قافلہ حسینیؑ کی مدینہ سے روانگی از نور درویش
کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک ضعیف پنجابی شخص کا انٹرویو دیکھا جو سنہ سنتالیس میں تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب کے علاقے جالندھر کے کسی نواحی گاوں سے ہجرت کرکے مغربی پنجاب (پاکستان) آیا تھا۔ انٹرویو کرنے والے نے اس ضعیف شخص سے سوال پوچھا کہ آپ کو اپنے اس گاوں کی یاد تو آتی ہوگی جہاں آپ کا بچپن گزرا؟ ضعیف شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور اس نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ مجھے تو اب تک خواب بھی اپنے گاوں کے ہی نظر آتے ہیں۔
۔
میں لاہور میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا۔ جس علاقے میں میرے بچپن کے ماہ و سال گزرے، کچھ عرصہ پہلے میں اس علاقے میں گیا۔ میرے ذہن میں اس علاقے کا وہی نقشہ تھا جیسا میں نے علاقہ چھوڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن وہاں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ گھر اور گلیاں وہی تھے لیکن شکلیں بدل چکی تھیں، جہاں میدان تھے وہاں نئے گھر بن چکے تھے، جہاں ایک منزلہ مکان تھے وہاں دو منزلہ عمارتیں بن چکی تھیں۔ جس گھر میں میرا بچپن گزرا، میں کچھ دیر اس گھر کے سامنے کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ اس گھر میں میرے بچپن اور لڑکپن کے دن گزرے، انہی گلیوں میں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ بچپن کے دن یاد کرتے ہوئے دل بیٹھتا محسوس ہوا اور میں واپس چلا آیا۔ لیکن اس علاقے کا بدلہ نقشہ دیکھنے کے بعد بھی جب میں کبھی خواب میں اس علاقے کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہی پرانہ نقشہ نظر آتا ہے، جہاں میرا بچپن گزرا۔
۔
یہ اس ضعیف پنجابی بزرگ اور مجھ جیسے عام انسانوں کی فطرت ہے کہ جہاں پچپن گزرا ہو، اس علاقے کی انسیت و محبت تمام زندگی دل میں موجود رہتی یے۔ تو اندازہ کیجئے کہ ان پاک و مطھر ہستیوں کی اس شہر اور علاقے سے انسیت و محبت کا عالم کیا ہوگا جس کی نسبت ان کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے؟ جو مدینہ النبی کہلاتا ہے۔ اٹھائیس رجب سنہ ساٹھ ہجری میں جب امام حسین علیہ السلام نے آخری بار اپنی مادر گرامی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی قبر پر آکر سلام آخر کہا ہوگا تو کیا کچھ یاد نہ آیا ہوگا۔ نانا ص کو خدا حافظ کہتے ہوئے بچپن کے دن کتنا یاد آئے ہونگے، بھائی حسن مجتبی علیہ السلام سے آخری ملاقات کرتے ہوئے بھائی کو کتنا یاد کیا ہوگا۔ مدینہ کی گلیوں کو آخری بار دیکھتے ہوئے قلب مطھر کی کیا کیفیت ہوگی کہ یہ وہی گلیاں ہیں جہاں دوش رسالت ص پر نواسوں کو بیٹھا دیکھ کر دیکھنے والوں نے کہا تھا کہ واہ کیا خوب سواری ہے اور لسان رسالت ص سے جواب آیا تھا کہ سوار بھی تو کیا خوب ہیں۔
۔
اہلیبیت علیھم السلام کو مدینہ سے بہت محبت تھی لیکن انہیں ہمیشہ مدینہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ چاہے امام حسین علیہ السلام ہوں یا امام موسی کاظم یا علی ابن موسی الرضا یا امام امام تقی و نقی و عسکری علیھم السلام۔ ہمارے ائمہ اہلیبیت علیھم السلام مدینہ سے بہت محبت کرتے تھے لیکن انہیں مدینہ میں رہنے نہ دیا گیا۔
ہم جیسے عام انسان اپنے بچپن کا علاقہ یا اپنا آبائی وطن چھوڑ کر کہیں اور بس جائیں تو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ جب کبھی موقع ملے گا تو اپنا آبائی شہر یا علاقہ دیکھ آئیں گے۔ نقشہ بدل گیا ہوگا تو کیا ہوا، علاقہ تو وہی ہوگا۔ لیکن اندازہ کیجئے سردار جوانان جنت کعبہ القلوب امام حسین علیہ السلام کا اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کو آخری بار الوداع کہہ کر اس عالم میں ہجرت کرنا کہ اب دوبارہ یہاں واپس نہ آئیں گے بلکہ کرب و بلا کے بن میں ایک نیا شہر بسائیں گے۔
کیا کیفیت ہوگی یہ دیکھ کر کہ مدینہ کا نقشہ تو نہیں بدلا لیکن اہل مدینہ تو بہت بدل گئے۔ اتنا بدل گئے کہ نواسہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ چھوڑ رہا ہے اور کوئی الوداع کہنے والا نہیں؟ وہی شہر جس کی گلیوں میں لوگ نواسے کو ناناؐ کے کاندھوں پر سواری کرتا دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ کیا خوب سواری ہے اور جواب میں پیغمبر اکرم صلی علی علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سوار بھی تو بہت خوب ہیں، اسی شہر میں آج نواسے کو کوئی الوداع کہنے والا نہیں؟
نانا ص کا شہر چھوڑنے کے غم کے ساتھ دوسرا غم امام حسین علیہ السلام کو یہی تھا جس کا اظہار مولا حسین علیہ السلام صبح عاشور تک کرتے رہے۔
۔