، پھر کہیں سے کنور مہندر سنگھ کی آواز آئے کہ “ہم کسی دیں سے ہوں قائل کردار تو ہیں، ہم ثناء خوانِ حیدر کرارؑ تو ہیں”، کبھی ایک مسیحی دانشور و شاعر جارج جرداق اٹھے اور “علیؑ، ندائے عدالت انسانی” کے عنوان پر کتاب لکھ ڈالے، اہل طریقت کے سلسلے “طریقت، شریعت، حقیقت” سے ہوتے ہوئے پہنچیں تو مولا علیؑ تک اور پہنچنے کے بعد ” شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار” پکار اٹھیں تو کبھی امیر خسرو “ہم تم تنہا ناں ناں، ناں ناں ناں رے” لکھ کر قلم توڑ ڈالیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود خدا، شیرِ خدا کی آمد کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے “سلطانا نصیرا” سے تعبیر کرکے مختصر سی منقبت لکھ دے۔
ابھی دل مسلسل اصرار کررہا ہے کہ مولا علیؑ کے جتنے القابات یاد ہیں، وہ بھی لکھ دوں لیکن بہت مشکل سے یا علیؑ مدد کہہ کر اسے روکا ہے ورنہ ہر لقب پر بڑھنے والی دل کی دھڑکن کو کون روکے گا؟ دل کا کیا ہے، ہمیشہ اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ اسے بس علیؑ علیؑ کرنا ہے کہ علیؑ سوا اسکا کوئی ہے جو نہیں۔
۔
یہ ہے مولا علیؑ کی مقناطیسی شخصیت کا کمال کہ میں معلوم نہیں کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پہنچ گیا، انسانوں کے اُس ہجوم کی طرح جو مولا علیؑ کی طرف کھچا چلا آتا ہے۔ یہ مقناطیسیت خدا کا انتظام ہے اور مقناطیسیت کی خاصیت تو یہی ہے کہ کوئی کھچا چلا آتا ہے اور کوئی کھچا کھچا سا رہتا ہے۔