رہبرِ حق امامِؑ زمانہ از نور درویش
قطیف کے نام سے آپ سب واقف ہونگے۔ یہ سعودی عرب کے مشرقی حصے میں واقع ایک شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں جگہ جگہ مساجد و حسینیہ نظر آتے ہیں۔ قطیف کے مضافات میں ایک علاقہ ہے جسے سیھات کہا جاتا ہے۔ میں جب دمام میں مقیم تھا تو ہر جمعے کو قطیف یا سیھات نماز پڑھنے چلا جاتا تھا۔ گھر سے دور تھا، پردیس تھا، ایسے میں یہاں قطیف یا سیھات آکر مجھے بہت سکون ملتا تھا۔ سیھات کی مرکزی مسجد میں نمازِ جمعہ ہوا کرتی تھی جبکہ قطیف کی جامعہ مسجد میں ظہرین ادا کی جاتی تھی۔ میں اکثر جمعہ کی نماز پڑھنے سیھات کی جامعہ مسجد جایا کرتا تھا۔ مجھے وہاں مولانا کا خطبہ جمعہ میں انتہائی خوبصورت انداز میں چہاردہ معصومینؑ کے اسمائے مبارک بمعہ القابات پڑھنا بہت پسند تھا۔ پاکستان میں بھی نمازِ جمعہ میں خطبہ میں یہ نام لیے جاتے ہیں، پھر آخر میں امام العصرؑ کا نام آتے ہیں سب نمازی احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن سیھات میں یہ منظر کچھ منفرد تھا۔
۔
مولانا رسولِ خداؐ کا نام لیتے تھے، آپؐ کے چند القابات کو انتہائی دلنشیں انداز میں بیان کرتے تھے اور پھر تمام نمازی یک زبان ہوکر “صلوات الله و سلامه علیه” پڑھا کرتے تھے۔ پھر مولانا امام علیؑ کے چند القابات دہراتے تھے اور مسجد ایک بار پھر “صلوات الله و سلامه علیه” کی صداوں سے گونج اُٹھتی تھی۔ وہابیت کے اکھڑ پن کے درمیان شب و روز گزارنے والے کا دل اپنے مولا علیؑ کا یوں ذکر سن کر کیا محسوس کرتا ہوگا، اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بس اتنا بتا سکتا ہوں کہ میں اس مسجد میں اکثر پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو زاروقطار روتے دیکھتا تھا۔
۔
سیدہ فاطمہ الزہراؑ کے نام اور القابات پر نمازی سلام بھیجنے کے بعد “و ابوھا و بعلہا و بنوھا” کے الفاظ بھی کہتے تھے۔ پھر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا ذکر ہوتا تھا۔ اسی طرح ہر امامؑ کا اسمِ مبارک اور القابات دہرائے جاتے تھے اور نمازی یک زبان ہوکر سلام بھیجتے جاتے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے موتیوں کی ایک خوبصورت لڑی ہے جس کا پہلا موتی اسمِ محمدؑ ہے اور پھر ایک ایک کرکے باقی موتی شامل ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا گیارہویں امام، امام حسن العسکریؑ کے نام پر پہنچتے تھے۔ مجھے تمام القابات اور جملے تو یاد نہیں لیکن یہ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا، امام حسن العسکریؑ کے اسمِ مبارک کے بعد الزکی اور الھادی کے القابات دہرایا کرتے تھے۔ سامرا میں روضہ عسکرین پر “السلام علیکَ یا هادیَ الْاُمَمْ” کی عبارت لکھی ہے، یہ اسی لقب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ عبادت زیارتِ امام حسن العسکریؑ کا حصہ ہے۔
۔
مجھے یاد ہے کہ جب امام حسن العسکریؑ کا ذکر ہورہا ہوتا تھا اور مسجد “صلوات الله و سلامه علیه” کی صداوں سے گونج رہی ہوتی تھی تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہوجایا کرتی تھی کہ جیسے اب فقط ہمارے امام وقتؑ کا نام نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ خود یہاں سیھات کی اس مسجد میں تشریف لاینگے۔ مولانا جونہی یا حجت القائم المنتظرؑ کے الفاظ پڑھتے تھے، تمام نمازی درود و سلام پڑھتے ہوئے، سر، پیشانی اور سینوں پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ہر طرف درود کی صدائیں ہوتی تھیں اور پس منظر میں مولانا کی آواز سنائی دے رہی ہوتی تھی جو روانی کے ساتھ امام زمانہؑ کا تذکرہ کررہے ہوتے تھے، آپؑ کے القابات بیان کررہے ہوتے تھے۔ نامِ محمدؐ سے شروع ہونے والی موتیوں کی یہ لڑی وارثِ محمدؐ کے اسمِ مبارک پر مکمل ہوجاتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس مسجد میں ابھی ابھی امام زمانہؑ کا استقبال کیا گیا ہو۔ پیشانیوں پر محراب کے نشان، سروں پر مخصوص سفید رومال اور ہاتھ سینوں پر رکھے مقامی شیعوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں پرانے مدینہ کی کسی مسجد میں کھڑا ہوں۔
۔
اسے پردیس کی تنہائی کا اثر کہہ لیں یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں نے اگر زندگی میں اپنے امامِ وقت کو سب سے زیادہ کہیں یاد کیا تو وہ یہی دور تھا جب میں دمام میں مقیم تھا اور سیھات و قطیف جایا کرتا تھا۔ بالخصوص سیھات کی وہ جامعہ مسجد جہاں وہ خوبصورت موتیوں کی لڑی میسر آتی تھی۔ آج کئی برس گزرنے کے بعد مجھے صدقِ دل سے یہ اقرار کرنے میں کوئی عار نہیں کہ زندگی کی مصروفیت اور دنیاوی خواہشات کے غلبے کی وجہ سے میں دوبارہ کبھی بھی اپنے امام وقتؑ کو ایسے یاد کر ہی نہ پایا۔ میں اُنؑ سے اس قدر غافل رہا کہ میرے سامنے دشمنِ اہل بیتؑ آپؑ کی شان میں گستاخی کرتے رہے اور میں انہیں جواب نہ دے سکا۔
۔
دشممانِ اہلیبیتؑ کی بدزبانی پر کیسا گلہ جب میں خود ہی اپنے امامِ وقتؑ سے غافل ہوں۔ البتہ میں نے عرفاء کی زبانی یہ سن رکھا ہے کہ ہم اپنے امامؑ سے چاہے جتنا غافل ہوں، وہ ہمیں کبھی نہیں بھولتے۔ آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئیؒ کا ایک واقعہ مولانا صادق حسن اکثر پڑھا کرتے ہیں کہ کس طرح زمانہ طالب علمی میں ہاسٹل میں قیام کے دوران ان پر منکشف ہوا تھا کہ امام زمانہؑ کس کس انداز سے رابطے میں رہتے ہیں اور کیسے اپنے چاہنے والوں کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ بدقسمتی تو ہماری ہے کہ ہم اُن سے بے خبر ہیں۔ اتنے بدقسمت کے ہمارے سامنے ہمارے امام وقتؑ ، آپ کے والد گرامی امام حسن العسکریؑ اور والدہ نرجس خاتونؒ کی اہانت کی جاتی ہے اور ہم جواب دینے کی بجائے آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔ واضح کر دوں کہ یہاں “ہم” سے مراد میری اپنی ذات ہے، یعنی میں واقف ہوں کہ میں اپنے امامِ وقت سے غافل ہوں۔
۔
شیعہ جن شخصیات سے اختلاف رکھتے ہیں یا جن سے فاصلہ رکھتے ہیں، اُن کے پاس اس کی وجوہات اور دلائل موجود ہیں۔ خلافت و امامت کا معاملہ ہو، جمل و صفین کی جنگیں ہوں، فدک کا معاملہ ہو یا واقعہ کربلا۔ ان تمام واقعات کے بارے میں شیعہ اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ شیعوں کے نزدیک معیار اہلیبیتؑ ہیں، جو ان کا دشمن ہے شیعہ اُس سے دور ہیں۔ لیکن مجھے آج تک یہ سمجھ نہ آسکی کہ یہ ناص بی کس بنیاد پر امام زمانہ یعنی امام محمدؑ بن حسنؑ بن علیؑ بن محمدؑ بن علیؑ بن موسی الکاظمؑ بن جعفرؑ بن محمد الباقرؑ بن علی زین العابدینؑ بن حسینؑ بن علیؑ بن ابی طالبؑ کی اہانت کرتے ہیں؟ آخر ان کی کیا دشمنی ہے؟ مجھے کچھ وجہ نہ سمجھ آسکی سوائے اس کے کہ اس اہانت کا سرا شام کے اُن اُموی منبروں سے جاملتا ہے جہاں سے ستر برس تک امام علیؑ پر سب و شتم کیا جاتا رہا۔
۔
غیر شیعہ مسلمانوں میں عقیدہ مہدویت کے بارے میں کیا کیا آراء موجود ہیں یہ یقینا ایک طویل موضوع ہوگا لیکن میں نے کوشش کی کہ اس حوالے سے کچھ عمومی معلومات حاصل کر سکوں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ آیا تمام غیر شیعہ مسلمان اس بارے میں ایک جیسی رائے رکھتے ہیں یا مختلف۔ لہذا میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عقیدہ مہدویت پہ مسلمانوں یعنی غیر شیعہ مسلمانوں کا اجماع نہ جزیات پہ ہے نہ ہی کلیات پہ۔
جہاں پہ کُلی اختلاف ہے وہ ناصبین یا نیم ناصبین کا گروہ ہے۔ یہ گروہ تو سرے سے وجودِ مہدی، ظہورِ مہدی کا ہی انکاری ہے۔ دور حاضر میں جاوید غامدی بھی اس کی مثال ہیں جو سرے سے عقیدہ مہدی کے ہی منکر ہیں۔ ابن خلدون ،محمد امین مصری اور قرضاوی جیسے چند افراد نے اس عقیدے کو غیر اسلامی عقیدہ بتانے کی کوشش کی ہے۔
اہلسنت کی اکثریت عقیدہ مہدی پر ایمان رکھتی ہے لیکن کیا اس اکثریت میں موجود سب کی رائے ایک جیسی ہے؟ یقینا نہیں۔
اگرچہ شیعہ اور سُنی دونوں مصادر میں ایسی روایات کثرت سے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں امام مھدیؑ عج امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں لیکن فی زمانہ جو عمومی رائے یا نظریہ اہلسنت کے ہاں امام مھدی علیہ السلام کے حوالے سے رائج ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نام محمدؑ ہوگا، اُن کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور وہ حسنی حسینی نسب سے ہونگے یعنی والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی۔ شیعوں کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ وہ کرہ ارض کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ لیکن آیا وہ منصوص من اللہ ہونگے، خلیفہ راشد ہونگے، مجدد ہونگے یا امام ہونگے، اس حوالے سے مجھے مختلف آراء پڑھنے کو ملیں۔
۔
اس سلسلے میں جو پہلی رائے میرے ذہن میں آئی وہ ڈاکٹر اسرار احمد کی رائے ہے۔ یاد رہے کہ اسرار احمد کی اپنی زندگی نظام خلافت کی تبلیغ میں گزر گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مھدی جنہیں اہلسنت کے نقطہ نظر کے حساب سے پیدا ہونا ہے وہ دراصل ایک مجدد ہونگے۔ جیسا کہ ان کے بقول ہر صدی میں ایک مجدد آتا رہا۔ بس فرق یہ ہے کہ امام مھدی ایک مجددِ کامل ہونگے۔
پھر میری نظر سے ایک رائے ایسی گزری جس میں امام مھدی کو خلیفہ راشد کہا گیا تھا۔ یعنی عمر بن عبدالعزیز کے بعد وہ ساتویں خلیفہ راشد ہونگے۔
اسی طرح جامعہ اشرفیہ کے فاضل حافظ ظفر اقبال کی کتاب “اسلام میں امام مھدی کا تصور” کے کچھ اقتباس بھی نظر سے گزرے جن میں یہ لکھا پایا کہ:
” اہلسنت والجماعت امام مھدی کو نہ ہی مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا درجہ انبیاء سے افضل مانتے ہیں۔ اور انکے کیلئے ہمارے ہاں جو اِمام کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس سے مراد کسی خاص گروہ کا اصطلاحی امام نہیں۔ ”
مذکورہ کتاب میں ظہور امام مہدی کے حوالے سے اہلسنت مصادر میں موجود احادیث اور علامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کتاب میں شیعہ اثناء عشریہ کے عقیدہ امام مھدیؑ عج کے بارے میں بھی کافی سخت ناقدانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔
مزید بات کریں تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے امام مھدی علیہ السلام کے حوالے سے بہت سا تحقیقی کام کیا ہے۔ سلفی، دیوبندی اور ناص بیوں کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری نے امام مھدی علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے اہلسنت اور اہل تشیع کے درمیان موجود چند اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے کافی نرم اور معتدل رویہ اختیار کیا ہے اور عقیدہ مھدی عج کو شیعوں اور سنیوں کا، چند اختلافات کے علاوہ، مشترکہ عقیدہ قرار دیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے جو چند لیکچر سنے ان میں کہیں یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے نزدیک امام مہدی علیہ السلام کا عہدہ کیا ہوگا لیکن یہ ضرور محسوس ہوا کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کو منصوص من اللہ ہستی بتلا رہے ہیں۔
۔
دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی انداز میں ایک مسیحا کا تصور موجود ہے جو زمانہ آخر میں آئے گا۔ تقریبا ہر مذہب کا یہی کہنا ہے کہ یہ مسیحا عدل و انصاف کو ممکن بنائے گا، سسکتی انسانیت کی دادرسی کرے گا، مظلوم کا ساتھ دے گا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کرہ ارض پر کبھی بھی مکمل طور پر عدل و انصاف نہ قائم ہوسکا۔ سرمایہ دارانہ نظام، جنگی ہتھیاروں کی دوڑ، عالمی طاقتوں کی کمزر ممالک پر اور قدرتی وسائل سے مالامال ملکوں پر چڑھائی۔ اپنے ملکوں میں مثالی امن قائم کرکے، وہاں کی عوام کو سہولیات اور اچھا طرزِ زندگی مہیا کرکے دوسرے ملکوں میں ہتھیار پہنچانا اور وہاں کی عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنا، یہ عالمی طاقتوں کا شیوہ رہا۔ لاکھوں کروڑوں انسان عالمی جنگوں کی نذر ہوچکے، ایٹمی حملوں میں مارے گئے۔ یہ سب کچھ اسی کرہ ارض پر ماضی قریب و بعید میں ہوتا رہا اور اب تک جاری ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ انبیاءؑ کے ادوار میں بھی سرکشی جاری رہی اور عدل و انصاف قائم نہ ہوسکا۔ لہذا اللہ نے اپنی آخری حجت کے ظہور کے ساتھ جس بات کو لازم و ملزوم رکھا وہ “عدل” ہے۔ گویا امام مھدیؑ اُس شخصیت کا نام ہے جو کرہ ارض پر وہ عدل قائم کرینگے جو تاریخ انسانی میں کبھی قائم نہ ہوسکا۔ گویا وہ نور جس کی تکمیل کا اشارہ قران میں کیا گیا، وہ یہی نور ہے جو امام مھدیؑ کی صورت تکمیل کو پہنچے گا۔
یاد دلاتا چلوں کہ “عدل” مکتب اہلیبیتؑ کے اُصول دین میں شامل ہے اور یہ بھی یاد دلا دلوں کے عدل کی صد ظلم ہے۔ پس جسے عدل قائم کرنے والے مھدیؑ کی مخالفت کرتا دیکھیں، سمجھ جائیں ظالم ہے یا ظالموں کا وارث۔
۔
میں نے اِس تحریر کا آغاز سیھات کی مسجد سے کیا تھا کیوں کہ اِس کی بدولت مجھے وہ زمانہ یاد آیا تھا جب میں اپنی اب تک کی زندگی میں اپنے امامِؑ زمانہ کو سب سے زیادہ یاد کیا کرتا تھا اور یہ احساس بھی پیدا ہوا تھا کہ اب میں اپنے اِمام سے کس قدر غافل ہوں۔ اُس مسجد میں بننے والی موتیوں کی لڑی نے ہی مجھے بارگاہِ امامِؑ زمانہ میں یہ ٹوٹے پھوٹے لفظ ہدیہ کرنے کی توفیق دی تھی۔ اِس تحریر کا بیشتر حصہ میں نے دو سال قبل لکھا اور نشر کیا تھا، آج کچھ اضافے اور تعدیل کے ساتھ اِسے دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔ دل میں یہ کسک موجود ہے کہ میں اپنے امامؑ زمانہ، اپنے آقا و مولاؑ سے غافل ہوں لیکن یہ اطمینان بھی بہرحال موجود ہے کہ میرے وقت کا امامؑ، میرا رہبر و مولاؑ مجھ سے اور اپنے چاہنے والوں سے غافل نہیں۔ ہمارے مولاؑ بہت محبت سے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، وہؑ ہمیں تنہا اور لاوارث نہیں چھوڑیں گے۔ بقول افتخار عارفؔ “کریمؑ اپنے غلاموں کو کبھی تنہا نہیں کرتے کبھی رسوا نہیں کرتے۔”
۔
دیکھوں نہ اگر اُٹھتے ہوئے پردہِ غیبت
آئیں جو میرے بعد یہاں حضرتِ حجتؑ
تُربت میں ابدؔ کوئی میرا شانہ ہلا دے