شہادتِ سیدہ سلام اللہ علیھا اور مولائے کائناتؑ کا صبر
فدک کا معاملہ ہو تو اُمت کا دھڑا بلکہ ایک بہت بڑا دھڑا بجائے حق سیدہ سلام اللہ علیھا کے ساتھ کھڑے ہونے کے یہ سوال پوچھنے کھڑا ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دختر رسولؐ ایک باغ کیلئے دربار چلی جائیں۔ اگلا سوال پوچھا جاتا ہے کہ اگر فدک واقعی سیدہ سلام اللہ علیھا کا حق تھا تو مولا علی علیہ السلام نے اپنی ظاہری خلافت کے وقت یہ واپس کیوں نہ لے لیا؟ صدیاں گزر گئیں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے لیکن اُمت کے اس دھڑے کی تشفی نہ ہو سکی۔ اس دھڑے کیلئے فدک کل بھی فقط ایک “باغ” تھا اور آج بھی فقط ایک “باغ” ہے جبکہ ہمارے لیے یہ قیامت تک کیلئے حق اور باطل کا وہ معیار ہے جس کا انتظام مقام عصمت و صداقت و طھارت کے بلند ترین مرتبے پر فائز سیدہ سلام اللہ علیھا نے کیا۔ اب قیامت تک کیلئے دو ہی راستے باقی رہیں گے۔ یا تو آپ کے نزدیک سیدہ سلام اللہ علیھا حق ہیں (بے شک ہیں اور ہمیشہ سے ہیں) جبکہ دوسرے راستے کا میں ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا۔
۔
فدک کی طرح دوسرا معاملہ مصائب و شہادت سیدہ سلام اللہ کا ہے۔ یہاں بھی اُمت کا ایک دھڑا بلکہ بہت بڑا دھڑا صدیوں سے یہی سوال پوچھتا آیا یے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دختر رسولؐ پر اتنا ظلم ہوتا رہا اور علی مرتضی علیہ السلام جیسا جری خاموش رہا؟ اس سوال کا جواب بھی صدیوں سے بار بار دیا جاتا رہا لیکن سوال کرنے والا دھڑا نہ کل مانا اور نہ آج مانتا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا کے توسط سے اس دھڑے کی نفسیات کا بہت غور سے مشاہدہ کیا ہے اور آپ کو مکمل یقین کے ساتھ یہ بتا سکتا ہوں کہ جس وقت بیت سیدہ سلام اللہ علیھا پر حملہ ہوا تھا اور بلوائیوں نے امام علی علیہ السلام کو پابند رسن کرکے گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکالنے کی جسارت کی تھی، اگر اس وقت شیر خدا فاتح خیبر و خندق نے ذوالفقار نیام سے نکال کر حملہ کرنے والوں کو ایک ہی وار میں قتل کر دیا ہوتا تو آج اُمت کا یہی بہت بڑا دھڑا مولائے کائنات علیہ السلام کے خلاف مقدمہ قائم کیے کھڑا نظر آتا کہ نعوذ باللہ علی مرتضی علیہ السلام نے اقتدار کی خاطر “اصحاب” کو قتل کر دیا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ ایک باغی گروہ کے بارے میں واضح ترین فرمان نبویؐ موجود ہونے کے باوجود امت کا یہ دھڑا خطائے اجتہادی سے لیکر فضیلت سازی تک، کیسی کیسی تاویل گھڑتا نظر نہیں آتا؟
۔
فدک کی طرح یہاں بھی راستے دو ہی ہیں۔ یا تو آپ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا پر کامل یقین رکھتے ہیں اور یا مکمل طور پر یا جزوی طور پر ان کا انکار کرتے ہیں۔ جو مکمل یا جزوی انکار کرکے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب ظلم مولا علی علیہ السلام کے سامنے ہوا اور وہ خاموش رہے؟ لہذا یہ ظلم ہوا ہی نہیں۔ جبکہ جو مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا پر کامل یقین رکھتے ہیں، وہ بس اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کے نزدیک مولا علی علیہ السلام کی خاموشی ان مصائب سے انکار کی دلیل ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ خاموشی بذات خود انہی مصائب کا ایک حصہ ہے۔ اِس خاموشی یا صبر کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ مولا علی علیہ السلام کیلئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم اور آپؐ کی وصیت حرفِ آخر ہے۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت کردی کہ علیؑ میرے بعد صبر کرنا تو مولا علی علیہ السلام کیلئے یہ وصیت وحی الہی تھی کیوں کہ رسولؐ خدا کا ہر کلام وحی الہی کے تابع ہے۔ اب مولا علی علیہ السلام کی خاموشی اور صبر کو اُمت کا وہ دھڑا بھلا کیسے سمجھ سکتا ہے جس کے نزدیک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے سے قبل کاغذ و قلم مانگنا اور اس کے جواب میں شور و غل بپا کرکے کاغذ و قلم کے بجائے “حسبنا القرآن” کا نعرہ لگا دینا کسی شخصیت کی “فضیلت” ہے۔ جنہیں قول رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں شور و غل بھی قبول ہو، اُن کا یہی مقدر ہے کہ انہیں علی مرتضی علیہ السلام کی خاموشی کبھی سمجھ نہ آسکے۔